چند ماہ پہلے جب پینتیس سالہ محمد شاہد* کو ابو ظہبی میں ڈرائیور کی نوکری ملی تو ان کے والد نے پورے محلے میں مٹھائی بانٹی۔ ان کی تنخواہ آٹھ سو درہم ماہانہ مقرر ہوئی تھی جو تقریبا 35 ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ ابوظہبی میں ان کے رہائشی اور طبی اخراجات بھی ان کو ملازمت دینے والی کمپنی برداشت کرے گی۔
چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑے محمد شاہد نے سوچا کہ اس تنخواہ سے وہ کچھ نہ کچھ رقم بچا کر پاکستان واپس بھیجتے رہیں گے جس سے ان کے خاندان کا گذارا ہوتا رہے گا۔ لیکن ابو ظہبی پہنچنے کے بعد نہ تو انہیں ڈرائیور کی نوکری ملی اور نہ ہی مقرر کردہ تنخواہ اور دوسری مراعات۔
ابو ظہبی سے فون پر سجاگ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'جب میں یہاں پہنچا تومجھے محمد اسماعیل نامی ایک مقامی شخص کے حوالے کر دیا گیا۔ اس نے مجھ سے ایک سروس اسٹیشن پر گاڑیاں صاف کرانے کا کام لینا شروع کر دیا لیکن دو ماہ تک کوئی تنخواہ نہ دی'۔
جب انہوں نے اپنے والد کو یہ سب کچھ بتایا تو 'انہیں شدید ذہنی دھچکا لگا'۔
محمد شاہد نے ابوظہبی جانے کے لئے ایک ایجنٹ کو ایک لاکھ روپے دیے تھے جو ان کے والد نے قرض لے کر اکٹھے کیے تھے۔ اس قرض کی واپسی کے دباؤ کی وجہ سے ان کے والد ڈپریشن کا شکار ہو گئے اور کچھ ہی دنوں بعد انتقال کر گئے۔
محمد شاہد کہتے ہیں: 'یہ خبر مجھ پر پہاڑ بن کرٹوٹی۔ میں نے پاکستان جانے کی بہت کوشش کی تا کہ میں اپنے والد کو آخری بار دیکھ سکوں۔ میں نے محمد اسماٰعیل کی منت سماجت بھی کی لیکن اس بے رحم انسان نے مجھے واپس پاکستان نہیں جانے دیا'۔
پچھلے چند ماہ سے محمد شاہد انتہائی قلیل تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بقول 'مجھے چار سو درہم تنخواہ ملتی ہے جس میں سے دو سو سے تین سو درہم کھانے پینے پر خرچ ہو جاتے ہیں'۔
جب وہ محمد اسماٰعیل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انہِیں پنجاب کےضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ میں واقع ان کے گھر واپس جانے دیا جائے تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ 'تمھارے میڈیکل ٹیسٹ اور انشورنس کرانے پر چار ہزار درہم خرچ آیا ہے وہ دے دو تو تمہیں جانے دیا جائے گا اور اگر یہ رقم نہیں دے سکتے ہو تو دو سال اور اسی تنخواہ پر کام کرو'۔
پاکستان کے نا مساعد معاشی حالات کی وجہ سے محمد شاہد جیسے ناخواندہ یا نیم خواندہ اور نیم تربیت یافتہ مزدوروں کی ایک بہت بڑی تعداد بیرونِ ملک – خاص طور پر عرب ریاستوں میں -- ملازمت کی خواہش مند ہوتی ہے۔ یہ رجحان 1970 کی دہائی میں شروع ہوا جب دبئی، ابو ظہبی، سعودی عرب اور تیل کی دولت سے مالا مال دیگر عرب ممالک میں بہت وسیع پیمانے پر نئے شہر تعمیر ہونا شروع ہوئے۔ چونکہ ابتدا میں وہاں پاکستانی مزدوروں کی مانگ بہت زیادہ تھی اس لئے ان مزدوروں کو معاوضہ بھی اچھا ملتا تھا جس کے نتیجے میں ان کے خاندانوں کی معاشی حالت میں بھی کافی بہتری ہوئی۔
تاہم اب یہ صورتِ حال بدلتی جا رہی ہے کیونکہ ایک طرف تو ان عرب ممالک کی تیل سے پیدا ہونے والی آمدنی کم ہو رہی ہے اور دوسری طرف انہیں بنگلہ دیش اور انڈیا جیسے ممالک سے بھی سستے داموں مزدور دستیاب ہیں۔ اس لئے وہاں کام کرنے والے پاکستانیوں کو اب شدید استحصال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان پاکستانیوں میں ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا کے قصبے گگو منڈی کے رہنے والے محمد خان* بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں لیکن انہیں پاکستان میں کوئی کام نہیں مل رہا تھا اور ان کی مالی حالت دن بدن خراب ہو رہی تھی۔ اس دوران ان کے ایک دوست نے انہیں پیش کش کی کہ وہ ایک لاکھ روپے کمیشن کے عوض انہیں شارجہ میں نوکری لے کر دے سکتا ہے۔ انہوں نے یہ پیش کش قبول کر لی اور جیسے تیسے کر کے اپنے دوست کو مطلوبہ رقم دے دی۔
چنانچہ کئی ماہ کام کرنے کے باوجود محمد خان اپنے گھر والوں کو ابھی تک ایک روپیہ بھی نہیں بھیج پائے۔ سجاگ سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: 'میں دس گھنٹے ڈیوٹی کرتا ہوں۔ ایک دن کی تنخواہ چار درہم فی گھنٹہ کے حساب سے 40 درہم دی جاتی ہے ۔ بیماری کی صورت میں خرچہ اپنی جیب سے کرنا پڑتا ہے۔'
جس دوست نے انہیں شارجہ بھجوایا تھا اس نے دوبارہ ان سے رابطہ تک نہیں کیا۔ جب وہ خود اس کو کال کرتے ہیں تو 'اس کا نمبر بند ملتا ہے'۔
محمد خان کے مطابق شارجہ میں وہ جس کمپنی میں کام کرتے ہیں اس نے مزدوروں کے رہنے کے لئے دو کیمپ بنائے ہوئے ہیں جہاں ان کے علاوہ سینکڑوں پاکستانی رہتے ہیں۔ کچھ انڈین اور بنگلہ دیشی بھی وہاں رہتے ہیں۔ وہاں موجود زیادہ تر پاکستانیوں کا تعلق وسطی پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہے۔ محمد خان کے بقول ان کیمپوں میں 'چھوٹے چھوٹے کمروں میں آٹھ سے نو افراد رہتے ہیں جو سب ایک ہی طرح کے مسائل سے دوچار ہیں'۔
عرب ممالک میں درکار افرادی قوت وہاں کے مقامی ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سے لائی جاتی ہے۔ ان ایجنٹوں کو 'ارباب' یا 'کفیل' کہا جاتا ہے جو درآمد کئے گئے مزدور مختلف کمپنیوں کو فراہم کرتے ہیں۔ ان مزدوروں کی تنخواہ ارباب کو ہی ملتی ہے جو بعد میں اسے مزدوروں میں تقسیم کرتے ہیں لیکن اس میں سے وہ کئی قسم کی کٹوتیاں کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر محمد خان کہتے ہیں کہ 'اگر مجبوری میں چھٹی کرنی پڑ جائے تو ان کی تنخواہ سے 25 درہم کاٹ لیے جاتےہیں'۔
کچھ ہفتوں بعد ان کے پاسپورٹ پر شارجہ کا ویزا لگ کر آ گیا۔
محمد خان کہتے ہیں کہ 'جب میرا ویزا لگا تو میرے گھر والوں کو بہت خوشی ہوئی۔ میرے سب رشتے دار مجھے مبارک باد دینے میرے گھر آئے۔ میں بھی بہت خوش تھا کہ اب ہمارے گھر کے حالات بدل جائیں گے'۔
انہیں بتایا گیا کہ وہ شارجہ میں پلمبر کی نوکری کریں گے اور ان کی تنخواہ تیرہ سو درہم ماہانہ یعنی پچپن ہزار روپے ہو گی۔ لیکن شارجہ پہنچنے پر انھیں ہیلپر کا کام دیا گیا اور انہیں کسی ماہ پانچ سو درہم اور کسی ماہ سات سو درہم تنخواہ دی جاتی ہے۔ 'اس میں سے بھی زیادہ تر رقم کھانے پینے اور علاج معالجے پر خرچ ہو جاتی ہے اور کچھ ویزہ فیس کی قسط کے طور پر کاٹ لی جاتی ہے'۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کٹوتیوں کے بارے میں کمپنیوں کو آگاہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ارباب دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر کسی مزدور نے ان کے بارے میں شکایت کی تو اسے واپس بھیج دیا جائے گا۔ 'جو مزدور قرض لے کر بیرونِ ملک گیا ہو وہ واپس نہیں آنا چاہتا اس لیے وہ مجبوراً انہی حالات میں کام کرتا رہتا ہے'۔
خلیجی ممالک میں غیر ملکی مزدوروں کی فراہمی کا یہ نظام – جسے کفالت یا کفالہ کا نام دیا جاتا ہے اور جو غیر ملکی مزدوروں کو ایک انفرادی آجر یا سپانسر یا کفیل یا ارباب کے تابع کرتا ہے – انسانی حقوق پر کام کرنے والی عالمی تنظیموں کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں ہے کیونکہ اس کے تحت سارے اختیارات آجر کے پاس ہوتے ہیں جبکہ مزدور مکمل طور پر آجر کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔
کیا پاکستانی قانون سو رہا ہے؟
لیکن در حقیقت مزدوروں کا استحصال بیرونِ ملک پہنچنے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے۔
چونکہ ان کا ان کمپنیوں سے کوئی براہِ راست رابطہ نہیں ہوتا جنہیں مزدور درکار ہوتے ہیں اس لئے وہ ملازمت کے حصول کے لئے ریکروٹنگ ایجنسیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستانی قانون کے مطابق اس وقت صرف لائسنس یافتہ ریکروٹنگ ایجنسیاں ہی مزدوروں کو بیرونِ ملک بھجوا سکتی ہیں۔ یہ ایجنسیاں فی مزدور چھ ہزار روپے سے زیادہ فیس وصول نہیں کر سکتیں۔
اگر بیرونِ ملک بھیجے گئے افراد کو ان لائسنس یافتہ ایجنسیوں کے خلاف کوئی شکایت ہو تو اس بات کا امکان کافی زیادہ ہے کہ ان کی شکایت حکومت تک پہنچ جائے۔ ایسی ایجنسیوں کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کی خبریں بھی اکثر و بیشتر نیوز میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔
ان ایجنسیوں کی تعداد تقریبا تین ہزار ہے لیکن ان کے ساتھ ساتھ بغیر لائسنس کے کام کرنے والے ایجنٹوں کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک بھی پاکستان میں موجود ہے جو بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند افراد کی کم علمی یا لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر ان سے بھاری فیس وصول کرتا ہے اور حالاتِ کار کے بارے میں بھی انہیں درست معلومات فراہم نہیں کرتا۔
اس نیٹ ورک کی موجودگی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ لائسنس یافتہ ایجنسیاں زیادہ تر بڑے شہروں میں قائم ہیں۔ ان کے لئے چھوٹے شہروں میں دفاتر کھولنا مالی طور پر فائدہ مند نہیں ہوتا اس لئے دیہی علاقوں سے بیرونی ممالک جانے کے خواہش مند مزدور اپنے آس پاس موجود ایجنٹوں کے ساتھ رابطہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
یہ ایجنٹ کسی قاعدے قانون کے تحت کام نہیِں کرتے لیکن اکثر اوقات وہ ریکروٹمنٹ ایجنسیوں سے غیر رسمی طور پر منسلک ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار ان کا بیرونِ ملک موجود کفیل یا ارباب سے براہِ راست تعلق بھی ہوتا ہے۔ اِن ایجنٹوں کو پکڑنا اور ان کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان میں سے اکثر بغیر کوئی دفتر بنائے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو وعدے وعید وہ مزدوروں کے ساتھ کرتے ہیں ان کا بھی کوئی تحریری ریکارڈ نہیں ہوتا اس لئے ان پر عمل درآمد کرانا نا ممکن ہوتا ہے۔
تاہم انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان ان مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کر سکتی تھی اگر اس نے آئی ایل او کی طرف سے دس سال پہلے پیش کی جانے والی ایک پالیسی کو منظور کر لیا ہوتا۔
منور سلطانہ آئی ایل او کے نیشنل پروجیکٹ کوآرڈینیٹر کے طور پر اسلام آباد میں کام کرتی ہیں۔ سجاگ کو فون پر دیے گئے ایک انٹرویو میں وہ کہتی ہیں کہ اگر یہ پالیسی لاگو ہو جاتی تو ملازمت کے معاہدے واضع اور شفاف ہو جاتے اور محنت کشوں کے ساتھ دھوکہ بازی یا ان پر دباؤ ڈالنے کے واقعات میں کمی آ جاتی۔
'یہ پالیسی محنت کشوں کو بیرونی ممالک میں اپنی شناختی اور سفری دستاویزات اپنی تحویل میں رکھنے کا اختیار دیتی ہے تا کہ وہ جب چاہیں بیرونِ ملک سے پاکستان واپس آ سکیں۔ اس کے تحت انہیں اپنی ملازمت ختم کرنے اور آجر یا ارباب تبدیل کرنے کی بھی آزادی ہے اور اس میں ان کے استحصال کے تدارک اور تنازعات کے مفت اور سستے حل تک رسائی کے طریقے بھی موجود ہیں'۔
اس پالیسی کی عدم موجودگی میں پاکستان نے ایک ایسا انتظام کر رکھا ہے جس سے شاید ہی کوئی مزدور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس کے تحت بیرونِ ملک ملازمت کے خواہش مند تمام افراد کے لئے لازم ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے تحت چلائے جانے والے ایک ادارے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ کے دفتر میں حاضری دیں تا کہ انہیں بیرونِ ملک پہنچ کر اپنے حقوق کی حفاظت کرنے اور اپنی شکایات درج کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں معلومات مل سکیں۔
سجاگ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس ادارے کے ایک اہل کار مزمل برلاس کہتے ہیں کہ ان کے ادارے کے دفاتر سات مختلف شہروں میں قائم ہیں جہاں لوگوں کو تمام معلومات آسانی سے مل سکتی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیرونِ ملک نوکری کے لئے جانے والے لوگ اس لئے استحصال کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود بھی قوانین اور قواعد پر عمل درآمد نہیں کرتے۔
لیکن دور دراز دیہاتی علاقوں میں رہنے والے ناخواندہ اور نیم خواندہ مزدوروں کے لئے عام طور پر سرکاری دفاتر تک پہنچنا اور وہاں موجود افسران سے بات چیت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لئے وہ ایجنٹ سے رابطہ کرتے ہیں جو سارے کاغذات تیار کر کے ان کے گھر پہنچا دیتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ حکومت نے اس سلسلے میں کوئی قوانین بھی بنا رکھے ہیں اور آیا ایسے حکومتی ادارے موجود ہیں جو کسی طرح سے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
*فرضی نام
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 23 اکتوبر 2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 20 مئی 2022