لاہور سے خانیوال جانے والی ٹرین کی روانگی میں صرف دو گھنٹے رہ گئے ہیں لیکن اس کا انجن ابھی تک مرمت کیا جا رہا ہے۔
لاہور کے مغل پورہ ڈیزل شیڈ میں کئی مکینک اس انجن کے کل پرزے درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں لگ رہا ہے کہ اسے خود کار طریقے سے چالو کرنے والا بٹن وقت پر ٹھیک نہیں ہو پائے گا۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد اُن میں سے ایک مکینک ایک قریبی کمرے میں انتظار کرتے ڈرائیور کو بتاتا ہے کہ یہ خرابی دور کرنے کے لیے انہیں ابھی بہت سا کام کرنا پڑے گا اس لیے اگر ٹرین کو اپنے وقت پر روانہ ہونا ہے تو اس کے انجن کو ایک دوسرے انجن کی بیٹری سے جوڑ کر چالو کرنا پڑے گا۔
یہ سن کر ڈرائیور سوال کرتا ہے کہ "اگر ٹرین راستے میں کہیں بند ہو گئی تو میں کیا کروں گا؟" اسے دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈرائیور کے پاس اس خراب انجن کے ساتھ ٹرین چلانے کے سوا کوئی راستہ نہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کر دے تو اسے پاکستان ریلوے کی طرف سے کی جانے والی ماہانہ ادائیگی میں کمی آ جائے گی جس کا وہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ مکینک سے کہتا ہے کہ اسے باقاعدہ طور پر لکھ کر دیا جائے کہ انجن کو چالو کرنے والا بٹن خراب ہے تا کہ کسی حادثے کی صورت میں ساری ذمہ داری اس پر نہ ڈال دی جائے۔
مکینک فوری طور پر ایک نوٹ لکھ کر اس پر دستخط کر دیتا ہے۔ جس کے بعد انجن کو بغیر بٹن کے چالو کر دیا جاتا ہے اور ڈرائیور اسے لے کر ریلوے سٹیشن کی طرف چل پڑتا ہے تا کہ وقت پر اسے ٹرین سے جوڑ سکے۔
پاکستان ریلوے کے کارکن کہتے ہیں کہ 31 اگست 2021 کی شام کو رونما ہونے والا یہ واقعہ کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ ان کے محکمے میں اس طرح کے واقعات روزانہ کا معمول ہیں۔ 21 سال سے ٹرین ڈرائیور کے طور پر کام کرنے والے ایک کارکن اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر کہتے ہیں کہ "ڈرائیوروں کو اکثر خراب انجن چلانا پڑتے ہیں کیونکہ ریلوے انتظامیہ ہر قیمت پر ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ ریلوے کے نظام پر مسافروں کا اعتماد بحال کر سکے"۔
اگرچہ بار بار رابطہ کرنے کے باوجود ریلوے انتظامیہ نے اس موضوع پر اپنا موقف واضح نہیں کیا لیکن اس ڈرائیور کا کہنا ہے کہ ایک خراب انجن چلانے والا ڈرائیور گنجان آباد علاقوں، ریلوے پھاٹکوں اور ریلوے لائن کے آر پار گزرنے والے راستوں سے ٹرین گزارتے ہوئے شدید بے چینی کا شکار ہوتا ہے۔ ان کے مطابق "ایسی جگہوں سے وہ صرف اللّٰہ کے آسرے پر گزرتا ہے کیونکہ اسے مسلسل دھڑکا لگا ہوتا ہے کہ کہیں انجن کی خرابی کی وجہ سے کوئی حادثہ نہ ہو جائے"۔
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پاکستان ریلوے کے چیف پرسنل افیسر کے اندازے کے مطابق اس وقت ان کے محکمے میں 25 سو سے زائد ڈرائیور کام کر رہے ہیں جن میں اسسٹنٹ ڈرائیور اور ڈپٹی ڈرائیور بھی شامل ہیں۔ گزشتہ کچھ سالوں میں ان میں سے کئی مختلف حادثوں میں زخمی اور ہلاک ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ریلوے کے لاہور میں واقع ہیڈ کوارٹر میں اس حوالے سے کوئی مربوط اعداد و شمار موجود نہیں لیکن ڈرائیوروں کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد درجنوں میں ہے۔
تقریباً چھ سال سے ریلوے میں کام کرنے والے ایک ڈرائیور حال ہی میں صرف لاہور ڈویژن میں ہونے والے ایسے دس حادثات کی نشاندہی کرتے ہیں جن میں ڈرائیوروں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ان کے مطابق کام کے دوران ڈرائیوروں کو چھوٹی موٹی چوٹ لگ جانا معمول کی بات ہے لیکن کسی بڑے حادثے کی صورت میں تو ڈرائیور اور انجن میں موجود دوسرا عملہ "اتفاق سے ہی بچتا ہے"۔
ریلوے انجن چلانے کا 40 سالہ تجربہ رکھنے والے نذیر احمد اعوان ان دعووں کی توثیق کرتے ہیں۔ ڈیزل شیڈ کے قریب ایک مسجد کے صحن میں بیٹھے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "میں نے یہاں خود اپنے کئی ساتھیوں کے جنازے پڑھے ہیں"۔
تاہم انہیں شکایت ہے کہ ریلوے انتظامیہ کسی حادثے میں ہلاک ہونے والے ڈرائیور کی لاش بھی اس کے گھر والوں تک نہیں پہنچاتی بلکہ "حادثے کے بعد اس کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز ہوتی ہے کہ ٹرین کو دوبارہ چالو کیسے کیا جائے"۔ نتیجتاً، ان کے بقول، زخمی یا ہلاک ہونے والے ڈرائیوروں کو جائے حادثہ پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اس سلوک پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "ریلوے کے اعلیٰ افسر اِن ڈرائیوروں کے خاندان کی اشک شوئی کیا کریں گے وہ تو ان کا جنازہ پڑھنے بھی نہیں آتے"۔
نذیر احمد اعوان ریلوے ڈرائیوروں کی فلاح کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم بھی چلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ زخمی ہونے والے ڈرائیوروں کو بھی ابتدائی طور پر اپنا علاج خود کرانا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ریلوے بعد ازاں ان کے علاج پر اٹھنے والے اخراجات واپس تو کر دیتا ہے لیکن اس کے لئے انہیں محکمے کے دفاتر کے کئی چکر لگانے پڑتے ہیں۔
ان مسائل کی نشان دہی کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے ریلوے ڈرائیور یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ کسی حادثے کے بعد اخبارات کو جاری کیے جانے والے محکمانہ بیانات میں اس کی ذمہ داری ڈرائیور کی غلطی یا غفلت پر ڈال دی جاتی ہے لیکن اس کے بارے میں بنائی جانے والی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ کبھی منظرِ عام پر نہیں لائی جاتی۔ (پاکستان ریلوے میں حادثوں کی تحقیقات کرنے والے شعبے کا کہنا ہے کہ محکمانہ قواعد کے مطابق ایسی رپورٹوں کو صیغہِ راز میں رکھنا ضروری ہے۔)
لاہور سے خانیوال جانے والی ایک ٹرین کے انجن میں بیٹھے ایک ڈرائیور یہ بھی کہتے ہیں کہ دراصل ڈرائیوروں کی غفلت یا غلطی کو کوئی حادثہ ہونے سے پہلے ہی درست کرنے کا باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت نہ تو کوئی ڈرائیور کسی لائن پر اس وقت تک ٹرین چڑھا سکتا ہے جب تک متعلقہ سٹیشنوں پر متعین عملہ اسے اس کی اجازت نہ دے اور نہ ہی وہ کسی سٹیشن، پھاٹک یا کراسنگ سے اس وقت تک گزر سکتا ہے جب تک اسے اس کے لیے سِگنل نہ دیا جائے۔
اس طریقہِ کار کی موجودگی کے ایک اضافی ثبوت کے طور پر وہ اپنی نشست کے ساتھ لگے ہوئے ایک سفید بٹن کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو سرخ روشنی چھوڑ رہا ہے۔ ان کے مطابق اگر ٹرین چلاتے ہوئے ڈرائیور ہر منٹ میں کم از کم ایک بار اس بٹن کو نہ دبائے تو چلتی ٹرین خود بخود رُک جاتی ہے۔ لہٰذا، وہ کہتے ہیں، "اس بٹن کی موجودگی میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ حادثے کے وقت ڈرائیور سو رہا تھا؟"
ایک اور ڈرائیور کا کہنا ہے کہ ریلوے حادثات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر باقی ممالک کی طرح پاکستان ریلوے کو بھی "ٹرینوں کے اندر اور باہر کیمرے نصب کرنے چاہئیں تا کہ حادثوں کی اصل وجہ تک پہنچا جا سکے"۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ ریلوے کے اعلیٰ افسر اس موضوع پر "ہماری بات ہی نہیں سنتے"۔
لاہور ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور ڈرائیور کا کہنا ہے کہ امریکہ سے منگوائے گئے کچھ انجنوں میں کیمرے نصب بھی ہیں مگر اعلیٰ افسر اُن سے بنائی گئی ویڈیو کبھی منظرِ عام پر نہیں لاتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایسے حادثات جن میں خود بڑے افسر ملوث ہوں ان کی ویڈیو کے بارے میں تو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ "اس میں تکنیکی خرابی آ گئی ہے" لیکن اس کے برعکس جب "کسی ڈرائیور سے کوئی بھول چوک ہو جاتی ہے اسے فوراً ویڈیو دکھا کر اس کی سرزنش کی جاتی ہے"۔
یہ بھی پڑھیں
حادثوں کا ہجوم: پاکستان ریلوے میں بد انتظامی اور نا اہلی نے ریل کے سفر کو کتنا غیر محفوظ کر دیا ہے۔
اس طرح کی محکمانہ کارروائیوں کے بارے میں لاہور میں ہی کام کرنے والے ان کے ساتھی ڈرائیور کو شدید شکایت ہے۔ وہ کہتے ہیں: "کیا محکمے کے اعلیٰ افسر کبھی غفلت کے مرتکب ڈرائیور سے یہ جاننے کی کوشش بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنا دھیان ٹرین پر کیوں نہیں رکھ پایا؟ کیا وہ اس سے کبھی پوچھتے ہیں کہ کہیں وہ کسی مالی پریشان کا شکار تو نہیں؟"
ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات
پاکستان ریلوے میں کام کرنے والے ڈرائیور سرکاری گریڈ نمبر نو میں بطور اسسٹنٹ ڈرائیور بھرتی ہوتے ہیں اور ترقی کرتے کرتے زیادہ سے زیادہ گریڈ نمبر 15 تک پہنچ پاتے ہیں جس میں ان کی ماہانہ تنخواہ 50 ہزار روپے کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
محکمانہ ضابطوں کے مطابق ایک ڈرائیور ہر مہینے کم از کم دو سو 40 گھنٹے کام کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اِس سے زیادہ کام کرنے پر اسے ہر گھنٹے کے حساب سے اضافی ادائیگی کی جاتی ہے۔ ایک 10 سالہ تجربہ رکھنے والے ڈرائیور کا کہنا ہے کہ ان کی تنخواہ اتنی قلیل ہے کہ اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے انہیں ہر ماہ کم از کم 200 گھنٹے اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال تقریباً تمام ریلوے ڈرائیوروں کا ہے۔
اوور ٹائم کے ساتھ ساتھ ریلوے ڈرائیوروں کو ہر 100 میل کی مسافت طے کرنے پر ایک سو 90 روپے کے حساب سے ڈیلی الاؤنس دیا جاتا ہے۔ ڈرائیوروں کی تنظیمیں شکایت کرتی ہیں کہ اس الاؤنس کی مالیت کئی دہائیاں پہلے طے کی گئی تھی اور ابھی تک اسی سطح پر منجمد ہے حالانکہ اس دوران مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور پاکستانی روپے کی قوتِ خرید میں بھی بہت کمی آ چکی ہے۔
ان مالی حالات کی وجہ سے اکثر ڈرائیور چھٹی کرنے سے کتراتے ہیں تا کہ وہ کہیں اوور ٹائم اور ڈیلی الاؤنس کی ادائیگی سے محروم نہ ہو جائیں۔ لیکن ان میں سے کئی ایک کا کہنا ہے کہ ان کے افسر بھی انہیں آسانی سے چھٹی دینے پر رضامند نہیں ہوتے خواہ انہیں کتنی سنگین صورتِ حال کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔ ایک ڈرائیور تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں اپنی دادی کے جنازے میں شرکت کے لیے اس وقت تک چھٹی نہ دی گئی جب تک انہوں نے احتجاجاً انجن چلانے سے انکار نہیں کیا۔
ریلوے کے ڈرائیور اس محکمانہ قاعدے سے بھی خوش نہیں جس کے تحت ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والی ٹرین کا تمام سفر ایک ہی ڈرائیور نے نہیں کرنا ہوتا بلکہ اسے مختلف حصوں میں تقسیم کر کے مختلف ڈرائیوروں کے ذمے لگایا جاتا ہے۔ اس قاعدے کی رو سے جو ڈرائیور لاہور سے کراچی جانے والے ٹرین کو خانیوال پہنچاتا ہے اسے ایک دوسری ٹرین چلا کر لاہور واپس آنا ہوتا ہے۔ تاہم دونوں ٹرینوں کے اوقاتِ کار میں کم از کم آٹھ گھنٹے کا وقفہ ہونا چاہیے تا کہ متعلقہ ڈرائیور اچھی طرح آرام کر کے تازہ دم ہو سکے۔
ڈرائیوروں کو شکایت ہے کہ اس مقصد کے لیے انہیں فراہم کی گئی سہولتیں شدید نا کافی ہیں۔ لاہور کے ڈیزل شیڈ کے پاس ان کے آرام کے لیے مختص کمرے کی بے سر و سامانی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کمرے میں آٹھ چارپائیاں بچھی ہیں لیکن گرمی کے موسم میں انہیں ہوا فراہم کرنے کے لیے صرف دو پرانے پنکھے لگے ہوئے ہیں۔ ایک ڈرائیور کے مطابق "شدید گرمی کے دنوں میں بجلی کے بار بار چلے جانے سے یہ پنکھے بھی صحیح طرح سے نہیں چلتے"۔
اس کمرے میں موجود سنگھار میز کا شیشہ اتنا پرانا ہے کہ اس میں محض بگڑی ہوئی شکلیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں آرام کرنے والے ایک ڈرائیور کے بقول "یہ میز انگریز دور کی ہے اور محکمے کی مہربانی سے یہ اب بھی انگریز دور میں ہی ہے"۔
یہاں کھانا پکانے کے لیے گیس بھی صرف دن کے وقت دستیاب ہوتی ہے اس لیے، کمرے میں ٹھہرے ہوئے ایک ڈرائیور کے مطابق، "رات کو ہمیں ڈیزل سے چلنے والے چولہے پر کھانا پکانا پڑتا ہے جس سے ہمارے کھانے میں بھی ڈیزل کی بو شامل ہو جاتی ہے"۔
کمرے میں موجود سبھی ڈرائیور اس بات پر متفق ہیں کہ ان حالات میں وہ اس طرح سے آرام نہیں کر پاتے جس طرح کہ انہیں کرنا چاہیے۔ ان میں سے ایک کا کہنا ہے کہ "محکمے کے کاغذات میں تو ہم نے آٹھ گھنٹے آرام کر لیا ہوتا ہے لیکن اس دوران ہم پر کیا گزرتی ہے ہمیں ہی معلوم ہے"۔
تاریخ اشاعت 24 ستمبر 2021