رزق کا فقدان یا شکاریوں کا خوف: مہاجر پرندہ سیاہ سر دُرسہ ایک سال سے آواران کا مہمان نہیں بنا

postImg

شبیر رخشانی

postImg

رزق کا فقدان یا شکاریوں کا خوف: مہاجر پرندہ سیاہ سر دُرسہ ایک سال سے آواران کا مہمان نہیں بنا

شبیر رخشانی

بلوچستان کے ضلع آواران کی تحصیل جھاؤ میں مغرب کی نماز کے بعد ایک مسجد کے سامنے سات افراد ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو دن بھر کا احوال بتا رہے ہیں۔ اگرچہ بلوچستان میں حال احوال کا رواج اب ماند پڑتا جا رہا ہے لیکن جھاؤ کے عبدالستار گوٹھ میں یہ روایت اب بھی برقرار ہے۔ یہ لوگ کاشت کاری پر بات چیت کر رہے ہیں جو جلد ہی رخ بدل کر پرندوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔

اس منڈلی میں پینسٹھ سالہ عبدالرحیم ان پرندوں کے نام گنوا رہے ہیں جو یا تو معدوم ہو چکے ہیں یا اب خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کبھی اس علاقے میں کونجیں اترا کرتی تھیں جو اب کبھی کبھار ہی نظر آتی ہیں جبکہ تلور کو دیکھے تو مدتیں گزر گئی ہیں۔

پچپن سالہ محمد اسماعیل ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے بڑے بوڑھے بتایا کرتے تھے کہ اس علاقے میں کبھی سیاہ سر دُرسہ نامی پرندہ (اسے مقامی زبان میں کررک، زردک اور دروچک بھی کہا جاتا ہے) عام دکھائی دیتا تھا۔ جب اس پرندے کے جھنڈ فضا میں پرواز کرتے تو پورا آسمان زرد ہو جاتا تھا لیکن اب یہ پرندہ بھی علاقے میں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

اسماعیل کہتے ہیں کہ انہوں ںے پچھلے ایک سال کے عرصہ میں اس پرندے کو نہیں دیکھا جبکہ عبدالرحیم بھی سر ہلا کر ان کی تائید کرتے ہیں۔

اس گفتگو میں شریک پینتیس سالہ عبدالاحد اپنے ساتھیوں کو بتاتے ہیں کہ اب موسم پہلے جیسے نہیں رہے جس کی وجہ سے پرندے بھی یہ علاقہ چھوڑ گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سیاہ سر دُرسہ عام طور پر مارچ کے مہینے میں گندم کی فصل پکنے کے دنوں میں دکھائی دیتا تھا۔ لیکن اس سال بارش اور ژالہ باری کے باعث فصل اپریل میں پکی نتیجتاً پرندے علاقے میں قیام کئے بغیر چلے گئے۔

جنگلی حیات کے فوٹو گرافر سلمان بلوچ بتاتے ہیں کہ سیاہ سر دُرسہ کو انگریزی میں بلیک ہیڈڈ بنٹںگ کہا جاتا ہے۔ یہ پرندے طویل سفر کرتے ہیں جو عام طور پر سات ہزار کلومیٹر تک محیط ہوتا ہے۔ یہ بلوچستان سے ہوتے ہوئے انڈیا جا کر اپنا ٹھکانہ بناتے اور انڈے دیتے ہیں۔ دو ہفتوں کے اندر انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں اور اتنے ہی عرصے میں یہ بچے گھونسلہ چھوڑ کر اڑ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سال میں اس پرندے کی تعداد میں 30 فیصد کمی رپورٹ کی گئی ہے اور اس کی جھاؤ سے نہ گزرنے کی ممکنہ وجہ غیرقانونی شکار ہے۔

آواران سمیت بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں ناصرف مقامی پرندوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے بلکہ اب ہر سال دوسرے ممالک سے ہجرت کر کے آنے والے کئی طرح کے پرندے بھی کم کم نظر آتے ہیں۔

بلوچستان کے کنزرویٹر آف فاریسٹ اینڈ وائلڈ لائف نیاز کاکڑ پرندوں کو خوراک میسر نہ آنے اور ان کے اندھا دھند شکار کو اس کمی کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر سال ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کو اپنے راستے پر جو خوراک پہلے وافر مقدار میں ملتی تھی وہ اب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے دستیاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان پرندوں کے شکار کا رحجان بھی پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی آمد کم ہو گئی ہے۔

ماہر ماحولیات محمد یحییٰ کے مطابق بیرون ملک سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں نے اب اپنے راستے بدل لئے ہیں۔

"مجھے موسیٰ خیل سے اطلاع ملی ہے کہ اس مرتبہ وہاں زرد رنگ کے پرندے دیکھے گئے ہیں۔ امسال وہ اس راستے سے گزر رہے ہیں جس پر ہم نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ قبل ازیں یہ پرندے مکران آواران روٹ سے آتے تھے۔ پیچھے یوکرین کی جنگ کی وجہ سے بھی پرندوں کے راستے تبدیل ہوئے ہیں۔"

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ہجرتی پرندوں کے چار بڑے راستے ہیں۔ ان میں ایک راستہ آواران جھاؤ سے ہوتا ہوا اورماڑہ اور گوادر تک جاتا ہے۔ دوسرا نوشکی زنگناوڑ سے جھل مگسی اور پھر سکھر سے ہوتا ہوا سمندر تک چلا جاتا ہے۔ تیسرا راستہ قلعہ سیف اللہ سے بولان اور  سندھ تک اور چوتھا راستہ افغانستان اور ژوب موسیٰ خیل کے درمیان ہے۔

یحییٰ کے مطابق پرندوں کے جسم میں قدرتی سینسر ہوتے ہیں جو انہیں بتاتے ہیں کہ موسم بدل گیا ہے۔ اب جب یہ پرندے ان راستوں پر آنا چاہتے ہیں تو ان کے سینسر انہیں سفر کے راستوں پر موسم تبدیل ہونے کے بارے میں آگاہ کر دیتے ہیں جس سے ان کی نقل و حرکت میں خلل آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'اس سال نقل مکانی کر کے آنے والے مہمان پرندوں کو پورا سندھ ہی جھیل نظر آیا': موسمیاتی تبدیلیاں اور پرندہ شماری

ہجرتی پرندوں کے شکار کی روک تھام میں حائل مسائل پر بات کرتے ہوئے نیاز کاکڑ کا کہنا ہے کہ جنگلی حیات ایکٹ 2014ء اور جنگلات ایکٹ 2022ء کی صورت میں پرندوں کو تحفظ دینے کے لئے واضح قانون موجود ہیں۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان قوانین پر عملدرآمد کرنے اور غیرقانونی شکار کی روک تھام کے لئے ان کے پاس وسائل اور افرادی قوت کی کمی ہے۔

"بلوچستان کی وائلد لائف اور فاریسٹ فورس کی مجموعی افرادی قوت دو ہزار سے زیادہ نہیں جس میں ہر طرح کا عملہ شامل ہے۔ صوبے کے وسیع جنگلات کی نگرانی کے لئے فورس کے پاس نہ تو مطلوبہ تعداد میں گاڑیاں ہیں اور نہ ہی ایندھن، اسلحہ اور دیگر سازوسامان دستیاب ہے۔ پرندوں کے شکاری جدید اسلحے سے لیس ہوتے ہیں جنہیں روکنا اس فورس کے بس کی بات نہیں۔"

تاریخ اشاعت 16 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

شبیر رخشانی کا تعلق بلوچستان کے علاقے جھاؤ آواران سے ہے۔ مختلف صحافتی اداروں دنیا نیوز، روزنامہ آزادی آن لائن نیوز پیپر حال احوال کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.