بلوچستان میں ایرانی تیل لانے کا 'ٹوکن' لاکھوں میں بکنے لگا، تاجر انتظامیہ کے رویے سے نالاں

postImg

شبیر رخشانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

بلوچستان میں ایرانی تیل لانے کا 'ٹوکن' لاکھوں میں بکنے لگا، تاجر انتظامیہ کے رویے سے نالاں

شبیر رخشانی

loop

انگریزی میں پڑھیں

بلوچستان کے ضلع کیچ کا علاقہ جوسک کراس ایران سےلائے جانے والے تیل (ڈیزل اور پٹرول) کی خرید و فروخت کا مرکز ہے۔ یہاں نیلے رنگ کے 'زمیاد' پک اپ ٹرک بہت بڑی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں جنہیں مقامی زبان میں زمباد کہا جاتا ہے۔

ایران سے تیل انہی ٹرکوں پر بلوچستان لایا جاتا ہے جسے بعدازاں صوبے کے مختلف حصوں میں بھیجا جاتا ہے۔

اس تیل کے بہت سے خریدار جوسک کراس پر آتے ہیں جہاں ہوٹلوں، گاڑیاں مرمت کرنے کی ورکشاپوں، اشیائے خورونوش  کی دکانوں اور دیگر کاروبار کا انحصار اسی تجارت سے وابستہ ہے۔

اس جگہ تیل کے بہت سے ڈپو قائم ہیں۔ ان کے مالکان زمیاد گاڑیوں کے ڈرائیوروں سے تیل خرید کر بڑی گاڑیوں کے ذریعے دوسری جگہوں پر سپلائی کرتے ہیں۔ ان گاڑیوں کو 'بیک' کہا جاتا ہے۔  تیل کے ایسے ڈپو صرف جوسک کراس میں ہی نہیں بلکہ پورے ضلع کیچ میں موجود ہیں جن کی تعداد تقریباً 400 ہے۔

ایران سے آنے والے تیل کی قیمت یہی ڈپو مالکان طے کرتے ہیں۔ آج کل جوسک کراس میں زمیاد  والوں سے یہ تیل 37 ہزار روپے فی ڈرم کے حساب سے خریدا جا رہا ہے۔ ایک ڈرم میں 210 لٹر تیل ہوتا ہے اور ڈرم ہی یہاں تیل ماپنے کا بنیادی پیمانہ ہے۔

کیچ کے علاقے ہوشاب کے رہنے والے تیس سالہ الہٰی بخش بھی جوسک کراس میں تیل فروخت کرنے آئے ہیں جہاں وہ اپنی گاڑی کھڑی کر کے گاہکوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ دو گاہک ان سے تیل خریدنا چاہتے ہیں لیکن الہٰی بخش کے لئے 37 ہزار روپے قابل قبول نہیں ہیں۔

وہ گاہکوں کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے 33 ہزار روپے فی ڈرم کے حساب سے چار ہزار ڈیزل لوڈ کروایا ہے۔ تیل لانے کے لئے انہوں نے 20 ہزار روپے کا 'ٹوکن' خریدا، 15 ہزار ڈرائیور اور پانچ ہزار کلینر کو ادا کئے، سفری اخراجات پر 15 ہزار روپے خرچ ہوئے اور پاک ایران سرحد سے کیچ تک180 کلومیٹر فاصلے طے کرنے کے لئے 140 لٹر پٹرول کا خرچ اس کے علاوہ ہے۔ اس طرح اگر وہ فی ڈرم 37 ہزار روپے میں ڈیزل بیچیں گے تو انہیں کوئی بچت نہیں ہو گی۔

چار سال پہلے الہٰی بخش دبئی میں محنت مزدوری کرتے تھے۔

اس دوران جب انہیں پتا چلا کہ پاک ایران بارڈر پر کاروبار چل پڑا ہے تو وہ دبئی سے واپس آ گئے۔ یہاں آ کر انہوں نے ایک دوست کے اشتراک سے سیکنڈ ہینڈ زمیاد گاڑی خریدی اور ایران سے تیل لا کر فروخت کرنے کا کاروبار شروع کر دیا۔

اس کام میں الہٰی بخش کو ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے اور وہ یہ کہ ان کی گاڑی کو تیل کی تجارت کے لئے رجسٹرڈ نہیں کیا گیا اس لئے انہیں ہر مرتبہ تیل لانے کے لئے ٹوکن خریدنا پڑتا ہے۔

یہ ٹوکن کیچ کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے ملتا ہے جس کا حصول آسان نہیں ہوتا۔ بعض اوقات انہیں ٹوکن کے لئے دفتر کے کئی کئی چکر لگانا پڑتے ہیں اور بھاری رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔

"انتظامیہ نے تیل لانے والی مزید گاڑیوں کی رجسٹریشن بند کر رکھی ہے۔ ایسے میں ٹوکن ہی تیل لانے کا واحد ذریعہ ہے۔ ٹوکن کی قیمت تیل کی قیمت سے منسلک ہوتی ہے۔ جب تیل مہنگا ہو جاتا ہے تو ٹوکن کے لئے بھی زیادہ پیسے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ مجھے ایک ٹوکن دو لاکھ روپے میں خریدنا پڑا۔"

اپریل 2019 میں حکومت پاکستان نے سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر پاک ایران 950 کلومیٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد سرحد کے آر پار بہت سے مقامات سے ہونے والی غیرقانونی تجارت بند ہو گئی۔ انتظامیہ نے صرف عبدوئی کے مقام پر سرحدی گزر گاہ کو کھلا رکھا اور اب ایران اور کیچ کے درمیان تمام تجارت اسی راستے سے ہو رہی ہے۔

جوسک کراس پر ڈیزل کے ایک ڈپو کے مالک قمبر کیف کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ اچانک کیا گیا جس کی اطلاع نہ تو زمیاد مالکان کو دی گئی اور نہ ہی ڈپو مالکان اس سے آگاہ تھے۔ اس دوران تیل بردار گاڑیاں ڈیڑھ ماہ تک پاک ایران بارڈر پر پھنسی رہیں اور چار مزدور بھوک اور پیاس کے مارے انتقال کر گئے۔ ان حالات میں سرحد پر پھنسے لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا جو کئی روز جاری رہا۔ بالاآخر انتظامیہ نے تیل بردار گاڑیوں کو سرحد سے نکالنے کے لئے ٹوکن کا اجرا کیا جس نے بعد میں باقاعدہ صورت اختیار کر لی۔

2020 میں کیچ کی ضلعی انتظامیہ نے تیل کی تجارت کو باقاعدہ بنانے کے لئے ان گاڑیوں کو رجسٹرڈ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت اب تک 14 ہزار زمیاد گاڑیوں کی رجسٹریشن عمل میں آ چکی ہے۔ انتظامیہ اتوار کے علاوہ ہفتے کے چھ روز ان میں سے باری کی بنیاد پر 600 گاڑیوں کی فہرست جاری کرتی ہے جو ایران سے تیل لاتی ہیں۔ تاہم روزانہ سرحدر پار جانے آنے والی گاڑیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اس تجارت سے منسلک لوگوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم بارڈر عوامی تحریک کے سربراہ خالد ولید سیفی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ روزانہ تقریباً 1200 تیل بردار گاڑیاں سرحد پار جاتی آتی ہیں۔ ان میں چھ سو گاڑیاں تو وہ ہیں جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے جبکہ باقی گاڑیوں کو اس تجارت کے لئے ٹوکن یا خصوصی اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے۔

خالد الزام عائد کرتے ہیں کہ ٹوکن کے اجرا کو انتظامیہ نے اپنا 'کاروبار' بنا رکھا ہے جس سے بھاری کمائی ہوتی ہے۔ جب انہوں نے اس تجارت کے حوالے سے اپنے مسائل کی بابت ڈپٹی کمشنر سے ملاقات میں چھ سو گاڑیوں کو ٹوکن دیے جانے کا معاملہ اٹھایا تو انہوں نے تصدیق کی کہ انتظامیہ غیررجسٹرڈ گاڑیوں کے مالکان کو تیل لانے کے لئے ٹوکن جاری کرتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسی گاڑیوں کی روزانہ تعداد 600 کے بجائے 350 ہے۔

انتظامیہ نے اس تجارتی روٹ پر اب مزید گاڑیوں کی رجسٹریشن بند کر رکھی ہے اور کوئی غیررجسٹرڈ گاڑی اس تجارت میں حصہ لینا چاہے تو اسے ٹوکن خریدنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے جب کیچ کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عقیل کریم سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ زمیاد کے مالکان نہیں چاہتے کہ مزید گاڑیوں کی رجسٹریشن ہو کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ مزید رجسٹریشن کی صورت میں ضلع سے باہر کے لوگ بھی اس تجارت میں شامل ہو جائیں گے جس سے ان کی حق تلفی ہو گی۔

دوسری جانب خالد کا کہنا ہے کہ ٹوکن کے نام پر انتظامیہ بروکرز کے ذریعے بھاری کمائی میں مصروف ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ کیسے چاہے گی کہ مزید گاڑیوں کی رجسٹریشن ہو۔

لوک سجاگ نے ایک بروکر سے رابطہ کرکے ٹوکن کا ریٹ پوچھا تو اس نے بتایا کہ ایک ٹوکن کے لئے کم از کم 35 ہزار روپے ادا کئے جاتے ہیں۔

زمیاد گاڑیوں کے مالکان کی تنظیم 'زمیاد اینڈ دو ہزار ایسوسی ایشن' کے صدر وسیم سفر مطالبہ کرتے ہیں کہ سرحدی تجارت کو ماضی کی طرح آزادانہ بنیادوں پر چلایا جائے اور سکیورٹی کے نام پر بند کی گئی سرحدی گزرگاہیں کھولی جائیں۔

"جب گوادر میں حق دو تحریک کا مظاہرہ جاری تھا تو ہم بھی اس کا حصہ تھے۔ ہم نے مطالبہ کیا تھا کہ سرحدی سکیورٹی ایف سی سے واپس لے کر ضلعی انتظامیہ کے حوالے کی جائے اور ٹوکن سسٹم کا خاتمہ کیا جائے۔

وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے ہمارے احتجاجی کیمپ میں آکر ان مطالبات کو تسلیم کر لیا تھا جس کے بعد سرحدی سکیورٹی تو ضلعی انتظامیہ کے پاس واپس چلی گئی لیکن ٹوکن سسٹم ختم نہیں ہو سکا۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

افغانستان پاکستان کو انگور اور انار کیوں نہیں بھیج رہا؟

عبدوئی کے علاوہ دیگر سرحدی گزرگاہیں بند کئے جانے کے معاملے پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ ان گزرگاہوں کو کھولنے کے معاملے پر ایران کی حکومت اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اپنے اپنے خدشات ہیں۔

جیسا کہ پاکستان کی جانب سے کپکپار اور جالگی گزرگاہ کھولنے کی بات کی گئی تو ایران راضی نہ ہوا۔ دوسری جانب ایران کی حکومت مند چک گزرگاہ کھولنے پرتیار ہے لیکن اس پر پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو خدشات ہیں۔

 وسیم سفر کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹوکن کے نام پر رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ دونوں گاڑی مالکان کا استحصال ہو رہا ہے۔

رجسٹرڈ گاڑیوں کے مالکان اس لیے پریشان ہیں کہ انہیں مہینے میں صرف ایک مرتبہ سرحد سے تیل لانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ جتنے بھی چکر لگاتے ہیں اس کے لئے انہیں ٹوکن خریدنا پڑتا ہے۔

تاریخ اشاعت 17 جولائی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شبیر رخشانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے جھاؤ آواران سے ہے۔ مختلف صحافتی اداروں دنیا نیوز، روزنامہ آزادی آن لائن نیوز پیپر حال احوال کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.