جنوبی پنجاب کا پہلا ڈرائی پورٹ ٹرسٹ 28 سال قبل ملتان کے علاقے شیر شاہ میں قائم کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد وسیب میں صنعتکاروں اور تاجروں کو سہولیات فراہم کرنا تھا۔
خیال تھا کہ ملتان، ڈیرہ غازیخان اور بہاول پور کی انڈسٹری اور امپورٹرز کو ملتان ہی میں کسٹم کلیئرنس کی سہولت ملے گی تو برآمدات و درآمدات بڑھیں گی اور لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور یہ ڈرائی پورٹ 1995ء سے آج تک 'نیم فعال' چلا آ رہا ہے۔
ابتدا میں تو سٹیک ہولڈرز نےجوش و خروش سے کام کیا لیکن اب یہاں سے برآمدات و درآمدات روز بروز کم ہور ہی ہیں۔ یہاں تک کہ ڈرائی پورٹ انتؕظامیہ کے لیے اخراجات پورے کرنا بھی چیلنج بناہوا ہے۔
آل پاکستان بیڈشیٹ اینڈ اپ ہولسٹری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید محمد عاصم بتاتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب ملتان میں ہر ماہ برآمدی سامان کے 500 سے زائد کنٹینرز کلیئر ہوتے تھے مگر اب یہ تعداد ماہانہ 50 کنٹینر تک محدود ہو گئی ہے۔
پچھلے تین سال کا ڈیٹا تصیدیق کرتا ہے کہ یہاں سے درآمدات اور برآمدات میں روز بروز کمی آ رہی ہے۔
مالی سال 21- 2020ء میں ملتان ڈرائی پورٹ پر سامان کے 539 درآمدی کنٹینرز کلیئر کیے گئے جن کی مالیت 10 ارب 92 کروڑ 58 لاکھ روپے تھی۔ جبکہ یہاں سے ایک ہزار 584 کنٹینر مال برآمد کیا گیا تھا جس کی مالیت کا تخمینہ 59 کروڑ 57 لاکھ روپے لگایا گیا تھا۔
22-2021ء یہاں کل 261 کنٹینر بیرون ملک سے آئے جن کی مالیت چار ارب 21 کروڑ 12 لاکھ روپے تھی۔ جبکہ 887 کنٹینرز باہر بھیجے گئے تھے جن کی مالیت 75 کروڑ 90 لاکھ روپے بتائی گئی تھی۔
اسی طرح مالی سال 23- 2022ء کے دوران 139 درآمدی کنیٹنرز کلیئر ہوئے جن کی مالیت چار ارب 49کروڑ 34 لاکھ روپےتھی۔ اسی دوران یہاں سے 851 کنٹینر مال برآمد ہوا جس کی مالیت 52 کروڑ 98 لاکھ 51ہزار روپے تھی۔
رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں دسمبر تک یہاں 91 کنٹینر درآمد کیے گئے اور 445 کنٹینر بیرون ملک روانہ کیے گئے ہیں۔
محمد عاصم نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ملتان ڈرائی پورٹ حکومتی پالیسیوں کے باعث ویران ہے۔ چند سال قبل کسٹمز کلکٹوریٹ کو دو حصوں 'اپریز منٹ(مالیت کا تعین ) اور انفورسمنٹ 'میں تقسیم کر کے ڈرائی پورٹ کو کسٹم اپریزمنٹ کے تحت دے دیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ملتان، کسٹمز کلکٹوریٹ فیصل آباد کا حصہ ہے اور کلکٹر کسٹمز اپریزمنٹ فیصل آباد آفس میں بیٹھتے ہیں۔ یہاں کوئی بھی مسئلہ ہو صنعتکاروں کو فیصل آباد جانا پڑتا ہے جس سے مسائل زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
"میں خود ملتان ڈرائی پورٹ کا ٹرسٹی ہوں لیکن اپنی درآمدات اور برآمدات کی کھیپ کراچی سے کلیئر کرانے کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ یہاں کسٹمز کا عملہ شپمنٹ کی کلیئرنس میں بہت وقت لیتا ہے۔"
ملتان ڈرائی پورٹ سے زیادہ تر گرے فیبرک (خام کپڑا)، کاٹن یارن اور ہوم ٹیکسٹائل (چادریں، پردے وغیرہ)، جوتے، چمڑے کی جیکٹیں اور دیگر مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں۔
اسی طرح درآمدات میں صنعتی مشینری، خام مال، کمپیوٹرز، آئی ٹی کا سامان، مشین آئل، میٹل سٹرپس، ہائیڈرو کاربن، زرعی ادویات و مشینری سمیت 20 مختلف اشیا شامل ہیں۔ تاہم یہاں فوڈ فیکٹریز اور ٹیکسٹائل کے خام مال کی امپورٹس پچھلے چھ ماہ سے ڈالر کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔
کسٹم اپریزمنٹ نے ملتان ڈرائی پورٹ پر کسٹمز کلیئرنس کے لیے اسسٹنٹ کلکٹر، پرنسپل اپریزر، تین اپریزرز، تین ایگزامینر، تین انسپکٹر اور دفتری امور کے لیے دیگر سٹاف تعینات کر رکھا ہے جبکہ پورٹ پر اے این ایف کا عملہ بھی موجود ہے جو کنسائمنٹس کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔
محمد عاصم کا کہنا ہے کہ ملتان ڈرائی پورٹ پر کنٹینر کی چیکنگ کے لیے جدید سکینرز دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث اینٹی نارکوٹکس فورس کو لوڈڈ اور تیار کنٹینر کھول کر چیک کرنا پڑتا ہے۔ اس عمل سے اشیا کی پیکنگ برباد ہو جاتی ہے اور بیرون ملک سے گاہکوں کی شکایات آتی ہیں۔
"بعض اوقات شپمنٹ منسوخ ہونے پر ہمیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔جدید سکینرز کی سہولت صرف کراچی اور لاہور کے ڈرائی پورٹس پر موجود ہے جہاں اضافی چارجز دینے پڑتے ہیں لیکن تاجر مینول ( انسانی ہاتھوں سے) تلاشی کے نقصان سے بچ جاتا ہے۔"
ملتان ہی کے صنعتکار جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے، یہاں کپڑا بنا کر بیرون ملک ایکسپورٹ کرتے ہیں۔
وہ نہ صرف کنٹینرز کی ہاتھوں سے تلاشی پر نالاں ہیں بلکہ انہیں یہ بھی شکایت ہے کہ ملتان ڈرائی پورٹ پر کلیئرنس کے دوران گڈز ڈیکلیئریشن (جی ڈی) پر بےجا اعتراضات لگائے جاتے ہیں۔
ایک اور معروف صنعتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ کراچی پورٹ سے کنسائمنٹ کلیئر کراتے ہیں تو ڈیوٹی کے علاوہ صرف سندھ حکومت کو ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ جبکہ ملتان سے کلیئرنس پر سندھ اور پنجاب حکومت دونوں کو ادائیگی کرنا پڑتی ہے، ان کے بقول یہ دہرا ٹیکس وارے نہیں کھاتا۔
صنعت کار محمد حسین کوشکوہ ہے کہ یہاں وقت بہت ضائع کیا جاتا ہے۔ کراچی پورٹ پر وی بوک سسٹم (WEBOC) کی وجہ سے جلد کلیئرنس ہو جاتی ہے جبکہ ملتان ڈرائی پورٹ کا آن لائن سسٹم کراچی کے ماتحت کام کرتا ہے۔ وہاں وہ مسائل نہیں ہوتے جو ملتان میں پیش آتے ہیں۔
کلیئرنگ ایجنٹ وقار شاہ بخاری بتاتے ہیں کہ ملتان میں وی بوک کلیئرنس سسٹم کا مین سرور ڈاؤن رہنے کے باعث گڈز ڈیکلیئرڈ (جی ڈی ) بھی رک جاتی ہیں جس سے امپورٹرز کو بعض اوقات ڈیمریج (کرائے کی مد میں اضافی چارجز ) کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چھوٹی پورٹ پر اگر کوئی انڈر انوائسنگ یا مس ڈیکلریشن کا واقعہ سامنے آ جائے تو مسائل بڑھ جاتے ہیں اس لیے لوگ یہاں کلیئرنس کرانے سے کتراتے ہیں۔
کلکٹر اپریزمنٹ فیصل آباد اسدق افضل تسلیم کرتے ہیں کہ ملتان ڈرائی پورٹ پر کلیئرنس سے متعلق صنعتکاروں کے تحفظات ان تک پہنچے ہیں۔ اب ان کی کوشش ہے کہ زوم میٹنگ کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں اور ہفتے میں دو دن ملتان ڈرائی پورٹ پر اپنی موجودگی یقینی بنائی جائے۔
ملتان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایم سی سی آئی) کے صدر میاں راشد اقبال ڈرائی پورٹ کی بڑا کمزوری انفراسٹرکچر کو سمجھتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ پورٹ کی کرین ایک عرصے سے خراب ہے مگر مرمت کرانے کے وسائل نہیں ہیں۔ کینٹنر کو سیدھا کرنے کے لیے کرین کرائے پر لانی پڑتی ہے جس پر دس سے بیس ہزار خرچ ہو جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
'آم ایران نہیں جائے گا'، برآمدی رکاوٹوں سے کاشت کار اور ایکسپورٹر کا نقصان، حکام پابندی پر مصر
ملتان ڈرائی پورٹ سے درآمدات و برآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے اور انتظامیہ نصف کے قریب یعنی 20 سے زائد ملازمین کو فارغ کر چکی ہے۔ اب یہاں صرف 22 افراد کام کر رہے ہیں بوقت ضرورت دہاڑی دار مزدوروں سے کام لیا جاتا ہے۔
مقامی صنعت کار چودھری ذوالفقار انجم ملتان ڈرائی پورٹ کی "ناکامی" کا ذمہ دار ٹرسٹ کے عہدیداروں کو قرار دیتے ہیں جہاں بقول ان کے "ایک ہی خاندان قابض ہے۔"
تاہم جنرل منیجر ملتان ڈرائی پورٹ خواجہ حسن ودود اس "الزام" کی تردید کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کوئی صنعتکار ملتان ڈرائی پورٹ ٹرسٹ میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا تو اسے انہیں زبردستی تو ڈرائی پورٹ کا ٹرسٹی نہیں بنا سکتے۔
محموداحمد خان ملتان ڈرائی پورٹ پر سترہ سال تعینات رہے اور اب بطور پرنسپل اپریزر ریٹائر ہو چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ صنعتکار ملتان سے کلیئرنس کرانے کو اس لیے ترجیح نہیں دیتے ہیں کہ کراچی میں سامان کی زیادہ پوچھ گچھ اور چیکنگ کے دوران چیر پھاڑ نہیں ہوتی۔
"کراچی میں رش کے باوجود کلیئرنس کی بہترین سہولیات ہیں جبکہ ملتان ڈرائی پورٹ پر جو کچھ ہوتا ہے اس سے کلیئرنس کرانے والوں کو امتیازی سلوک کا گمان ہوتا ہے۔"
ایگزیکٹوممبر وفاقی ایوان صنعت وتجارت ملک سہیل طلعت کہتے ہیں کہ کراچی اور سینٹرل پنجاب صنعتی مراکز مانے جاتے ہیں صرف لاہور شہر میں تاجر اور صنعتکار چار ڈرائی پورٹس کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب زرعی خطہ ہے جہاں صنعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں حکومت کو آسانیاں پیداکرنا ہوں گی۔
تاریخ اشاعت 22 جنوری 2024