رواں سال جنوری میں انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان میں پاور سیکٹر (بجلی) کا گردشی خسارہ دو ہزار 700 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے ۔ ہر ماہ تقریباً 49 ارب کی بچلی چوری ہو رہی ہے جس کی قیمت عوام بجلی مہنگی ہونے کی صورت میں چکا رہے ہیں۔
جب بھی ملک میں پاور سیکٹر کے مالی خسارے کی کوئی نئی رپورٹ سامنے آتی ہے کمپنیوں کے اہلکار بجلی چوروں کے خلاف چند روز کاروائیاں کرتے ہیں اور پھر خاموشی اختیا ر کر لی جاتی ہے مگر اگلی بار خسارہ مزید بڑھ چکا ہوتا ہے۔
محمد افضل لاہور کے علاقہ داروغہ والا کے رہائشی ہیں جو محنت مزدوری کرکے بمشکل اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔ حال ہی میں لیسکو نے ناصرف ان کا بجلی کنکشن منقطح کر دیا بلکہ انہیں 80 ہزار روپے جرمانہ کیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی ماہانہ آمدن 15 سے 20 ہزار روپے ہے جس کے باعث وہ تین ماہ کا بل ادا نہیں کر پائے اور ان کا میٹر کاٹ دیا گیا۔ انہوں نے بھی دیگر محلے داروں کی طرح ڈائریکٹ بجلی استعمال کرنا شروع کر دی۔
تاہم چند ہی روز میں لیسکو ٹیم نے نہ صرف تمام کنڈے اتار دیے بلکہ محمد افضل سمیت سب محلے والوں کو جرمانے بھی کر دیے۔ یوں مہنگی بجلی اور بھاری بلوں کی وجہ سے کم آمدنی والے لوگ اس بجلی چوری کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔
نگراں حکومت نے گذشتہ ستمبر میں جو اعداد و شمار بتائے تھے ان کے مطابق کراچی کے سوا ملک میں تین ہزار 781 ارب روپے مالیت کی بجلی سسٹم میں دی جاتی ہے لیکن اس میں سے لگ بھگ تین ہزار 192 ارب روپے واپس آتے ہیں یعنی سالانہ 589 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے۔
نگراں وزیر توانائی محمد علی نے کابینہ کے دیگر ارکان کے ساتھ پریس کانفرنس میں برملا کہا تھا کہ جو لوگ بل ادا کرتے ہیں بجلی چوری کی وجہ سے انھیں بھی بجلی مہنگی ملتی ہے۔
نیپرا کے کنزیومر مینوئل کے مطابق ٹیرف (لاگت) کا مطلب بجلی کے نرخ، چارجز، بجلی کی پیداوار کی شرائط، ترسیل، انٹرکنکشن اور ڈسٹری بیوشن کمپنوں کی سروسز (تقسیم اور فروخت) کاخرچ ہو گا۔ یعنی یہ تمام اخراجات فی یونٹ کے حساب سے (کیٹیگری لاگو کر کے) صارف کو ادا کرنا ہوتے ہیں۔
سپلائی کے دوران بجلی کا تکنیکی نقصان دو طرح کا ہوتا ہے۔
ہائی ٹرانسمشن لائنوں کے ذریعے پیداواری یونٹس سے بڑےگرڈ تک ترسیل میں ہونے والے نقصان کو ٹی اینڈ ٹی (ٹرانسمشن اینڈ ٹرانسفارمیشن) لاسز کہا جاتا ہے جو نیشنل ٹرانسمشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی)کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔
گرڈ سے صارف تک لائنوں میں ہونے والا نقصان ٹی اینڈ ڈی (ٹرانسمشن اینڈ ڈسٹری بیوشن) لاسز کہلاتا ہے جو تقسیم کار کمپنییوں ( ڈسکوز) کے کھاتے میں ہوتا ہے۔
نیپرا نے این ٹی ڈی سی کو 500 کے وی اور 220 کے وی نیٹ ورک پر 2.639 فیصد ٹی اینڈ ٹی لاسز کی اجازت دی ہوئی ہے جبکہ مٹیاری لاہور 660 کے وی لائن کے لیے یہ حد 4.3 فیصد تک مقرر کی گئی ہے۔
تاہم این ٹی ڈی سی کے لاسز اکثر حد میں رہتے ہیں مگر بجلی چوری کی وجہ سے بجلی کی تقسیم کار کمپنییوں کا نقصان بڑھ جاتا ہے۔
سنٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے گزشتہ سال مئی کے لیے فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ (ایف سی اے) کی مد میں بجلی کی قیمت بڑھانے کے لیے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا) کو درخواست دی تھی جس کی سماعت کے بعد اس نے جولائی میں اپنا فیصلہ جاری کیا۔
درخواست میں بتایا گیا کہ تقسیم کار کمپنییوں کے صارفین کے لیے نرخ 7.8281 روپے فی یونٹ (کلو واٹ آور) مقرر تھے جبکہ مئی میں مہنگے ایندھن کے باعث فی یونٹ 9.8817 لاگت آئی جس پر مذکورہ مہینے کے نرخ 2.0536 روپے یونٹ بڑھانے کی تجویز دی گئی۔
این ٹی ڈی سی نے مئی کی سپلائی میں 262.48 گیگا واٹ یعنی 2.260 فیصد عارضی ٹی اینڈ ٹی لائن لاسز بتائے جبکہ ہائی وولٹیج لائن مٹیاری- لاہور کے لاسز 35.491 گیگا واٹ یعنی 2.927 فیصد بتائے گئے۔ یعنی اس ماہ کل ملاکر ٹی اینڈ ٹی لاسز 297.97 گیگا واٹ بنے جن کو نرخ مقرر کرنے میں شامل کیا گیا ہے۔
نیپرا نے مزید لکھا کہ تھر کول بلاک ون ( TCB-I) سے مٹیاری لاہور ہائی ٹرانسمیشن لائن نو مئی 2023ء کو مکمل ہو چکی تھی۔ تاہم سسٹم میں رکاوٹوں اور مسائل حل کرنے میں متعلقہ محکموں کی ناکامی کے باعث تھر کول منصوبوں سے سپلائی تقریباً 55.68 گیگا واٹ کم رہی جس سے اربوں روپے کا مالی نقصان ہوا۔
نیپرا نے فیصلے میں بتایا کہ سماعت کے دوران مشاہدے میں آیا کہ مئی 2023ء کے دوران مہنگے ایندھن سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس چلائے گئے جو سسٹم آپریٹر (این ٹی ڈی سی کا شعبہ نیشنل پاور کنٹرول سنٹر ) کا اکنامک میرٹ آرڈر (ای ایم او) سے انحراف ہے۔
اتھارٹی کے مطابق ای ایم او سے انحراف کے نتیجے میں سٹریٹجک ٹیبل سے ٹرانسمشن لائن کی بندش (مستقل خرابی / ایچ وی ڈی سی) کے باعث 864.66 ملین روپے، معاہدوں کی پابندی ( ٹیک ایںڈ پے ) سے 46.96 ملین روپے کے مالی نقصان ہوئے۔
اسی طرح ٹرانسمشن نیٹ ورک اوور لوڈنگ سے611.28 ملین روپے، ٹرانسفارمیشن اوور لوڈنگ میں 99.20 ملین روپے اور اعلیٰ کارکردگی والے (ایفیشنٹ) پلانٹس کے کم استعمال سے 48.82 ملین روپے کا نقصان ہوا جو مجموعی طور پر1,670.92 ملین (ایک ارب 67 کروڑ سے زائد) روپے بنتا ہے۔
نیپرا نے یہ رقم عارضی طور ایف سی اے میں شامل کرنے سے روک دی تاہم مئی کے لیے نرخ 2.0536 روپے بڑھانے کی بجائے تقریباً دو روپے(1.9039) فی یونٹ بڑھانے کی منظوری دے دی۔
ڈسٹری بیوشن کمپنیاں (ڈسکوز) اپنا ٹیرف (نرخ ) بڑھوانے کے لیے نیپرا سے الگ رجوع کرتی ہیں۔ ایسی ہی درخواست پر مالی سال 23-2022ء کی چوتھی سہ ماہی کے ٹیرف کی ایڈجسٹمنٹ کی گئی تھی جس کے تحت صارفین پر ایک سو پینتیس ارب روپے سے زائد کی ریکوری ڈال دی گئی۔
نیپرا نے یہ فیصلہ 22 ستمبر 2023ء کو جاری کیا تھا جس میں بتایا گیا کہ ریکوری میں مارکیٹ آپریٹر فیس اور ایف سی اے کے لائن لاسز (ٹی اینڈ ڈی) پر اثرات، کپیسٹی چارجز میں تبدیلی، او اینڈ ایم (آپریشن اور منیجمنٹ)، انکریمنٹل سیلز پر اضافی وصولی اور سسٹم چارجز شامل ہیں۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ 135 ارب 58 کروڑ سے زائد روپے آئندہ چھ ماہ (یعنی اکتوبر 2023ء سے مارچ 2024ءتک) میں ڈسکوز اور کے الیٹرک کے صارفین سے وصول کیے جائیں گے جس کے لیے بجلی کی قیمت چھ ماہ کے لیے 3.2814 روپے فی یونٹ (یونیفارم ٹیرف ریٹ) بڑھا دی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کے فیصلے میں لائن لاسز کی تفصیل تو بتا دی گئی تھی جبکہ ڈسکوز کے ٹیرف پر فیصلے میں ٹی اینڈ ٹی لائن لاسز کی کوئی تفصیل نہیں۔
تاہم 'مارکیٹ آپریٹر فیس اور ایف سی اے کے لائن لاسز پر اثرات' کا ذکر کر کے 3.2814 روپے فی یونٹ بل بڑھا دیا گیا۔
نیپرا کی مقررہ کردہ حدود سے زائد لائن لاسز یا بجلی چوری اور وصولیوں میں ناکامی کو ڈسکوز کا خسارہ قرار دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر بار بجلی مہنگی کرنے کے باوجود خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔اس طرح تقسیم کار کمپنییوں کی ناکامیوں کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔
کئی برسوں سے توانائی کے شعبے سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی طالب فریدی کہتے ہیں کہ اب تو سسٹم میں ڈالی جانے والی بجلی کی کل قیمت میں خسارے کی رقم شامل کر لی جاتی ہے۔ جس کو استعمال شدہ یونٹس میں تقسیم کرکے فی یونٹ قیمت مقرر کر دی جاتی ہے۔
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کی 2023ء کی سٹیٹ آف انڈسٹری رپورٹ بتاتی ہے کہ ڈسکوز نے مالی سال 23-2022ء کے دوران لائن لاسز کی مد میں لگ بھگ 160 ارب 49 کروڑ روپے کا نقصان کیا جس میں سب سے زیادہ حصہ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) نے ڈالا جو77 ارب 35 کروڑ روپے تھا۔
رپورٹ کے مطابق اسی سال آئسکو نے لائن لاسز میں 28 کروڑ، لیسکو نے 21 ارب 79 کروڑ، میپکو سات ارب 95 کروڑ، حیسکو 15 ارب، سیپکو 20 ارب 38 کروڑ اور کیسکو نے 21 ارب 21کروڑ روپے کا نقصان کیا۔ تاہم ٹیسکو کے لائن لاسز کا نقصان تقریباً ساڑھے 16 کروڑ، گیپکو ایک ارب 86 کروڑ اور فیسکو کا نقصان ایک ارب 45 کروڑ روپے رہا۔
اسی طرح ریکوری کے معاملے میں ڈسکوز گزشتہ سال تقریبا 212 ارب روپے کے بل وصول کرنے میں ناکام رہیں جبکہ کے الیکٹرک 38 ارب 88 کروڑ روپے سے زائد رقم وصول نہ کر سکی جو گردشی قرضوں (سرکلر ڈیٹ)کا بڑا سبب ہے۔
اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ لائن لاسز (ڈی اینڈ ٹی ) اور وصولیوں کی کمی پوری کرنے کے لیے ڈسکوز فرضی بلنگ کرتی ہیں۔
نسرین بی بی لاہورکے مضافاتی علاقے باٹاپور کی رہائشی ہیں جو اپنے تین بچوں کے ساتھ تین مرلے کے گھر میں رہتی ہیں جبکہ ان کے شوہر فوت ہوچکے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ رواں سال جنوری میں انہیں 24 ہزار روپے سے زائد کا بل بھیجا گیا حالانکہ ان کے گھر میں فریج ہے اور نہ ہی اور کوئی مشین۔
وہ کہتی ہیں کہ ان کے استعمال شدہ یونٹ 100 سے بھی کم تھے لیکن انہیں اضافی بل بھیج دیا گیا۔ وہ بل ٹھیک کرانے لیسکو دفتر گئیں لیکن عملے نے انکار کر دیا تاہم کسی کی سفارش پر بل کی قسطیں کر دی گئیں جو وہ ادا کر رہی ہیں۔
طالب فریدی تصدیق کرتے ہیں کہ لاہور اور مضافات میں بجلی چوری مجموعی سپلائی کا تقریباً 30 فیصد ہے جس کی وجہ سے لیسکو ریجن میں اوور بلنگ کی جا رہی ہے۔ اضافی یونٹس سے ٹیرف کے ساتھ ٹیکس بڑھ جاتے ہیں اور جب کوئی صارف شکایت لے کر جاتا ہے تو بل ٹھیک کرنے بجائے قسطیں کردی جاتی ہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت بھی اووربلنگ کا نوٹس نہیں لے رہی۔ تاہم نیپرا کے فوکل پرسن کہتے ہیں کہ اتھارٹی نے شہریوں کی شکایات پر ڈسکوز سے اووربلنگ کی تفصیلات مانگی ہیں جس کی رپورٹ آنے پر متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
نیشنل ٹرانسمیشن اینڈڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی ) کے سابق چیف انجینئر جعفر حسین کا ماننا ہے کہ ڈسٹری بیوشن لائن لاسز کا نقصان کم کرنے کے لیے ڈسٹری بیوشن نظام کو بہتر کرنا ہو گا اور چوری کی روک تھام کے لیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع شیرانی میں آٹھ سال پہلے عارضی طور پر معطل کی گئی بجلی بحال نہ ہو سکی
تاہم سابق ڈائریکٹر ٹیکنیکل لیسکو سید شبیہ الحسن سمجھتے ہیں کہ بجلی چوری روکنا اہم ہے لیکن ٹرانسفارمر سے صارف تک بجلی کا ترسیلی نظام مضبوط بنانے سے لائن لاسز زیادہ کم ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق خسارے میں کمی کے لیے انڈپینڈینٹ پاور پرڈیوسرز (آئی پی پیز) سے معاہدوں پر نظرثانی کرنا ضروری ہے۔
بجلی چوری روکنے سے متعلق لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پچھلے پانچ ماہ میں 54 ہزار92 افراد بجلی چوری میں ملوث پائے گئے جن میں سے 49 ہزار 907 کے خلاف مقدمات درج کرائے گئے جبکہ 17ہزار 564 ملزموں کو گرفتار کرایا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ بجلی چوروں کو اب تک دوارب 83 کروڑ سے زائد جرمانے کیے گئے ہیں۔ بجلی چوری کے کئی واقعات میں لیسکو افسران اور اہل کار بھی ملوث پائے گئے جن کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئی ہیں۔
صحافی طالب فریدی سمجھتے ہیں کہ خسارہ پورا کرنے کے لیے جب بھی بجلی مہنگی ہوتی ہے اس کی چوری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اندرون سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں بجلی چوری کی شرح 50 سے 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
تاہم ان کے خیال میں لائن لاسز کنٹرول ہونے تک نہ تو بجلی سستی ہو گی اور نہ ہی خسارہ بڑھنے کی رفتار کم ہو گی۔
تاریخ اشاعت 22 مارچ 2024