پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ: ایف آئی اے کی رپورٹ نے متعدد بے ضابطگیوں کی نشان دہی کر دی۔

postImg

غلام دستگیر

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبہ: ایف آئی اے کی رپورٹ نے متعدد بے ضابطگیوں کی نشان دہی کر دی۔

غلام دستگیر

loop

انگریزی میں پڑھیں

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی آے) نے ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پشاور شہر کے اندر چلنے والے ٹرانسپورٹ کے سرکاری نظام، بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی)، کی تعمیر کا ٹھیکہ حاصل کرنے والی کمپنیوں نے جعلی بنک ضمانتیں جمع کرائیں۔ تاہم متعلقہ حکومتی اداروں کو یہ بات معلوم ہونے کے باوجود اُن کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر تیار کی گئی اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے 6 اکتوبر 2017 کو بی آر ٹی کے لیے 27 کلومیٹر لمبی سڑک اور متعدد بس سٹیشن بنانے کا ٹھیکہ اکتوبر 2015 میں قائم کی گئی پاکستانی کمپنی مقبول کالسنز جے وی پرائیویٹ لمیٹڈ اور اس کی شراکت دار تین چینی کمپنیوں (سی چوان پراونس جیالوجیکل انجنیئرنگ کمپلیکس، چائنا ریلوے 21 واں بیورو گروپ اور اے این ایچ یو آئی کنسٹرکشن انجینئرنگ گروپ) کو دیا۔ ٹھیکہ دینے کے بعد ان کمپنیوں کو کہا گیا کہ وہ 28 دن کے اندر ایسی مالی ضمانتیں جمع کرائیں جنہیں ان کی کارکردگی خراب ہونے کی صورت میں بحقِ سرکار ضبط کیا جا سکے۔

اس سرکاری حکم کی تعمیل کرتے ہوئے شروع میں انہوں نے جے ایس بنک، حبیب میٹرو پولیٹن بنک اور بنک الفلاح نامی پاکستانی مالیاتی اداروں کی ضمانتیں فراہم کیں۔ لیکن 29 نومبر 2017 کو انہوں نے بی آر ٹی کا ٹھیکہ دینے والے سرکاری ادارے پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل اسرارالحق کو ایک خط لکھ کر یہ ضمانتیں واپس لے لیں اور ٹرسٹ انویسٹمنٹ بنک لمیٹڈ نامی ادارے کے توسط سے بنک آف ویسٹ انڈیز کی فراہم کردہ ساڑھے تین ارب روپے سے زیادہ کی نئی ضمانتیں دے دیں۔

ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق پی ڈی اے نے ان ضمانتوں کو تسلیم کر لیا حالانکہ نئے ضامن ادارے اُس معاہدے کی شق نمبر 4.2 پر پورا نہیں اترتے تھے جو پی ڈی اے اور ٹھیکے دار کمپنیوں کےدرمیان طے پایا تھا۔  اس شق کے مطابق یہ ضمانتیں یا تو معروف پاکستانی بنک دے سکتے تھے یا ایسے جانے پہچانے غیرملکی بنک جن کا نمائندہ ادارہ پاکستان میں موجود ہو تاکہ اُس سے ان ضمانتوں کی تعمیل کرائی جا سکے۔

لیکن رپورٹ کا کہنا ہے کہ بنک آف ویسٹ انڈیز نہ تو کوئی جانا پہچانا غیر ملکی بنک ہے اور نہ ہی اس کے مبینہ پاکستانی نمائندے، ٹرسٹ انویسٹمنٹ بنک، کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی طرف سے ایک بنک کے طور پر کام کرنے کی اجازت ہے۔ بلکہ یہ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں محض ایک نجی کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔

یکم نومبر 2019 کو اُس وقت کے پی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد عُزیر نے بھی ٹھیکہ دار کمپنیوں کو لکھے گئے ایک خط میں ان ضمانتوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ "بنک آف ویسٹ انڈیز ایک لمیٹڈ کمپنی ہے جو اگست 2016 میں افریقہ کے ملک گیمبیا میں قائم کی گئی تھی اور جسے اُس ملک کے قانون کے تحت بنک کے طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں"۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 31 دسمبر 2017 کو بنک آف ویسٹ انڈیز کے اثاثوں کی مجموعی مالیت ایک لاکھ ستاسی ہزار یورو تھی جو اس کی طرف سے دی گئی ضمانتوں کی مالیت کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔

ایف آئی اے کی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پی ڈی اے نے ان ضمانتوں کی تصدیق کے لئے 23 جنوری 2020 کو ٹرسٹ انویسٹمنٹ بنک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو ایک خط لکھا۔ اس کے جواب میں اس کے منیجر کارپوریٹ افیئرز عامر عزیز نے پی ڈی اے کو بتایا کہ ان کی کمپنی نے نہ تو کوئی ایسی ضمانت دی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں بینک آف ویسٹ انڈیز اور پی ڈی اے کے درمیان ہونے والی خط و کتابت میں اس کے کسی اہل کار کے دستخط ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ "ایسی کوئی خط و کتابت ہمارے ریکارڈ میں بھی موجود نہیں"۔

تاہم پی ڈی اے کے سابق سربراہ اسرارالحق کہتے ہیں کہ ضمانتوں میں ان تبدیلیوں سے "کوئی خاص فرق نہیں پڑا"۔ ان کے مطابق "ہمارا اصل ہدف یہ تھا کہ ٹھیکہ دار سے معیاری کام کروایا جائے اور ہم اس ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے"۔

چینی کمپنیوں کا کردار

نومبر 2019 میں پشاور ہائی کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایف آئی اے پشاور کو حکم دیا کہ وہ بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کر کے ڈیڑھ ماہ کے اندر ایک تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی ٹیم بنائی گئی جس نے 31 جنوری 2020 کو اپنی رپورٹ پشاور ہائی کورٹ میں جمع کروا دی۔

لیکن فروری 2020 میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ میں ہونے والی اس کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جس نے ایک حکمِ امتناعی جاری کر کے اسے فوری طور پر روک دیا۔ یوں سوا دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ایف آئی اے کی رپورٹ نہ تو عدالت میں زیرِبحث آئی ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کسی سے کوئی پوچھ گچھ ہوئی ہے۔

اس رپورٹ میں بہت سے دوسرے مسائل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ کہا گیا ہے کہ بی آر ٹی کا ٹھیکہ جیتنے والی چینی کمپنیوں کے چینی اہل کار کبھی بھی منصوبے کے تعمیراتی مقامات پر نہیں دیکھے گئے۔ اس کی نگرانی کرنے والے ادارے (جو لاہور کی ایک انجنیئرنگ کمپنی ایم ایم پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ، اور ایک برطانوی کمپنی، ماٹ میکڈانلڈ، کے اشتراک سے وجود میں آیا) کے انجنیئر ٹِیگ میکرین نے ایف آئی اے کو دیے گئے اپنے بیان میں لکھا کہ "میں نے مقبول کالسنز سے کہا کہ وہ منصوبے کی تکمیل کے مراحل میں چینی کمپنیوں کی موجودگی کو یقینی بنائیں لیکن ایسا کچھ نہ ہوا"۔

اسی دوران ایشیائی ترقیاتی بنک نے بھی اسلام آباد میں قائم چینی سفارتخانے کو لکھا کہ چینی کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ ان میں کام کرنے والے تجربہ کار لوگ بی آر ٹی کی تعمیر میں ضرور شریک ہوں۔ ٹِیگ میکرین کا کہنا ہے کہ چینی سفارتخانے نے بعدازاں ان چینی کمپنیوں کے ڈائریکٹروں کو ایک اجلاس میں بلا کر یہ بھی بتایا کہ منصوبے پر ہونے والا کام بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے لہٰذا وہ جلد از جلد چینی انجنیئروں کو تعمیراتی مقامات پر بھیج کر اس کے معیار میں بہتری لائیں۔

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ دو ماہ بعد چند چینی انجنیئروں کو ان مقامات پر بھیجا تو گیا لیکن اُس وقت تک بی آر ٹی کا تعمیراتی کام مکمل ہو چکا تھا۔

مالی وسائل کا بے دریغ استعمال

تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ بی آر ٹی کی تعمیر کا آغاز ہونے سے پہلے ہی اس کی لاگت میں 35 فیصد اضافہ کر دیا گیا تھا حالانکہ منصوبہ بندی کے سرکاری قواعدوضوابط کی رُو سے اس میں صرف 15 فیصد اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اسرار الحق کا کہنا ہے سرکاری منصوبوں میں اس طرح کا اضافہ "کوئی غیر معمولی بات نہیں"۔ وہ دریائے نیلم اور دریائے جہلم کے سنگم پر بنائے جانے والے پن بجلی کے ایک سرکاری منصوبے کو حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی لاگت میں "بیس مرتبہ تبدیلیاں کی گئیں"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اربوں روپے کی لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین مسافروں کی ترجیح کیوں نہیں؟

دوسری طرف ایف آئی اے نے بی آر ٹی کی آڈٹ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس کے لیے مختص کردہ رقم میں سے صوبائی ایڈیشنل چیف سیکرٹری، سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور کمشنر پشاور کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ایک کروڑ 70 لاکھ روپے ادا کئے گئے۔ جب آڈٹ کے دوران اس ادائیگی کی نشان دہی ہوئی تو کمشنر پشاور نے تو 36 لاکھ روپے واپس کر دیے مگر، تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق، باقی افسروں نے ابھی تک خود کو ملنے والی رقوم واپس نہیں کیں۔

منصوبے میں پائی جانے والی چند دیگر بے ضابطگیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بنک نے 22 ستمبر 2017 کو ایک فیکس کے ذریعہ پی ڈی اے کو متنبہ کیا تھا کہ ایک ٹھیکے دار کو منصوبے کے ایک سے زیادہ حصوں کا ٹھیکہ نہ دیا جائے تاہم پی ڈی اے نے اس انتباہ کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کے چھ کے چھ حصوں کا ٹھیکہ ایک ہی ٹھیکیدار کو دے دیا۔

تاریخ اشاعت 27 جون 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

غلام دستگیر خیبر پختونخوا کے سیاسی، معاشی و سماجی امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.