یہ فیچر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے صفائی کا کام کرنے والے لوگوں کے حالات زندگی پر مبنی خاکوں کے سلسلے کے طور پر شروع کیا تھا۔ یہ خاکے شکیل پٹھان لیبر سٹڈیز سیریز کا حصہ ہیں جو مختلف شعبوں میں کام کے حالات کا جائزہ مرتب کرتا اور پسماندہ محنت کشوں کے لیے باعزت اور شائستہ کام کے حق سے متعلق پالیسیوں کے بارے میں سفارشات پیش کرتا ہے۔
چالیس سالہ شہنیلا٭ کام پر روانہ ہونے سے چند منٹ پہلے اپنی سوتی ساڑھی تبدیل کرکے سفید شلوار قمیض پہن لیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے بالوں میں نارنجی سرخ سیندور لگاتی ہیں جو شادی شدہ عورت ہونے کی علامت ہے اور انہیں اس پر فخر ہے۔
سیندور انہیں مسلم اکثریتی معاشرے میں مخصوص ہندو شناخت بھی مہیا کرتا ہے۔ اسی لیے وہ سر پر چارد اوڑھتے ہوئے سیندور سے بھری مانگ کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتیں۔ جب بھی وہ اپنے شوہر کے ساتھ موٹرسائیکل پر بیٹھ کر کام کے لیے نکلتی ہیں تو انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوتا کہ ان کا سیندرو راہگیروں کی متجسس نگاہوں کا مرکز رہتا ہے۔
شہنیلا ہفتے میں چھ دن نو گھنٹے کراچی کے کاروباری مرکز آئی آئی چندریگر روڈ پر ایک نجی کمپنی میں خواتین کے بیت الخلا کی صفائی کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ تقریباً ایک سال سے یہاں کام کر رہی ہیں لیکن انہیں کام کے دوران پہننے کے لیے یونیفارم نہیں دی گئی حالانکہ ان ساتھ کام کرنے والی ایک اور خاتون ملازم کو یونیفارم مل چکی ہے۔
ساڑھی کی جگہ شلوار قیمض پہننے کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس طرح انہیں اپنا کام کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یہ اس یونیفارم کا آسان متبادل بھی ہے جو انہیں اپنے مالک سے ابھی تک وصول نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ یہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کو ذاتی زندگی سے الگ رکھنے کی کوشش کی علامت بھی ہے۔
پاکستان میں صفائی کے کام کو کمتر سمجھا جاتا ہے اور ایسے کام عموماً مذہبی اقلیتوں کے لوگ انجام دیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اکثریتی مسلم آبادی ایسے کام کو 'نامناسب' اور 'ناپاک' سمجھتی ہے۔
صفائی ہر مذہب کا اہم جزو ہے اور ہندو مذہب بھی ظاہری اور باطنی صفائی قائم رکھنے پر زور دیتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ہندوؤں سمیت مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ روزانہ اپنے ان تصورات پر سمجھوتہ کرتے ہوئے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے اس طرح کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔
شہنیلا کہتی ہیں کہ انہیں وہ تمام سامان مہیا کیا جاتا ہے جو بیت الخلاء کو صاف رکھنے کے لیے درکار ہوتا ہے، لیکن کام کے دوران اپنے جسم کو صاف رکھنے کے لیے صابن یا تولیے نہیں دیے جاتے۔
تاہم شہنیلا کی یونیفارم کی ضرورت کا تعلق ان کی جسمانی صفائی سے ہے اور یہ ان مشکلات کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی جس کا ان جیسی خواتین دہائیوں سے سامنا کرتی چلی آ رہی ہیں۔
'قسمت نہ بدلی'
شہنیلا جب چھوٹی تھیں تو انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اس طرح صفائی کا کام کیا کریں گی۔ ان کا تعلق ایک قدامت پسند ہندو خاندان سے ہے جس نے 1947 میں ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کراچی کے دیارام جیٹھامل سائنس کالج کے قریب ایک مکان میں رہائش اختیار کرلی تھی۔
ان کے ننھیال اور ددھیال نے پاکستان میں رہتے ہوئے چھوٹے موٹے کام کر کے گزر بسر کا سامان کیا۔
"میرا خاندان قدامت پسند تھا جہاں لڑکوں کی تعلیم کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان سے کمانے کی توقع کی جاتی تھی۔ لڑکیوں کو تو سرے سے سکول جانے کی اجازت ہی نہیں تھی، اسی لیے میں تعلیم حاصل نہیں کرپائی۔ میں تو دسخط کرنا بھی نہیں جانتی۔"
17 سال کی عمر میں ہی شہنیلا کے والد نے خاندان میں اس کی شادی کردی، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ شادی سے اس کی قسمت بدل جائے گی۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ میرے والد یہ بات نہیں جانتے تھے کہ زندگی میں میرے لیے کچھ نہیں رکھا۔
شہنیلا کے شوہر عمر میں ان سے تقریباً دس سال بڑے ہیں جو اس وقت ایک پٹرولیم کمپنی میں ٹھیکیدار کے ذریعے خاکروب کا کام کرتے تھے۔
"اس وقت ان کی تنخواہ صرف 2,200 روپے ماہانہ تھی۔ ہمارے لیے اس تنخواہ میں گزارا کرنا بہت مشکل تھا۔ میرے شوہر کو طویل وقت کے لیے کام کرنا پڑتا تھا، اس لیے وہ دوسری نوکری بھی نہیں کر سکتے تھے۔"
شادی کے بعد شہنیلا کے ہاں دو بچوں کی پیدائش ہوئی جن میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ خاندان کی مالی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے شوہر کو اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔ انہی مسائل کو دیکھتے ہوئے شہنیلا کو احساس ہوا کہ تعلیم انسان کے لیے بہتر مواقع کی راہ کھولتی ہے لیکن ان کے خاندان نے انہیں تعلیم سے دور رکھ کر روشن مستقبل سے محروم کر دیا تھا۔
"میں یہ یقینی بنانا چاہتی تھی کہ میرے بچے، خاص طور پر میری بیٹی سکول جائے۔ خاندان کے باقی لوگوں نے میرے اس فیصلے کو منظور نہیں کیا، لیکن میرے شوہر بچوں کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔"
شہنیلا نے اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور اس مقصد کے لیے اپنے مالی وسائل بڑھانے کے لیے خود بھی نوکری کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں ںے آج سے تقریباً 20 سال پہلے روزگار کی تلاش شروع کی۔ ابتداً وہ گھروں میں صفائی کا کام کرتی تھیں۔ تاہم اس کام سے ملنے والی اجرت میں ان کا گزارا مشکل تھا۔ اسی لیے انہوں ںے شام کے اوقات میں ایک کلینک پر صفائی کا کام شروع کردیا۔
پچھلی دو دہائیوں میں شہنیلا نے بہت سرکاری و نجی دفاتر، بینکوں، چھوٹے بڑے ہسپتالوں اور سکولوں میں بیت الخلا اور فرش صاف کیے ہیں۔ انہیں ایسے بیشتر کام ٹھیکیدار کے ذریعے ملے جن میں معاہدے کی شرائط بہت سخت ہوتی تھیں اور انہیں کوئی اور مراعات نہیں ملتی تھیں۔
تاہم شہنیلا اپنے بچوں کے بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کا مقصد لے کر محنت کرتی چلی گئیں تاہم اس کے باوجود انہوں نے کبھی عزت نفس پر سمجھوتہ نہیں کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کام سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں اور مشکل سے مشکل کام بھی محنت سےکرتی رہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ عارضی طور پر اس وقت نوکری چھوڑی جب وہ ماں بننے والی تھیں اور دوسری مرتبہ اپنے بڑے بیٹے کی وفات کے بعد انہوں ںے اپنی دو میں سے ایک نوکری کو خیرباد کہہ دیا۔
انہوں ںے طویل ترین عرصہ تک جہاں کام کیا وہ ایک سکول تھا جہاں انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو بھی داخل کرا رکھا تھا۔ یہاں سکول انتظامیہ نے انہیں بچوں کی ٹیوشن فیس میں رعایت بھی دے رکھی تھی۔ اس سکول کے پرنسپل نے یہ بات بھی یقینی بنائی کہ سبھی طلبہ ان کے بچوں کے ساتھ احترام سے پیش آئیں۔
شہنیلا اپنی بیٹی کے انٹرمیڈیٹ مکمل کرنے تک تک سکول میں ملازمت کرتی رہیں اور بالاآخر اس قابل بھی ہو گئیں کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے لیے فیس میں دی جانے والی رعایت نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کی بیٹی نے گریجوایشن بھی مکمل کر لی جسے وہ اپنی زندگی کا قابل فخر لمحہ کہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 2020 میں کورونا کی وبا کے دوران جب سکول نے آن لائن کلاسیں لینے کا فیصلہ کیا تو انہیں گھر بیٹھنا پڑا۔ شروع کے چند مہینوں میں انتظامیہ انہیں تنخواہ ادا کرتی رہی تاہم بعد میں ان کی نوکری ختم کر دی گئی۔ اس دوران وبا کے خوف سے لوگ گھروں میں صفائی ستھرائی کے کام کے لیے ملازمین رکھنے سے بھی ہچکچاتے تھے۔
اس مشکل وقت میں شہنیلا کے شوہر کی نوکری ہی گھر میں کمائی کا واحد ذریعہ تھی جو ایک مقامی کالج میں صفائی کا کام کرتے تھے اور اس کے عوض انہیں 23 ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی۔ ان حالات میں شہنیلا کے خاندان کے لیے زندگی کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس دوران بنیادی ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی تھیں۔
مشکل حالاتِ کار
جب وبا کا زور ٹوٹا تو انہوں ںے دوبارہ نوکری ڈھونڈنا شروع کی جو انہیں ایک ٹھیکیدار کے ذریعے ملی۔ وہ ان دنوں یہی نوکری کر رہی ہیں جس میں وہ صبح ساڑھے آٹھ بجے اپنا کام شروع کرتی ہیں اور دن میں تقریباً تین مرتبہ عمارت کے ہر فلور پر خواتین کے بیت الخلا کی صفائی کرتے ہیں۔ انہیں خوشی ہے کہ لوگ بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد انہیں زیادہ گندا نہیں چھوڑتے۔
اس نوکری میں انہیں 20 ہزار روپے اجرت ملتی ہے جو ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ وہ اپنی تنخواہ میں اضافہ چاہتی ہیں تاہم انہوں نے اس حوالے سے کوئی غیر حقیقی توقعات بھی نہیں باندھیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ انہیں بجٹ میں طے کردہ مزدور کی کم از کم اجرت کے برابر تنخواہ ملنی چاہیے جو کہ 25 ہزار روپے ہے۔
جنوری 2023 میں سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے تمام محکموں میں صفائی کرنے والے کارکنوں کو 25 ہزار روپے کم از کم اجرت ادا کرے۔ لیکن بدقسمتی سے شہنیلا کمپنی کی ڈائریکٹ ملازم نہیں ہیں اور ٹھیکیدار کے ذریعے کام کرنے والے کارکنوں کے لیے اپنی اجرتوں میں اضافہ کرانا ممکن نہیں ہوتا۔
وہ کہتی ہیں کہ جس ٹھیکیداری سسٹم کے تحت وہ ملازمت کررہی ہے اس میں مالک سے مناسب تںخواہ کا مطالبہ کرنا ہی بے سود ثابت ہوتا ہے اور وہ جس ٹھیکے دارکے ہاں کام کرتی ہیں اس سے یہ سوال کرنا لاحاصل ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے ٹھیکے دار سے اجرت میں اضافے کے لیے کئی مرتبہ کہا لیکن ہر مرتبہ ان کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کر دی گئی کہ 'یہ ٹھیکے کا کام ہے، اگر کرنا ہے تو اسی اجرت میں کرو ورنہ نہ کرو۔'
'چھٹی نہیں ملتی'
شہنیلا کو تنخواہ کے علاوہ کسی طرح کی کوئی مراعات نہیں ملتیں حتیٰ کہ ان کے لیے بیماری یا کسی ضروری کام کی صورت میں چھٹی کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
"میں گلہڑ (تھائی رائیڈ) کی بیماری میں مبتلا ہوں جس کی وجہ سے ماہواری کے مسائل ہوتے ہیں۔کبھی کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔جیسے آج صبح ہی میں نے اپنے ٹھیکیدار کو فون کیا اور بتایا کہ میرے لیے کام پر آنا ممکن نہیں ہے۔ جس کے جواب میں انہوں کہا کہ "اس طرح تو نہیں چل سکتا"۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ "میری جگہ کسی اور صفائی والے کو بھیج دیں لیکن اس نے انکار کر دیا کیونکہ اس کے دیگر کارکن یا تو بلامعاوضہ ایسٹر کی چھٹی لے چکے تھے اور یا دوسرے کاموں میں مصروف تھے۔ ایسے حالات میں میرے پاس کام پر جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔"
شہنیلا کے ساتھ ٹھیکیدار کا رویہ نہ صرف جنسی امتیاز پر مبنی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح ٹھیکیدداری نظام میں طبی ایمرجنسی کی صورت میں بھی اپنے کارکنوں کی مدد نہیں کی جاتی۔
شہنیلا کے لیے اپنے کسی مذہبی تہوار میں شرکت کے لیے ٹھیکیدار کو راضی کرنا بھی اتنا ہی مشکل ہے۔
"کبھی کبھار کمپنی کا کوئی ہمدرد ملازم میری طرف سے ٹھیکیدار اور مینیجر سے بات کرتا ہے اور مجھے مذہبی تہوار جیسا کہ ہولی کے لیے ایک دن کی چھٹی مل جاتی ہے"۔ لیکن ہمیشہ اس طرح کی ہمدردی پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔"
شہنیلا اور اس کے ساتھیوں کیلئے غیر رسمی چھٹی ایک اور آزمائش ہے۔ وہ کہتی ہے کہ پچھلے مہینے ان کی بیٹی کی شادی تھی جس کے لیے انہیں ایک ماہ کی چھٹی چاہیے تھی۔تاہم ٹھیکیدار نے اس شرط پر چھٹی دینے کی حامی بھری کہ وہ کسی ملازم کا انتظام کریں گی جو ان کی واپسی تک ان کی جگہ کام کرے گی۔
"میں نے اس کی درخواست مان لی کیونکہ مجھے اپنی بیٹی کی شادی کی تیاری کے لیے وقت درکار تھا۔ تاہم مجھے اس مہینے کی تنخواہ نہیں ملی کیونکہ ٹھیکیدار نے یہ اجرت اس ملازم کو دی جس نے میری جگہ کام کیا تھا۔ چنانچہ اس وقت میری جیب میں کوئی پیسے نہیں ہیں۔"
ٹھیکیدار نے بیٹی کی شادی کے لیے پیشگی اجرت کے لیے شہنیلا کی درخواست بھی منظور نہیں کی۔ خوش قسمتی سے ان کے بعض صاحب استطاعت رشتہ داروں نے شادی کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹایا اور انہیں کھانے کے سوا کسی شے پر خرچہ نہیں کرنا پڑا۔
شہنیلا کو روزانہ ان کے شوہر کام پر چھوڑتے ہیں۔ اسے وہ اپنی خوش قسمتی سمجھتی ہیں کیونکہ ان جیسی بیشتر خواتین کو پبلک ٹرانسپورٹ پر طویل فاصلے طے کرکے کام کی جگہوں پر جانا پڑتا ہےا ور ان کی تنخواہ کا ایک معقول حصہ کرایوں پر خرچ ہو جاتا ہے۔
شہنیلا کے شوہر بھی ان مسائل کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کی اہلیہ کی تنخواہ کا بڑا حصہ کام پر آنے جانے میں ہی خرچ ہو جائے جبکہ پٹرول کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ ان کے شوہر کی ڈیوٹی ساڑھے تین بجے ختم ہو جاتی ہے لیکن وہ شہنیلا کا پانچ بجے تک انتظار کرتے ہیں جو ان کا کام ختم ہونے کا وقت ہے۔
خاندان کی فکر
شہنیلا اس وقت کراچی صدر میں لائٹ ہاؤس مارکیٹ کے قریب ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں جو انہوں نے بوہرہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک مالک مکان سے کرائے پر لے رکھا ہے۔
اس جگہ کا انہیں 15 ہزار روپے ماہانہ کرایہ دینا ہوتا ہے۔ تاہم شہنیلا کے خیال میں اس اعتبار سے یہ زیادہ رقم نہیں ہے کہ انہیں بجلی اور پانی بھی میسر ہے۔ اگرچہ اس گھر میں گیس کی سپلائی باقاعدہ نہیں ہے تاہم وہ اس پر مطمئن ہیں۔
شہنیلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کا مالک مکان اپنا اپارٹمنٹ صرف ہندو کرایہ داروں کو دیتا ہے اور اس طرح انہیں اپنے پچھلے مکان سے بے دخلی جیسا خطرہ لاحق نہیں ہے جب انہیں ڈی جے سائنس کالج کے قریب کوارٹر چھوڑنے کا کہہ دیا گیا تھا۔ شہنیلا کا خاندان اس جگہ قانونی طور پر غیرتسلی شدہ پگڑی کے تحت رہتا تھا۔ اس انتظام کے مطابق مالک مکان کرایہ دار کو مارکیٹ کی قیمت سے کم رقم وصول کرنے کے بعد طویل مدت تک جائیداد استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کرایہ دار اس کے بدلے میں معمولی ماہانہ کرایہ ادا کرتا ہے اور اسے بے دخل نہیں کیا جا سکتا حالانکہ جائیداد مالک مکان کے نام پر رہتی ہے اور وہ اس پر ٹیکس ادا کرتا رہتا ہے۔
شہنیلا کہتی ہیں کہ انہیں نیا مکان تلاش کرنے میں مشکل پیش آئی کیونکہ بیشتر لوگ ہندوؤں کو مکان کرایہ پر دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔
"میرے سابقہ مکان مالکان میں سے ایک نے یہ پیشکش کی کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو وہ انہیں کرایے پر مکان دے دے گا۔ تاہم اس مشروط مہربانی کی یاد سے میں اب بھی خوف زدہ ہوں۔"
جب بھی مذہبی تعطیلات قریب آتی ہیں تو شہنیلا کو خوف لاحق ہوجاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
لوگوں کو صحت مند ماحول دینے والوں کی اپنی جان داؤ پر: حفاظتی سامان اور سہولتوں سے محروم ساہیوال کے سینٹری ورکرز
"آج کل ہمارے پاس دیوالی اور دیگر تعطیلات کے لیے نئے کپڑوں پر خرچ کرنے کے لیے بمشکل اضافی رقم ہوتی ہے۔ شکر ہےکہ میرے بچوں نے ہمیشہ ان معاملات کو سمجھا ہے۔ میرا بیٹا صرف ایک ہی چیز چاہتا ہے کہ وہ دیوالی پر آتش بازی کرے۔ میں اسے آتش بازی سے بہت ڈراتی ہوں کیونکہ میرے زیادہ تر پڑوسی مسلمان ہیں، اس لیے میں اسے عموماً اسے کیماڑی میں اپنی والدہ کے گھر بھیج دیتی ہوں۔ وہاں وہ لوگ ہندو مندر جاتے ہیں اور کسی پابندی کے بغیر تہوار مناتے ہیں۔"
مذہبی تہواروں پر شہنیلا کے خوف کا سبب چند سال پہلے پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔
جب وہ پاکستان چوک میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی تھیں تو انہوں نے ایک مذہبی تہوار کے لیے گڑ کی روٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے گھر سے باہر عارضی چولہا بنا کر روٹیاں تیار کرنا شروع کر دیں۔ اسی دوران پڑوسی ان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور الزام عائد کیا کہ وہ کالا جادو کر رہی ہیں۔
ایک بے ضرر کام پر اس جارحانہ ردعمل سے پریشان ہو کر شہنیلا نے اسی رات وہ گھر چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے خاندان کی حفاظت ان کی پہلی ترجیح ہے۔
اپنے خاندان کی حفاظت کو لاحق ایسے خطرات کے علاوہ شہنیلا کو کسی اور طرح کے امتیازی سلوک کی شکایت نہیں ہے۔
"میں یہاں مکمل آزادی کے ساتھ رہتی ہوں، میرے بچے ہمارے مذہبی تہوار سے زیادہ خوشی یوم آزادی پر مناتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ملک کے لیے جان بھی دینے کے لیے تیار ہیں۔"
شہنیلا کے یہ الفاظ مخلصانہ حب الوطنی کے احساس کو ظاہر کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان الفاظ سے اپنی بقا کو لاحق اس خطرے کا احساس بھی مترشح ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ ان جیسے لوگوں کو لاحق ہوا ہے۔
شہنیلا کہتی ہیں، انہوں نے اور ان کے شوہر نے بیت الخلا صاف کرنے اور جھاڑو دینے کا کام صرف اس لیے قبول کیا کہ ان کے بچے پڑھ لکھ جائیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے بچے اور نواسے انہی جیسے راستے پر چلیں۔ وہ امید کرتی ہیں کہ حکومت ہندو بچوں کی تعلیم کے لیے خصوصی اقدامات کرے گی تاکہ وہ بڑے ہو کر باعزت روزگار کما سکیں۔
* شناخت خفیہ رکھنے کے لیے نام تبدیل کیا گیا۔
تاریخ اشاعت 19 اگست 2023