افغان شوہروں والی پاکستانی خواتین کیوں پریشان ہیں؟

postImg

عبدالستار

postImg

افغان شوہروں والی پاکستانی خواتین کیوں پریشان ہیں؟

عبدالستار

بسراجہ بی بی کی عمر پینتیس برس ہے، وہ پشاور کے علاقے گل درہ کاشکال کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان میں آباد شنواری قبیلے سے ہے جبکہ ان کے چالیس سالہ شوہر ، آدم خان کا تعلق افغانستان کے علاقے جلال آباد میں آباد شنواری قوم سے ہے۔

تقریبا دو دہائی قبل آدم خان کا خاندان افغانستان سے ہجرت کرکے پشاور میں آباد ہو گیا تھا۔ دونوں خاندان ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ سترہ سال پہلے والدین نے دونوں کی شادی کروا دی۔ آدم خان مزدوری  کر کے اپنے چھ بچوں، جن میں چار لڑکے اور دو لڑکیاں شامل ہیں، کا پیٹ پال رہے ہیں۔

بسراجہ خاتون نے لوک سجاگ کو بتایا کہ خاندان میں وہ پہلی خاتون تھیں جن کی شادی کسی افغانی سے ہوئی۔ البتہ ان کی نند  کی شادی پشاور میں مقیم ایک پاکستانی خاندان میں ہو چکی ہے۔

وہ مزید بتاتی ہیں، حالات بہتر ہونے پر ان کے سسرال کے زیادہ تر لوگ واپس افغانستان جا چکے ہیں۔ مگر یہ خیال انہیں تکلیف دیتا ہے کہ کہیں ان کے شوہر کو پاکستان نہ چھوڑنا پڑ جائے۔

"میں نے نہ تو افغانستان دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی وہاں گئی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ میرے شوہر میرے ساتھ پاکستان میں رہیں۔"

بسراجہ بی بی کی اس خواہش کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ان کے شوہر آدم خان کے پاس پاکستانی اوریجن (پی او سی ) کارڈ نہیں ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ انہیں اپنے شوہر کے لیے پی او سی کی زیادہ ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب وہ دونوں اپنی بچی کو سکول میں داخل کرانے گئے اور انتظامیہ نے فارم ب کا مطالبہ کیا۔ انہیں فارم ب بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے بچی کے سکول کا ایک سال ضائع بھی ہو گیا۔

دم خان گزشتہ کئی برسوں سے پی او سی کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔

"میں اپنے بیوی بچوں سے جدائی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دیہاڑی چھوڑ کر ہر پیشی پر عدالت میں حاضر ہوتا ہوں کہ شاید اس بار میرے حق میں فیصلہ آجائے۔"

بسراجہ کے کیس کی پیروی کرنے والے پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل منصف سعید پی او سی کے حصول کے حوالے سے چھ سے زائد کیسز پشاور ہائی کورٹ میں دائر کر چکے ہیں۔

منصف سعید نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان سٹیزن ایکٹ 1951ء کے آرٹیکل 10(2) کے مطابق  ایک غیر ملکی عورت پاکستانی مرد سے شادی کر کے شہریت حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم، کوئی غیر ملکی مرد پاکستانی عورت سے شادی کر کے پاکستان کی شہریت حاصل نہیں کر سکتا۔

پشاور ہائی کورٹ نے 2021ء کے ایک فیصلے میں اٹارنی جنرل اور وزارت خارجہ کو حکم درخواست کی تھی کہ وہ پاکستانی خاتون کے افغان مہاجر شوہر کو پی او سی کارڈ جاری کرنے کے حوالے سے اپنا موقف پیش کریں۔

دسمبر 2023ء میں 109 پاکستانی خواتین، جنہوں نے اپنے افغان شوہروں کو پی او سی جاری کرنے کی درخواستیں دے رکھی تھیں، ان کے حق میں پشاور ہائی کورٹ نے 33 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تھا جس میں لکھا گیا تھا تھا  پاکستانی شہریوں سے شادی کرنے والے افغان مہاجرین کے لیے رولز میں نرمی کرنا چاہیے۔

منصف سعید ایڈوکیٹ کے مطابق بسراجہ خاتون کے شوہر آدم خان کو پی او سی کارڈ کے اجراء کے لیے پشاور ہائی کورٹ نے نادرا کو حکم جاری کیا ہے، لیکن ابھی تک وہ اپنے شوہر کے لیے قانونی اسناد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔

پشاور ہائی کورٹ کے ایک اور وکیل سیف اللہ محب کاکاخیل کے پاس ایسے سو سے زائد کیسز موجود ہیں جن میں پاکستانی خواتین اپنے افغان شوہروں کے لیے پاکستانی اوریجن کارڈ حاصل کرنے کے لیے ہائی کورٹ کے سامنے درخواست گزار ہیں۔

ان کے دفتر میں موجود پاکستانی خاتون صفیہ (فرضی نام) نے بتایا کہ انہوں نے کہ سیف اللہ کاکا خیل کی وساطت سے درخواست دائر کی تھی جس کے تحت عدالت نے وزارت داخلہ کو ان کے افغان شوہر کو مروجہ قانون کے تحت پی او سی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر کی دستاویزات نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اور ان کے بچوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔انہوں نے بتایا اور بھی ایسی خواتین ہیں جن کے افغان شوہر برطانیہ، کینیڈا میں مزدوری کے لیے جا چکے ہیں اور ان کی پاکستانی بیویاں یہاں اپنی فیملی کے ساتھ رہتی ہیں اور شوہروں کو پی او سی جاری نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

سیف اللہ کاکا خیل نے لوک سجاگ کو بتایا کہ انہیں ( پاکستانی خواتین کے غیر ملکی شوہر) پاکستان آنے کے لیے ویزے کی ضرورت ہوتی ہے، ویزہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ کئی سالوں سے بیوی بچوں اور خاندان سے نہیں مل سکتے۔ پی او سی ملنے کے بعد انہیں ویزے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

"یہ صرف خیبر پختونخوا کی خواتین کا ہی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اسلام آباد، کراچی، کوئٹہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، گجرات، لاہور میں مقیم خواتین جنہوں نے افغان مردوں سے شادیاں کی ہیں، وہ بھی پی او سی کے لیے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہیں۔"

انہوں نے بتایا کہ جو خواتین عدالت آ جاتی ہیں وہ پہلے کارڈ حاصل کرنے کے لیے نادرا آفس اور وزارت داخلہ سے اپنے شوہروں کے لیے پی او سی کارڈ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں وہاں سے انکار کے بعد مجبوراً عدالت آنا پڑتا ہے۔

سیف اللہ محب ایڈوکیٹ نے مزید بتایا کہ پاکستان اور یجن کارڈ کے حامل افراد پاکستان میں بینک اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں، جائیداد خرید سکتے ہیں، کاروبار کرسکتے ہیں، اپنے نام سے موبائل سم لےسکتے ہیں، انہیں پاکستان آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک پاکستانی شہریت رکھنے والے فرد کو جو سہولیات حاصل ہیں، پی او سی کے حامل فرد کو بھی وہی حاصل ہوتی ہیں۔

"پی او سی کے اجراء کے پانچ سال گزرنے پر مذکورہ شخص کو پھر پاکستانی شہریت مل جاتی ہے اور اسے پاسپورٹ بھی جاری کیا جاتا ہے۔ جس کے لیے عدالت 90 دن دیتی ہے۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

لاہور میں مقیم افغان:' ہم ہر وقت غیر یقینی کیفیت میں رہتے ہیں کہ کہیں ہمیں واپس نہ بھیج دیا جائے'۔

انہوں نے اس بات پر افسوس و حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے آنے کے باوجود بھی پی اوسی دینے سے انکار کیا جاتا ہے۔

"نادرا آفس میں اپلائی کے بعد مختلف ایجنسیاں مذکورہ شخص کو کلیئرنس سرٹیفیکٹ جاری کرتی ہیں جس کے بعد پی او سی کارڈ جاری ہوجاتا ہے۔ حالانکہ پی او سی رولز 2002ء میں اس قسم کی کوئی بات نہیں ہے۔"

ڈپٹی اٹارنی جنرل دولت خان مہمند نے لوک سجاگ کو بتایا کہ تمام ادارے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے پی او سی کی درخواستوں پر کارڈ اسی صورت میں جاری کیا جائے گا جب درخواست کنندہ نادرا اور سٹیزن شپ ایکٹ رولز میں دئے گئے لوازمات کو پورا کرے گا۔

"وزارت داخلہ نے افغانستان کو کیٹگری بی سٹیٹس میں شامل کیا ہے، جس کے تحت انہیں پی او سی سے پہلے سیکورٹی کلیئرنس لینا ہوگا۔ ہم نے پشاور ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو  اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کیا ہے کیونکہ بیشتر درخواست گزار ایکٹ پر پورا نہیں اترتے"۔

لیکن متاثرہ خواتین اس حوالے سےکچھ اور کہتی ہیں۔

مختلف خواتین کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے باجود ادارے سیکیورٹی کلیئرنس جاری نہیں کرتے، جس کی وجہ سے ان کے شوہروں کو پی او سی کارڈ جاری نہیں ہوسکے ہیں۔

لوک سجاگ نے اس حوالے سے نیشنل ڈیٹا بیس (نادرہ) کے ویب سائیٹ پر موجود ای میل ایڈریس pio@nadra.gov.pk پر ان کے پبلک ریلیشن آفیسر سے بذریعہ ای میل ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاریخ اشاعت 15 مارچ 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبدالستار نے انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے وہ ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے لیے خیبرپختونخوا کے ضلع مردان سے رپورٹنگ کررہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.