محمد حسین خان میانوالی شہر سے تقریباً 10 کلومیٹر دور واقع قصبے احمد خان والا میں رہتے ہیں۔ وہ چھوٹے کسان ہیں۔ اس بار انہوں نے آٹھ ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کی تھی۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہ کپاس بیچ کر اگلی گندم کی فصل کے لیے ڈی اے پی کھاد خریدیں گے لیکن وہ دُہری مشکل میں پھنس گئے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ دو ماہ قبل ڈی اے پی کھاد کا نرخ آٹھ ہزار 500 روپے فی بوری تھا۔ وہ اب سوچتے ہیں کہ انہیں اس وقت ربیع کے لیے کھاد خرید لینا چاہیے تھی لیکن ساری جمع پونجی کپاس کی فصل پر لگانے کی وجہ سے ان کے پاس رقم نہیں تھی۔
"میں نے کپاس کی فصل آدھی سمیٹ لی ہے مگر اس کا ریٹ اچھا نہیں مل رہا۔ دوسری طرف کھاد کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ پندرہ دن پہلے ڈی اے پی کھاد کی بوری ساڑھے 11 ہزار روپے میں عام فروخت ہو رہی تھی لیکن اب ڈیلرز نے قیمت 14ہزار روپے کر دی ہے۔"
متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ محمد صدیق شہباز میانوالی شہر سے پانچ کلومیٹر شمال میں واقع خیل کے رہائشی ہیں۔ وہ چھ ایکڑ رقبے پر گندم کاشت کرنے کا ارداہ رکھتے ہیں جس کے لیے انہیں ڈی اے پی کھاد درکار ہو گی۔
وہ کہتے ہیں "جب گندم کی فصل اٹھانے کا وقت آتا ہے تو سرکاری عہدیداران گھر گھر چھاپے مارتے ہیں اور کسانوں پر سرکاری ریٹ پر گندم بیچنے کےلیے دباؤ ڈالتے ہیں لیکن اب ڈیلر حکومتی نرخ سے کہیں زیادہ پر کھاد بیچ کر کسانوں کو لوٹ رہے ہیں تو انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔"
ان کے مطابق شکایت کی صورت میں اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر دکھاوے کے لیے چند ایک کارروائیاں کرتے ہیں مگر اس سے کسانوں کو ریلیف نہیں مل رہا۔
گندم کی اچھی پیداوار کے لیے ڈی اے پی کھاد کا استعمال اہم ہے۔ ہر سال ربیع کے سیزن میں گندم کی فصل کو بہت بڑی مقدار میں کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیزن شروع ہوتے ہی ڈی اے پی کی قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے جسے حکومت اکثر اوقات روکنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
میاںوالی میں کل زیر کاشت رقبہ سات لاکھ 55 ہزار 315 ایکڑ ہے جس میں سے ہر سال لگ بھگ پانچ لاکھ 20 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل کاشت ہوتی ہے۔
میانوالی میں اکتوبر کے وسط میں کھاد کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہونا شروع ہوا۔ اس سلسلے کو روکنے کےلیے رواں ہفتے محکمہ زراعت میانوالی کی جانب سے کھادوں کی نئی قیمت مقرر کر کے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق فی بوری قیمت12 ہزار 798 روپے مقرر کی گئی ہے۔
عرفان اللہ خان تقریباً 200 ایکڑ زمین کاشت کرتے ہیں۔ انہوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میانوالی میں بنیادی طور پر کھاد فروخت کرنے والے تین بڑے ڈیلرز ہیں، جنہوں نےچند دن پہلے ڈپٹی کمشنر کےساتھ میٹنگ میں حکومتی نرخوں پر کھاد بیچنے کی حامی بھری تھی لیکن دو دن بعد ہی وہ اپنی من مانی پر اتر آئے۔
"انہوں نے سستے داموں کھاد خرید کر ذخیرہ کی اور اب مل کر غریب کسانوں کا استحصال کر رہے ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ ان بڑے ڈیلرز کے سامنے بے بس ہے"۔
اسسٹنٹ کمشنر نعمان محمود رانا نے لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے میں انہوں نے کئی ڈیلرز اور دکان داروں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ دکان داروں کو حکم دیا ہے کہ وہ سرکاری نرخ نامہ لگائیں، کسانوں کو بھی اس حوالے سے رہنمائی دی جا رہی ہے کہ وہ سرکاری ریٹ سے زیادہ پر کھاد بیچنے والے ڈیلرز اور دکان داروں کی نشاندہی کریں۔ ان کے مطابق مہنگی کھاد بیچنے والوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کو ممکن بنایا جائے گا۔
میانوالی کسان اتحاد کےرہنما مولوی عظمت اللہ خان حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ضلعی حکومت کے لوٹ مار کرنے والے کھاد ڈیلرز کے خلاف فیصلہ کن کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے یہ ہر سال غریب کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔
"یہ لوگ کروڑوں روپے کماتے ہیں، انہیں چند ہزار روپے جرمانہ دینے سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر حکومت گراں فروشی کرنے والوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرے اور انہیں جیل بھیجے تو شاید حالات بدل جائیں۔"
کھاد ڈیلرز کا مؤقف مختلف ہے۔ عدنان اینڈ برادرز فرٹیلائزرز کے مالک محمد عدنان خان کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں کمی بیشی کا براہ راست تعلق طلب اور رسد سے ہے، جب طلب زیادہ ہوتی ہے تو رسد کم ہو جاتی ہے اور فطری طور پر قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
گوجرانوالا ڈویژن میں کھاد کی قیمتیں بےلگام، ربیع سیزن میں غذائی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ
" کھاد کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ اسی اصول کے تحت ہو ا ہے"۔
وہ کہتے ہیں کہ انہیں کھاد کا سٹاک کم مقدار میں اور مہنگے داموں مل رہا ہے۔ اس صورت حال میں کسانوں کو کیسے کم داموں کھاد بیچ سکتے ہیں؟
مگر سرکاری اعدادو شمار سٹاک کی کمی کی شکایت کو جھٹلاتے ہیں۔
نیشنل فرٹیلائزر ڈویلپمنٹ سینٹر ملک میں کھاد کی طلب اور رسد کو کنٹرول کرنے والے وفاقی ادارہ ہے۔
ربیع سیزن کے حوالے سے ادارے کی رپورٹ کے مطابق نومبر میں جب گندم کی کاشت کے وقت پورے ملک کے لیے کل چھ لاکھ 19 ہزار میٹرک یوریا کھاد موجود ہوگی جب اس ماہ پاکستان کی کل طلب پانچ لاکھ 67 ہزار ٹن رہنے کی توقع ہے۔
یوں نومبر کے مہینے میں پاکستان میں یوریا کھاد ضرورت سے 52 ہزار ٹن زائد موجود ہے۔
اسی طرح نومبر کے مہینے کے لیے پاکستان کو امونیم فاسفیٹ کی تقریباً تین لاکھ ٹن کی ضرورت ہے جبکہ اس وقت پاکستان میں دستیاب کھاد دو لاکھ 89 ہزار ٹن رہے گی جو ضرورت سے صرف 15 ہزار ٹن کم ہے۔ لیکن اس ادارے کے ایک عہدیدار کے بقول حکومت نے باہر سے ڈی اے پی منگوالی ہے جو 15 نومبر تک کراچی بندر گاہ پہنچ جائے گی۔
ان کے خیال میں ملک میں اس وقت یوریا یا ڈی اے پی کھاد کی اصل میں کوئی قلت نہیں ہے بلکہ مارکیٹ کو کنٹرول کرنے والی مافیا مصنوعی قلت ظاہر کررہی ہے تاکہ وہ اسے بلیک میں مہنگے داموں فروخت کر سکے۔
تاریخ اشاعت 6 نومبر 2023