خیبر پختونخوا کے شمال مغربی ضلعے خیبر میں طورخم کے مقام پر واقع پاک-افغان سرحدی دروازے کے پاس جمعہ، 27 اگست 2021، کو حالات معمول سے بہت مختلف تھے۔ اس دن 40 کے قریب افغان باشندے اس دروازے سے تقریباً 50 میٹر شمال میں سرحد پر لگی خار دار باڑ کو عبور کر کے پاکستان میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ وہ بار بار باڑ کے پاس آ کر اسے کاٹنے کی کوشش کرتے لیکن سرحد کے اِس طرف متعین پاکستانی اہلکار انہیں ہوائی فائرنگ کر کے پیچھے ہٹا دیتے۔
جب پاکستانی حکام کو محسوس ہوا کہ وہ صرف ہوائی فائرنگ کے ذریعے افغانوں کو سرحد عبور کرنے سے نہیں روک سکتے تو دوپہر ایک بجے کے قریب انہوں نے باڑ عبور کرنے کی کوشش کرنے والوں پر فائرنگ کر دی۔ طورخم میں متعین پاکستانی اہل کاروں کا اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا ہے کہ اس فائرنگ سے تین افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم افغان خبر رساں ایجنسی، پژواک افغان نیوز، کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد چھ تھی۔
یہ افغان باشندے باڑ کاٹ کر سرحد کے اِس پار آنے کی کوشش اس لئے کر رہے تھے کہ ان کے پاس پاکستان میں قانونی داخلے کے لئے درکار دستاویزات موجود نہیں تھیں۔
دوسری طرف پاکستانی حکام انہیں اس لئے روک رہے تھے کہ 1980 کی دہائی کے برعکس پاکستان اس بار نہیں چاہتا کہ افغان بڑی تعداد میں ہجرت کر کے اِدھر آ جائیں۔
اس لئے پاکستان نے طورخم کے راستے افغانستان سے پاکستان آنے والوں کی قانونی آمدورفت کو بھی بہت محدود کر دیا ہے۔ موجودہ پاکستانی قواعد کے مطابق افغانستان میں پھنسے پاکستانی بلا روک ٹوک اپنے ملک واپس آ سکتے ہیں بشرطیکہ ان کے پاس ان کا پاکستانی پاسپورٹ موجود ہو۔ وہ افغان شہری بھی پاکستان آ سکتے ہیں جن کے پاس سفارتی پاسپورٹ ہیں۔ سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ ان افغانوں کو بھی پاکستان میں داخلے کی اجازت ہے جن کی آمد کے بارے میں پاکستان کے دفترِ خارجہ یا وزارتِ داخلہ نے سرحد پر تعینات اہل کاروں کو خصوصی ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔
لیکن ان اہل کاروں کا کہنا ہے کہ طورخم کے آر پار انسانی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لئے عام افغان باشندوں کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی خواہ ان کے پاس پاکستان کا ویزا بھی موجود ہو۔ نتیجتاً روزانہ صرف تین سو کے قریب افراد طورخم کے راستے افغانستان سے پاکستان آ رہے ہیں جبکہ 15 سو کے قریب لوگ اسی راستے سے ہر روز پاکستان سے افغانستان جا رہے ہیں جن میں پاکستانی اور افغان دونوں شامل ہیں۔
ان پابندیوں کی وجہ سے عام افغانوں کے پاس غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہونے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔ ضلع خیبر کے رہائشی، انسانی حقوق کے کارکن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبداللطیف آفریدی اس صورتِ حال کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول "یہ نہایت افسوس ناک بات ہے کہ صاحبِ حیثیت افغان تو ہوائی جہاز کے ذریعے آسانی سے پاکستان آ رہے ہیں لیکن پیدل سرحد پار کرنے والے عام لوگوں کو اِس طرف آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 15 اگست 2021 کو افغانستان میں افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے غائب ہو جانے اور افغان دارالحکومت کابل میں طالبان کی طرف سے انتظامی معامالات اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد "ان تمام لوگوں کی جان اور مال خطرے میں پڑ گئے ہیں جو طالبان کے نظریاتی مخالف رہے ہیں"۔ ان کے خیال میں ایسے لوگوں کی پاکستان میں آمد پر پابندی ان کی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتی ہے۔
پاک-افغان تجارت میں سُست روی کیوں؟
حاجی کامل کا تعلق شینواری قبیلہ سے ہے جو پاک-افغان سرحد کے دونوں جانب آباد ہے ۔ وہ طور خم سے متصل قصبے لنڈی کوتل میں رہتے ہیں اور گزشتہ 23 سال سے افغانستان سے ٹماٹر درآمد کر کے پشاور کی منڈی میں فروخت کر رہے ہیں۔
24 اگست 2021 کی دوپہر کو وہ شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے طور خم میں واقع خیبر ایوانِ صنعت و تجارت کے ایک کمرے پر مشتمل ایئر کنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھے ہیں۔ لیکن دفتر کا یخ بستہ ماحول بھی ان کے جذبات کا پارہ کم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ 22 اگست سے "میرے ٹماٹروں کے 20 ٹرک سرحد کے دوسری طرف ایک چیک پوسٹ پر کھڑے ہیں لیکن انہیں پاکستان میں نہیں آنے دیا جا رہا"۔ ان کے مطابق اگر ایک آدھ دن مزید یہی صورتِ حال برقرار رہی تو 660 ٹن کے قریب یہ "تمام ٹماٹر گل سڑ جائیں گے"۔
حاجی کامل کہتے ہیں کہ سرحد کے اُس طرف موجود طالبان انہیں بتاتے ہیں کہ انہیں "ٹرکوں کے پاکستان جانے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ یہ ٹرک اس لئے رکے ہوئے ہیں کہ پاکستانی حکام انہیں اپنی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔ دوسری طرف پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان سے تجارتی سامان کی آمد پر کوئی پابندی نہیں لگا رکھی"۔
افغان ڈرائیور ہستی گل بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ طورخم سرحد کے اُس پار بہت سے ٹرک پاکستان آنے کا انتظار کر رہے ہیں لیکن انہیں طالبان کی طرف سے سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں مِل رہی۔ وہ 1998 سے کراچی اور افغانستان کے شہر جلال آباد کے درمیان ٹرک چلا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس دفعہ انہیں جلال آباد سے واپسی پر پاکستان میں داخلے کے لیے 22 دن انتظار کرنا پڑا۔
پاک افغان مشترکہ ایوانِ صنعت و تجارت کے سابق سینئر نائب صدر ضیا الحق سرحدی کے مطابق اس صورتِ حال کی وجہ افغانستان کے حالات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی کے دورِ حکومت میں پاکستان سے روزانہ تین سو سے چار سو تجارتی ٹرک افغانستان جاتے تھے جبکہ دو سو سے ڈھائی سو ٹرک افغانستان سے پاکستان آتے تھے لیکن اس وقت یہ دو طرفہ ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ "افغانستان کی غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے دونوں طرف کے تاجر ایک دوسرے سے تجارت کرنے سے احتراز کر رہے ہیں"۔
تاہم طورخم اور پشاور میں بہت سے پاکستانی تاجر اس تعطل کو عارضی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں پاک-افغان تجارت بڑھ جائے گی کیونکہ ان کے خیال میں طالبان پاکستانی برامدات پر لگائے جانے والے افغان ٹیکسوں کی شرح میں کمی کر دیں گے۔
لنڈی کوتل کے رہنے والے شریف الدین نامی تاجر اس توقع کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اشرف غنی کے عہدِ حکومت میں پاکستان سے افغانستان جانی والی اشیا پر بہت زیادہ کسٹم ڈیوٹی لگائی جا رہی تھی۔ ان کے بقول "ایک ہی دوا کی برآمد پر پاکستانی تاجروں کو انڈین تاجروں کی نسبت پانچ گُنا زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا"۔
خیبر ایوانِ صنعت و تجارت کے سابق صدر حضرت عمر شینواری اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اشرف غنی کے دور میں افغان حکام پاکستانی اشیا پر کم از کم 15 فیصد درآمدی ٹیکس لگاتے تھے جبکہ انڈیا، ترکی، ایران اور چین سے درآمد کی جانے والی اشیا پر لگایا جانے والا کم از کم ٹیکس سات سے آٹھ فیصد ہوتا تھا۔ ان کے مطابق اس فرق کی وجہ سے پاکستان سے افغانستان جانے والی اشیا دوسرے ملکوں سے افغانستان پہنچنے والی اشیا سے مہنگی ہو گئیں اور پاک-افغان تجارت پر بہت منفی اثر پڑا۔
لیکن افغان طالبان اور پاکستانی حکومت کے درمیان موجود رابطوں کی وجہ سے انہیں امید ہے کہ اب افغانستان میں پاکستانی برآمدات کے ساتھ ہونے والا منفی امتیازی سلوک ختم ہو جائے گا۔
کچھ تاجروں کا دعویٰ ہے کہ طالبان نے پہلے ہی پاکستان سے افغانستان بھیجی جانے والی اشیا پر ٹیکس کم کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ پہلے جُوس کے ایک ٹرک کی برآمد پر ساڑھے چار لاکھ افغانی (نو لاکھ پاکستانی روپے) بطور ٹیکس لئے جاتے تھے لیکن اب یہ رقم کم ہو کر 90 ہزار روپے افغانی تک آ گئی ہے۔
لیکن مقامی تاجر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس کمی کی بنیادی وجہ افغان درآمدی پالیسی میں تبدیلی نہیں بلکہ سرحد پر متعین طالبان کی ٹیکس اکٹھا کرنے کے معاملے میں نا تجربہ کاری ہے۔ لنڈی کوتل کے ایک تاجر رہنما کے مطابق یہ طالبان ٹرک ڈرائیوروں سے صرف یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے ٹرک میں کیا سامان ہے اور اس کا کتنا وزن ہے اور پھر محض انہی سوالوں کے جواب کی بنیاد پر ٹیکس لاگو کر دیتے ہیں۔
حضرت عمر شینواری کا بھی کہنا ہے کہ "آج کل افغانستان میں برآمدی ٹیکس اس لئے کم ہے کہ وہاں ٹیکس وصولی کا پورا نظام معطل ہوا پڑا ہے"۔لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ "جیسے ہی پرانا نظام بحال ہو گا تو ٹیکس کی وصولی بھی بڑھ جائے گی"۔
تاریخ اشاعت 8 ستمبر 2021