کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے: خواتین پر تشدد کی روک تھام کے مرکز کی کارکردگی پر بنائی گئی رپورٹ کیوں چھپائی گئی؟

postImg

فاطمہ رزاق

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے: خواتین پر تشدد کی روک تھام کے مرکز کی کارکردگی پر بنائی گئی رپورٹ کیوں چھپائی گئی؟

فاطمہ رزاق

loop

انگریزی میں پڑھیں

خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے پنجاب میں قائم کیے گئے واحد مرکز کے بارے میں تین سال پہلے بنائی گئی ایک سرکاری رپورٹ ابھی تک نہیں چھاپی گئی کیونکہ اس میں کیے گئے انکشافات سے اس مرکز کی ایک منفی تصویر سامنے آتی ہے۔ 

اس رپورٹ کی تیاری 2018 کے اواخر میں شروع ہوئی تھی اور اس کا مقصد ملتان میں قائم اس مرکز کی کارکردگی کا جائزہ لینا تھا۔ پنجاب میں خواتین کی حالت پر کام کرنے والے صوبائی کمیشن کی اس وقت کی چیئرپرسن فوزیہ وقار نے اس رپورٹ کی تیاری کا کام غیرجانبدار تحقیق کاروں کی ایک ٹیم کو سونپا تھا۔

'پنجاب میں خواتین کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے خصوصی طریقہ ہائے کار: صنفی بنیاد پر تشدد کے مقدمات سننے والی لاہور کی خصوصی عدالت اور خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے لیے ملتان میں بنائے گئے مرکز کا جائزہ' کے عنوان سے یہ رپورٹ 2019 کے اوائل میں مکمل کر لی گئی۔ تاہم اسی سال فوزیہ وقار کے عہدے کی مدت ختم ہو گئی اور یہ رپورٹ منظرعام پر نہ آ سکی۔

فوزیہ وقار کے لیے اس کا تاحال سامنے نہ آنا ایک پریشان کن بات ہے مگر وہ سمجھتی ہیں کہ اس کے مندرجات کے باعث ہی اسے شائع نہیں کیا گیا۔ 

اس رپورٹ کے مرکزی مصنف سہیل اکبر وڑائچ لاہور میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے شرکت گاہ کے ساتھ کنسلٹنٹ کے طور پر وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں ڈالے جانے سے پہلے ہی اس کے مندرجات کو سنسر کرنے کا کام شروع ہو گیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب انہیں اس کی غیر شائع شدہ ڈیجیٹل کاپی موصول ہوئی تو اس میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے مرکز کی کارکردگی سے متعلق کوئی بات بھی شامل نہیں تھی۔ تاہم انہوں نے اسی نامکمل رپورٹ کو شرکت گاہ کی ویب سائٹ پر ڈال دیا۔

خواتین کی حالت پر کام کرنے والے صوبائی کمیشن کے اہل کار یا تو اس بات سے واقعی لاعلم ہیں کہ رپورٹ کے  لکھے جانے کے بعد اس میں کوئی تبدیلیاں کی گئیں یا وہ اس کے بارے میں لاعلمی کا بہانہ کرتے ہیں۔ اس میں کام کرنے والے سینئر وکیل عمران جاوید قریشی کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ گزشتہ تین سال سے چیئرپرسن کے بغیر کام کر رہا ہے اور اس کے پاس اپنا دفتر چلانے کے لیے درکار مالی وسائل بھی نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "گزشتہ تین سال سے کمیشن کو اپنے تیار کردہ تحریری مواد کو سنبھالنے کے لیے تکنیکی وسائل بھی دستیاب نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ رپورٹ ابھی تک شائع نہیں ہو سکی"۔

تاہم عمدہ کاغذ پر چھپی ہوئی اس رپورٹ کی سینکڑوں کاپیاں ان کے دفتر سے متصل کمرے میں پڑی ہیں جن سے وہ اور ان کے بیشتر رفقائے کار بظاہر لاعلم ہیں۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان کاپیوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے مرکز سے متعلق باب موجود ہے یا نہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ سرکاری طور پر یہ رپورٹ تاحال کسی کو بھی نہیں دکھائی گئی۔ 

سرکاری ضابطوں کی حکومتی خلاف ورزی

خواتین پر تشدد کی روک تھام کا مرکز 2016 میں بنائے گئے ایک قانون کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ اس قانون میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ صوبے میں خواتین کے تحفظ کے لیے ایک اتھارٹی بھی قائم کی جائے گی جس کے پاس پنجاب بھر میں ایسے مراکز بنانے اور ان کی دیکھ بھال اور نگرانی کرنے کا اختیار ہو گا۔ 

لیکن منظرعام پر نہ لائی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومت نے 25 مارچ 2017 کو ملتان میں بنائے گئے مرکز کا افتتاح تو کر دیا لیکن اُس وقت اتھارٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی جاری نہ کیا جا سکا۔ بلکہ اس کا قیام دو سال بعد 2019 میں عمل میں آیا۔ 

درمیانی عرصے میں پنجاب حکومت کے سٹریٹیجک ریفارم یونٹ (ایس آر یو) نے مرکز کے معاملات کو چلایا حالانکہ اسے ایسا کرنے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا۔ 2013 سے 2018 تک پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی حکومت میں ایس آر یو کے سربراہ کے طور پر کام کرنے والے سلمان صوفی خود تسلیم کرتے ہیں کہ "اس مقصد کے لیے بہت سے سرکاری اور دفتری ضابطوں کو نظرانداز کیا گیا"۔ 

رپورٹ کا کہنا ہے کہ ان ضابطوں کو نظرانداز کیے جانے سے کئی مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بگڑ گئے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایس آر یو نے 26 ستمبر 2017 کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ایک خاتون سمیت ملتان سے تعلق رکھنے والے پانچ وکلا کو اس مرکز میں متعین کیا تاکہ وہ صوبائی پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر خواتین پر تشدد کے مقدمات پر کام کر سکیں۔ لیکن ان وکلا کی نوکری کی مدت صرف تین ماہ تھی لہٰذا دسمبر 2017 کے آخر میں انہوں نے کام چھوڑ دیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اگلے پورے سال مرکز کے لیے کسی ایک وکیل کی خدمات بھی حاصل نہ کی گئیں۔

رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ خواتین پر تشدد کی روک تھام کے مرکز میں قائم کیے گئے پولیس سٹیشن کو اس کے لیے خصوصی طور پر درکار ضابطہ ہائے کار (ایس او پیز) کے بغیر ہی چلایا جاتا رہا۔ پنجاب پولیس کے ملتان میں واقع علاقائی دفتر نے مارچ 2017 اور اگست 2017 کے درمیانی عرصہ میں ان ایس او پیز کے دو مسودے تیار تو کیے لیکن وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نام بڑا اور درشن چھوٹے: تشدد سے متاثرہ خواتین کی مدد کے لیے بنایا گیا مرکز اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام۔

ان عوامل کی بنیاد پر اس رپورٹ میں شک کا اظہار کیا گیا کہ آیا مرکز میں خواتین پر تشدد میں ملوث افراد کے خلاف فوری قانونی کارروائی کرنے اور انہیں سزا دینے کی اہلیت موجود بھی تھی یا نہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر رپورٹ میں کہا گیا کہ اپنے قیام کے بعد پہلے دو سالوں میں یہ مرکز ایسے واقعات میں ملوث کسی ایک شخص کو بھی سزا نہ دلا سکا۔ 

اس کے برعکس اسی عرصے میں اس نے خواتین پر تشدد کی بہت سی شکایات مسترد کر دیں۔ ان میں جنسی زیادتی کی نو شکایات بھی شامل تھیں۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ مرکز میں قائم پولیس سٹیشن کا عملہ ایسے واقعات میں فریقین کو آپس میں سمجھوتہ کرنے یا متاثرین اور ان کے اہلخانہ کو الزامات واپس لینے اور ملزمان کے ساتھ صلح کرنے کی اجازت کیوں دے رہا تھا۔  

رپورٹ تیار کرنے والے محققین نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اس پولیس سٹیشن کی سربراہ ایک خاتون سب انسپکٹر تھیں جو ایک خاتون ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کو جواب دہ تھیں حالانکہ متعلقہ قانون کہتا ہے کہ پولیس سٹیشن کی سربراہ کسی خاتون انسپکٹر کو ہونا چاہیے جو ایک خاتون سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کو جواب دہ ہوں۔ ان کے مطابق اس پولیس سٹیشن کا عملہ صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے واقعات کی حساسیت سے بھی آگاہ نہیں تھا۔ اس لیے "اس کا رویہ ایسے  واقعات سے نمٹنے کے لیے مناسب نہیں تھا"۔

سہیل اکبر وڑائچ اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ کس طرح پولیس سٹیشن کی سب انسپکٹر نے جنسی زیادتی کی متاثرہ خواتین کو ہی ان پر ہونے والے تشدد کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ ان کے مطابق رپورٹ کی تیاری کے دوران انہوں نے جب سب انسپکٹر کا انٹرویو کیا تو اس کا کہنا تھا کہ "ہمارے پاس آنے سے پہلے یہ خواتین نجانے کتنی مرتبہ اپنے ساتھ جنسی زیادتی کرواتی ہیں"۔ 

نیا قانون بمقابلہ مستحکم ادارے

حقیقت یہ ہے کہ اب بھی خواتین پر تشدد کی روک تھام کے اس مرکز اور اس میں موجود پولیس سٹیشن کا دائرہ کار، طریقہ کار اور دائرہ اختیار واضح نہیں ہے۔ اسی طرح اس کے قیام کے پانچ سال بعد بھی اس میں ڈاکٹروں، وکلا، ماہرین نفسیات اور لیبارٹری معاونوں سمیت بہت سے عملے کی تعیناتی نہیں ہو سکی۔

مرکز کے نقادوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں خواتین پر تشدد کے مقدمات کے اندراج اور ان پر کارروائی کے طریقہ کار کے بارے میں بھی ابہام پایا جاتا ہے۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ آیا ضلع ملتان کی جغرافیائی حدود میں ہونے والے ایسے کسی بھی واقعے کی رپورٹ صرف اسی مرکز کے پولیس سٹیشن میں ہی درج کرائی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر دور دراز دیہات میں رہنے والی غریب اور ان پڑھ خواتین کے لیے طویل سفر کر کے یہاں رپورٹ درج کرانا ممکن نہیں ہو گا۔ اگر ایسا نہیں تو کیا تشدد سے متاثرہ خواتین کو پہلے اپنے قریبی پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرانی چاہیے جس کے بعد ان کا مقدمہ مزید تفتیش اور قانونی کارروائی کے لیے مرکز کے پولیس سٹیشن کو بھیجا جانا چاہیے؟ تاہم اس صورت میں ایک خصوصی پولیس سٹیشن قائم کرنے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے کیونکہ یہ اسی لیے بنایا گیا تھا کہ خواتین کو ان مسائل سے بچایا جائے جو انہیں اپنے ساتھ پیش آنے والے تشدد کے واقعات کے بارے میں عام پولیس سٹیشنوں میں اطلاع دیتے ہوئے پیش آتے ہیں۔ 

اس رپورٹ کی معاون مصنف اور لاہور سے تعلق رکھنے والی وکیل حبا اکبر کا کہنا ہے کہ اس تمام ابہام کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے 2016 میں بنائے گئے خواتین کو تشدد سے تحفظ دینے کے قانون کے نفاذ کے لیے درکار قواعد و ضوابط ابھی تک وضع نہیں کیے۔ان کے مطابق "محض قانون بنا دینے سے خواتین کے خلاف تشدد کا صدیوں پرانا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا"۔ 

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ قانون بھی دراصل عجلت میں تیار کیا گیا تھا تاکہ خواتین پر ہونے والے تشدد کا کوئی فوری حل نافذ کیا جا سکے۔ حالانکہ، ان کے بقول، اس پر موثر انداز میں عملدرآمد کے لیے اس کے لیے ضروری تمام ادارہ جاتی انتظامات بھی اس کی منظوری کے ساتھ ہی یقنیی بنائے جانا چاہیے تھے۔

تاہم سلمان صوفی اس معاملے میں ہونے والی پیش رفت کی سست رفتار سے پریشان نہیں۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مرکز کے بارے میں رپورٹ کو شاید اس لیے سنسر کیا گیا کہ اس کے قیام کے نتیجہ خیز ہونے سے پہلے ہی کہیں اس کی ساکھ خراب نہ ہو جائے کیونکہ، ان کے مطابق، "ایسے اداروں کو قائم کرنے اور مضبوط بنانے میں بہت وقت لگتا ہے"۔

تاریخ اشاعت 30 اپریل 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فاطمہ رزاق مذہبی اقلیتوں، خواتین اور بچوں کے انسانی حقوق سے متعلق مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.