اڑتیس سالہ اکبر زادہ، سوات کے علاقے برہ بانڈئی کے رہائشی ہیں جو رواں سال 19 اگست کو محنت مزدوری کے لیے سعودی عرب گئے تھے لیکن انہیں ایک حادثے کی وجہ سے ڈیڑھ ماہ کے اندر ہی وطن واپس آنا پڑا۔
وہ بتاتے ہیں کہ 26 ستمبر کی صبح اہلیہ نے انہیں فون کیا اور بتایا کہ اُن کے بڑے بیٹے 19 سالہ کاشف خان کی طبیعت خراب ہو گئی ہے۔ بیٹا ان سے براہ راست بات نہیں کر رہا تھا اس لیے وہ اپنی بیوی سے مسلسل رابطے میں رہے۔
" اسی روز کاشف نے ماں کے سامنے انکشاف کیا کہ اس نے محلے والوں سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے قرض لے رکھا ہے جس کو اس نے منافع کے لالچ میں آن لائن گیم میں انویسٹ کر دیا تھا۔ اب وہ ساری رقم ہار چکا ہے اور سخت پریشانی میں زہر کھا لیا ہے۔"
اکبر بتاتے ہیں کہ کاشف کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا مگر تب تک دیر ہو چکی تھی۔ وہ ہسپتال پہنچتے ہی دم توڑ گئے۔
غم سے نڈھال باپ بیٹے کے جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکے۔ وہ اپنی چھوٹی سی بیٹھک میں چارپائی کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ وہ(کاشف) یہیں سوتے تھے اور یہیں زندگی کے آخری دن گزارے۔
کاشف "تین پتی گیم" کھیلا کرتے تھے۔ اس کی ایپ گوگل پلے سٹور پر موجود ہے اور یہ تاش کا ایک کھیل ہے۔
آن لائن یا ویڈیو گیمنگ کے اثرات
کلینکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر سارہ حیدر کہتی ہیں کہ فزیکل یا جسمانی گیمز (کھیلوں) سے بچوں کی فرسٹریشن دور ہوتی ہے اور وہ ذہنی طور پر توانا رہتے ہیں۔اس کے مقابلے میں آن لائن یا ورچوئل گیمز کھیلنے والے کو مخالف کھلاڑی کا بھی پتا نہیں ہوتا۔
"مسلسل ایسی گیم کھیلنے سے بچے ذہنی طور پر الگ تھلگ ہوجاتے ہیں۔ بہت کم سوتے ہیں اور آن لائن گیم ان کے سب کانشیس (لاشعور) میں چلی جاتی ہے۔ وہ نیند میں بھی اکثر کھیلتے رہتے ہیں، دراصل ان کا لاشعور جاگتا رہتا ہے جس سے نیند خراب ہوتی ہے۔"
وہ بتاتی ہیں کہ طویل بے آرامی سے یہ بچے ڈپریشن اور ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بات بات پر اہلخانہ سے لڑتے ہیں اور خودکشی یا کوئی بھی انتہائی اقدام کر سکتے ہیں۔
'گیمنگ ڈس آرڈر'
گیمنگ ڈس آرڈر کی تشخیص کے لیے رویے کے پیٹرن میں اتنی شدت ہو کہ متاثرہ کی ذاتی، خاندانی، سماجی، تعلیمی، پیشہ ورانہ یا روزمرہ کی دیگر سرگرمیوں میں نمایاں خرابی پیدا ہونے لگے اور اس کا کم از کم 12 ماہ تک مشاہدہ دیکھنے میں آئے۔
آن لائن گیمز اور رقم کا لین دین
سائنس کالج لاہور میں فرسٹ ائر کے طالب علم 17 سالہ موسیٰ بٹ آن لائن گیمنگ کے شوقین ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ منافعے کے چکر میں گیم نہیں کھیلتے بلکہ تھرل اور مزے کے لیے 'پب جی' پر پیسے خرچ کرتے ہیں۔
ان کے بقول گیم کا ہر اگلا لیول کراس کرنے کےلیے نئے ٹولز مثلاً گن، سورڈ(تلوار)، گاڑی، سیڑھی وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جو رقم دینے پر ملتے ہیں۔ جب تک گیم کھیلنے والا یہ ادائیگی نہیں کرتا آگے نہیں کھیل سکتا۔
جب موسیٰ بٹ سے پوچھا گیا کہ ان کے پاس فون نمبر تو نہیں ہے وہ ادائیگی کیسے کرتے ہیں؟
"میں اپنی والدہ کے موبائل نمبر میں محلے کی دکان سے ایزی لوڈ( رقم) ڈلواتا ہوں اور یہی فون نمبر جب مخصوص ویب سائٹ میں ڈالتا ہوں تو ایک 'کوڈ' آ جاتا ہے۔ یہ کوڈ ویب سائٹ میں ڈالنے سے ٹول مل جاتاہے اور رقم موبائل سے کاٹ لی جاتی ہے۔"
پاکستان میں تقریباً 50 سے زائد آن لائن گیمز کھیلی جاتی ہیں۔ بعض گیمز میں ڈیجٹل کوائن ملتے ہیں جنہیں رقم میں منتقل کر لیا جاتا ہے اور پھر بینک اکاونٹ یا ایزی پیسہ کے ذریعے لین دین کیا جاتا ہے۔
بونیر کے رہائشی احمد شاہ سائبر سیکورٹی ایکسپرٹ ہیں جو لاہور میں کنسلٹنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بیشتر گیمز کی انتظامیہ پاکستان ہی میں موجود ہے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا کی معروف شخصیات کے ذریعے اپنی گیمز کی مشہوری کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ گیمر کم سے کم دو ہزار روپے سے گیم کھیلنا شروع کرتے ہیں جس پر ابتدا میں انہیں اچھا خاصا منافع ملتا ہے۔ ساتھ ہی یہ گیمز مسلسل 'آن لائن پاپپس' میں یوزر کو مزید سرمایہ کاری اور لاکھوں کمانے کی ترغیب دیتی رہتی ہیں۔
"بعد میں یہی کم عمر لڑکے جیت کے لالچ میں گیمز میں مزید رقم ڈالتے اور ہارتے جاتے ہیں۔ یہی مثال کرپٹو کرنسی کی ہے جس سے سیکڑوں نوجوان لاکھوں کروڑں کے مقروض ہوچکے ہیں ۔"
ان کے بقول ملک کے ہر شہر میں ان گیمز اور آن لائن اپلیکیشنز مالکان کے ایجنٹس موجود ہیں۔ لیکن ان کا کوئی ہیڈ کوارٹر یا آفس نہیں ہوتا بلکہ کہیں ایڈریس لکھتے بھی ہیں تو وہ فرضی ہوتا ہے۔
افسرالملک افغان، 16 لاکھ فالورز کے ساتھ خیبرپختونخوا کے ٹاپ ٹین انفلوینسرز میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ لاہور سے ایک عورت اور مرد نے حال ہی میں ان سے رابطہ کیا اور کسی نئی آن لائن گیم کی پروموشن کے لیے رقم کی پیشکش کی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے گیم کی تفصیلات اور مقاصد پوچھے تو ان لوگوں نے کوئی تسلی بخش جواب دیا نہ دوبارہ رابطہ کیا۔
"یہاں کے لوگوں نے ہر جاہل انفلوینسر اور کنٹینٹ کریئیٹر کو فالو کیا ہوا ہےجن کا مقصد صرف پیسہ بنانا ہے۔ ایسے انفلوینسرز اپنے فالوز کو گیمز سے پیسے بنانے کا لالچ دیتے ہیں جو میرے نزدیک ایک فراڈ اور سماجی برائی ہے۔"
پاکستان، گیمنگ انڈسٹری کا بڑا کھلاڑی
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین محمد زوہیب خان نے گزشتہ سال بتایا تھا کہ 2022ء میں پاکستان کی گیمنگ انڈسٹری نے صرف موبائل گیمز سے 17 کروڑ 13 لاکھ ڈالر کمائے جبکہ 2023ء میں یہ آمدنی 20 کروڑ ڈالر سے بڑھ جانے کا امکان تھا۔
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اینیمیشن، گرافکس اینڈ گیمنگ کا کاروبار 30 کروڑ ڈالر سالانہ سے تجاوز کر چکا ہے۔
گرینڈ ویو ریسرچ کے مطابق 2026 تک دنیا میں گیمنگ کے کاروبار کا حجم 321 ارب اور اینیمیشن کا بزنس 405 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
یہ رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان حالیہ برسوں کے دوران اس میدان میں عالمی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے جو اپنا گیمنگ اینڈ اینیمیشن ایکو سسٹم بنا رہا ہے۔
ملک میں اس بزنس کے اضافے کی وجہ ٹیکنالوجی سے لیس 30 سال سے کم عمر 64 فیصد نوجوان آبادی اور 19کروڑ موبائل سبسکرائبرز ہیں۔
اس رپورٹ میں اگرچہ پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں اور یہاں کے ڈیجٹل بزنس کی تعریف کی گئی ہے تاہم ٹیکنالوجی بزنس کے بہت سے فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات بھی جڑے ہیں۔
کاشف خان بھی ایسے ہی ذہین نوجوان تھے جو گورنمنٹ کالج برہ بانڈئی میں کمپیوٹر سائنس سیکنڈ ائیر کے طالب علم اور موبائل گیمز کے شوقین تھے۔
کاشف خان کے والد کہتے ہیں کہ ان کی مالی حالت اچھی نہیں ہے اس لیے انہوں نے قبل ازیں کالج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کاشف کو بازار میں چھوٹی سی'ایزی پیسہ شاپ' بنا کر دی تھی۔
"کچھ عرصے بعد مجھے پتا چلا تھا کہ اس (کاشف) نے لوگوں سے یوٹیلیٹی بلوں کے ایک لاکھ 71 ہزار روپے وصول کیے لیکن رقم کھاتوں میں جمع کرانے کے بجائے آن لائن گیمنگ میں گنوا دی۔ میں نے بہت مشکل سے وہ قرض ادا کیا تھا۔"
ان کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ کاشف دوبارہ وہی کام کریں گے اور جان سے جائیں گے۔ اُن کا بیٹا تو چلا گیا مگر وہ چاہتے ہیں کہ حکومت آن لائن گیمز کے خلاف ایسے اقدامات اُٹھائے کہ آئندہ کوئی اور کاشف ڈپریشن میں مبتلا ہو کر موت کی وادی میں نہ جائے۔
جولائی 2020ء میں لاہور میں 16 سالہ محمد ذکریا نے گیم 'پب جی ' کھیلتے ہوئے "مشن میں ناکامی" پر خود کشی کر لی تھی۔
اس واقعے کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکشن تھارٹی(پی ٹی اے) نے ملک بھر میں پب جی کو بند کردیا جسے ایک ماہ بعد کھولا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان میں آن لائن آرڈر کریں: عرب امارات اور سعودیہ میں منشیات حاصل کریں
پی ٹی اے کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن ملحت عبید بتاتی ہیں کہ پب جی کی وجہ سے نوجوانوں کی اموات رپورٹ ہونے پر ان کے ادارے نے اس گیم کی انتظامیہ کے ساتھ کئی اجلاس کیے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ مذاکرات کے نتیجے میں انتظامیہ نے گیم میں واضح تبدیلیاں کیں، سیف گارڈز لگائے اور پاکستان میں گیم منیجمنٹ سسٹم متعارف کرایا جس سے کم عمر بچوں کے لیے گیم کھیلنےکے اوقات کو محدود کردیا گیا۔ ساتھ ہی گیم میں والدین کے لیے مانیٹرنگ سسٹم بھی انسٹال کر دیا گیا۔
انہوں نے بتایا ہے کہ پی ٹی اے کے پاس کمپلینٹ پورٹلز اور ای میل سروسز پر حال ہی میں آن لائن گیمزکے خلاف متعدد شکایت موصول ہوئی ہیں جن کو پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت ترجیحی بنیادوں پر نمٹایا گیا۔
"ہمارے پاس آن لائن گیمز کی براہ راست مانیٹرنگ کا کوئی نظام نہیں اور نہ ہی ایسا میکانزم ہے جس کے ذریعے ایچ ٹی ٹی پی ایس پر پوسٹ ہونے والے کسی مخصوص یو آر ایل کو ہٹایا جا سکے۔ اس کے باوجود شکایات کا فوری سدباب کیا جاتا ہے۔"
ملحت عبید کے مطابق گیمز سائٹ یا اپلیکشن کومکمل بند کرنے کے لیے حکومتی احکامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیکا ایکٹ 2016 کے سیکشن 29 کے تحت غیرقانونی آن لائن مواد ہٹانے یا تحقیقات کا اختیار ایف آئی اے کے پاس ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی اے شہریوں، خاص طور پر نو عمر لوگوں کی صحت و مالی تحفظ کے لیے آگاہی مہم چلارہی ہے جس میں کچھ این جی اوز مدد کر رہی ہیں۔ یونیسف نے والدین کی رہنمائی کے لیے (پیرنٹل کنٹرول) کتابچہ بھی شائع کیا ہے۔
ان کے بقول پی ٹی اے نے پچھلے سال ٹک ٹاک سے معاہدے کے تحت 100 سکولوں میں آگاہی سیشن کیے جن میں سوشل میڈیا کے ذمہ دارانہ استعمال، آن لائن ہراسگی، فراڈ، ٹک ٹاک کے حفاظتی ٹولز اور مس انفارمیشن کے بارے میں آگاہی دی گئی۔
پچھلے سال مائیکرو لون (قرضوں )کے نام پر آن لائن اپلیکشنز کے ذریعے لوگوں سے فراڈ کا سکینڈل بھی سامنے آیا تھا جس پر ایف ائی اے نے سیکورٹی ایکس چینج کمیشن کے ساتھ مل کر سات اپلیکشنز بند کر دیے تھے۔
پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں لیکن آن لائن گیمز (پب جی کے سوا)کے خلاف اب تک کوئی کاروائی ہوتی نظر نہیں آئی۔
تاریخ اشاعت 13 نومبر 2024