میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

postImg

ماہ پارہ ذوالقدر

postImg

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

ماہ پارہ ذوالقدر

تیئیس سالہ عروج ملک (فرضی نام) میانوالی کے نواحی علاقے کی رہائشی ہیں۔ وہ ابھی ایم اے پولیٹیکل سائنس کے فائنل ائیر میں تھیں کہ انہوں نے فری لانس صحافت شروع کر دی تھی۔ وہ ڈگری مکمل ہونے کے بعد زیادہ پرجوش تھیں لیکن کچھ ہی عرصے میں انہیں صحافت کو خیرباد کہنا پڑا۔

وہ بتاتی ہیں کہ سماجی رویوں اور گھریلو پابندیوں کے باعث میانوالی میں خواتین کے لیے ایونٹس یا نیوز رپورٹنگ تقریباً ناممکن ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے فیچر رائٹنگ کاانتخاب کیا تھا۔ تاہم بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ کام بھی خواتین کے لیے آسان نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ صحافیوں کے لیے معلومات تک رسائی اہم ہوتی ہے لیکن یہاں خواتین کا دفاتر میں جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا آپشن یہی رہ جاتاہے کہ فون کال کے ذریعے متعلقہ لوگوں سے ڈیٹا لینے کی کوشش کی جائے۔

"میں جنگلات پر سٹوری کر رہی تھی۔ متعلقہ افسر کو فون کیا تو انہوں نے مجھ سے واٹس ایپ نمبر مانگ لیا، کہا کہ آپ میرے ساتھ ناران چلیں وہاں بہت جنگلات ہیں اور سٹوریز بھی بہت مل جائیں گی۔ میں نے اس افسر کا نمبر بلاک کیا اور گھر والوں کو بھی بتا دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ پر صحافت کے دروازے بند ہو گئے۔"

تحصیل عیسیٰ خیل کے ایک گاؤں کی رہائشی صبا جاوید (فرضی نام) نے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے لیکن انہیں چند ہی ماہ میں صحافت چھوڑنا پڑی۔

"گھر والوں نے بڑی مشکل سے اجازت دی تھی لیکن کسی انٹرویو یا کوئی معلومات لینے کے لیے والد یا بھائی کو ساتھ لے جانا پڑتا تھا جو ہر بار ممکن نہیں ہوتا تھا۔ دلبرداشتہ ہو کر میں نے صحافت ترک کر دی۔ اب سکول میں پڑھا رہی ہوں۔"

'میرا (برقعے والا) حلیہ دیکھتے ہی سرکاری اہلکار غیر سنجیدہ ہو جاتے ہیں'

میں خود (راقم الحروف) بھی میانوالی کی رہائشی ہوں اور دو سال سے لوک سجاگ کے لیے فیچرز اور تحقیقاتی سٹوریز لکھ رہی ہوں۔ میرے اپنے تجربات و مشاہدات بھی ایسے ہی ہیں۔

اس علاقے میں عورتوں کے لیے پردہ لازم تصور کیا جاتا ہے اور پردے کا مطلب صرف سکارف لینا یا چادر اوڑھنا نہیں بلکہ شٹل کاک برقعہ ہے جس سے منظر ہی دھندلا جاتا ہے۔

میں بھی شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں۔ میرا حلیہ دیکھتے ہی سرکاری اہلکار انتہائی غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ عموماً ان پڑھ یا پھر مشکوک سمجھتے ہیں کہ یہ برقعہ پوش دفتری معلومات کیوں لیتی پھر رہی ہے۔

بعض تحقیقاتی سٹوریز پر کام کے دوران مجھے سخت خدشات تھے۔ خاص طور پر جب ڈاکٹر سدرہ قتل کیس کی رپورٹنگ میں سنگین نتائج کی دھمکیاں ملیں اور مجھے اس کیس سے دور رہنے کا کہا گیا تھا۔ 

تحصیل عیسیٰ خیل میں پولیس کے ہاتھوں تین بے گناہ افراد کے قتل کی رپورٹنگ میں بھی ایسی ہی صورت حال سے واسطہ پڑا۔ پہاڑوں میں واقع قبائلی گاؤں تک رسائی جہاں مشکل تھی وہاں جرگہ ارکان سے معلومات اگلوانا بھی آسان نہیں تھا۔ خاتون صحافی کے لیے یہ انتہائی دشوار ہوتا ہے۔

جہاں تک ہراسگی جیسے رویوں کا تعلق ہے تو ان کا خواتین کو اکثر سامنا کرنا ہی پڑتا ہے اور ایسی صورت میں اپنے خاندان کے لوگ بھی سپورٹ نہیں کرتے ہیں۔ تازہ ترین مثال ایک سابقہ صدر ڈسٹرکٹ پریس کلب (میانوالی نہیں) کا ہراسمنٹ کی حد تک غیرشائستہ رویہ تھا جنہیں میں نے ایک سٹوری سے متعلق معلومات کے لیے کال کی تھی۔ 

میرے نزدیک پردہ کلچر، ہراسمنٹ، سرکاری اہلکاران کا رویہ، سکیورٹی مسائل اور اس پیشے میں انتہائی قلیل آمدنی میانوالی میں خواتین کو صحافت سے باہر رکھنے کے اسباب ہیں۔"

ونی کیس کی رپورٹس میں کبھی متاثرہ خاتون سے بات چیت کیوں شامل نہیں ہوتی؟

دنیا بھر میں خواتین صحافی روزانہ اہم واقعات کی رپورٹنگ سے لے کر صنفی مساوات اور سماجی انصاف کی وکالت تک کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ 

نیوکاسل یونیورسٹی برطانیہ میں جینڈر اینڈ میڈیا کی پروفیسر کیرن راس  کی تحقیق کے مطابق خاتون صحافیوں میں صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود سے متعلق سماجی مسائل کو کور کرنے کا رحجان ہوتا ہے جبکہ مرد سیاست، جرائم اور کاروبار کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ 

"خواتین صحافت میں مختلف نقطہ نظر لاتی ہیں جس میں خواتین و بچوں کے مسائل کا احاطہ کرنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔"

ڈاکٹر فیصل شہزاد میانوالی کے رہائشی اور لاہور کے ایک گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہیں جو مختلف سماجی ایشوز پر اکثر لکھتے بھی رہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ میانوالی میں غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد اور صنفی جرائم روزانہ رونما ہوتے ہیں لیکن اکثر میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے جس کی بڑی وجہ خواتین کا میدان صحافت میں نہ ہوناہے۔

"میانوالی میں ونی کے کئی کیسز رپورٹ ہوتے رہے ہیں مگر ان کی کسی بھی میڈیا رپورٹ میں متاثرہ لڑکی کی گفتگو شامل نہیں ہوتی۔ یہاں مرد صحافی کا متاثرہ خاتون سے انٹرویو ممکن ہی نہیں ہوتا۔"

 صنفی تفریق میں میانوالی، پنجاب بھر میں سرفہرست ہے

پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈ میئرمنٹ سروے 20۔2019ء کے مطابق شرح خواندگی کے لحاظ سے پنجاب میں سب سے زیادہ جینڈر گیپ ضلع میانوالی میں ہے۔ یہاں بالغ مردوں میں خواندگی کا تناسب 75 فیصد جبکہ بالغ خواتین میں 39 فیصد تھا۔

ضلع میں کھیت مزدوری کے سوا ہر شعبے میں ہی خواتین بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔پاکستان لیبر فورس  سروے 21-2020کے مطابق میانوالی کی 77.1 فیصد خواتین زراعت سے وابستہ ہیں جبکہ صرف 15.2 فیصد سروسز سیکٹر کا حصہ ہیں۔

محکمانہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ میانوالی میں خواتین کی سب سے زیادہ تعداد محکمہ تعلیم میں ہے جہاں سکولوں میں اس وقت دوہزار 405 خواتین پڑھا رہی ہیں۔ محکمہ صحت میں صرف 110 خواتین ڈاکٹرز ، 216 نرسز اور دیگر ہیلتھ سٹاف میں کل 250 خواتین ہیں۔

تاہم یہاں قومی یا بین الاقوامی میڈیا کے لیے کام کرنے والے نیوز رپورٹرز میں ایک بھی خاتون نہیں ہے۔

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر میانوالی حمیرا یاسمین کہتی ہیں کہ میانوالی پر قبائلی ثقافتی اثرات غالب ہیں اور یہاں خواتین منفی سماجی رویوں کی وجہ سے زیادہ تر چار دیواری میں ہی محدود رہتی ہیں۔ 

وہ بتاتی ہیں کہ دو دہائیاں پہلے تک تو میانوالی کے سرکاری و نجی دفاتر میں خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں۔ تاہم اب تعلیم کی طرف رحجان بڑھ رہا ہے، خواتین ملازمتوں میں آ رہی ہیں لیکن تعلیم و صحت کے سوا تمام محکموں میں ان کی تعداد نہایت کم ہے۔ 

"ہمارے ہاں پردہ کلچر کی وجہ سے خواتین عموماً آفس ورک یا چار دیواری میں ملازمت کو ترجیح دیتی ہیں۔ اہل خانہ فیلڈ ورک والے کام کی اجازت ہی نہیں دیتے، خاص طور پر میڈیا سے وابستہ ہونا خواتین کے لیے جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔"

'اتنا کماتی نہیں ہو جتنے لگ جاتے ہیں تو پھر اس خواری کا فائدہ؟'

خواتین کی تعلیم کے حوالے سے یونیورسٹی آف میانوالی کے قیام سے صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ میانوالی میں سرگودھا یونیورسٹی کے سب کیمپس کا آغاز 2012ء میں ہوا تھا جس کو 2019ء میں یونیورسٹی آف میانوالی بنا دیا گیا۔

اس وقت یہاں 19 شعبےکام کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ابلاغِ عامہ کا شعبہ قائم نہیں کیا جا سکا۔ ڈین سوشل سائنسز ڈاکٹر شفیق آصف امید دلاتے ہیں کہ اب جب بھی یہاں نئے شعبے شروع ہوں گے تو ان میں ابلاغِ عامہ بھی شامل ہو گا۔

تاہم سابقہ صحافی صبا جاوید کہتی ہیں کہ اچھے تعلیمی اداروں سے صحافت کی ڈگریاں لینے کے باوجود خواتین کا میانوالی میں صحافت کرنا ممکن نہیں۔

"خاتون صحافیوں کے لیے سب کچھ حوصلہ شکن ہے۔ ہاں چند ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی بدولت کچھ خواتین فری لانس صحافت کر رہی ہیں اور ان کے آرٹیکلز بھی آن لائن پبلش ہو رہے ہیں لیکن فری لانسنگ سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی کہ کوئی خاتون اپنے اخراجات خود اٹھا سکے۔"

"خاص طور پر اس لیے بھی کہ رپورٹنگ کے لیے گھر کے کسی مرد کو ساتھ لے جانا پڑتا ہے تو اخراجات اور مشکلات اور بڑھ جاتے ہیں۔"

صبا سمجھتی ہیں کہ اگر ان کی آمدنی بہتر ہوتی تو ان کے گھر والے بھی شاید صحافت سے ان کی وابستگی برداشت کر لیتے۔ "وہ اکثر کہتے تھے کہ اتنا کماتی نہیں ہو جتنے لگ جاتے ہیں تو پھر اس خواری کا فائدہ؟"

جو چند فری لانس صحافت کر رہی ہیں انہیں پریس کلب ممبر شپ نہیں دیتا

صبا کو یہ بھی شکوہ ہے کہ صحافتی تنظیمیں بھی خواتین کی معاونت نہیں کرتیں۔ "صحافتی کارڈ کے بغیر محکمے معلومات لینے والے صحافی کو سنجیدہ ہی نہیں لیتے۔"

صدر میانوالی پریس کلب اختر مجاز تصدیق کرتے ہیں کہ یہاں پریس کلب ممبران کی کل تعداد 123 ہے جن میں ایک بھی خاتون شامل نہیں۔ "ایسا کسی صنفی امتیاز کی وجہ سے نہیں بلکہ پچھلے پانچ سال میں کسی خاتون صحافی نے ممبرشپ کے لیے رابطہ ہی نہیں کیا۔"

انٹرنیشنل جرنلسٹس نیٹ ورک  تصدیق کرتا ہے کہ پاکستانی صحافت میں خواتین صرف پانچ فیصد ہیں۔

صحافی اور رکن پریس کلب نوید احسن بتاتے ہیں کہ میانوالی میں چند خواتین فری لانس صحافت کر رہی ہیں لیکن پریس کلب فری لانسرز کو ممبرشپ نہیں دیتا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں خاتون صحافیوں کے لیے ٹرانسپورٹ بھی اہم مسئلہ ہے یہی وجہ ہے کہ میانوالی میں خواتین ایونٹس رپورٹنگ نہیں کرتیں۔ 

میانوالی میں ویمن پروٹیکشن آفیسر سمیرا علوی کہتی ہیں کہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ خاتون صحافیوں کے تحفظ کا انتظام کرنے کے ساتھ ہراسمنٹ جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے ان کی تربیت کا بھی اہتمام کرے۔ 

انہوں نے تجویز دی کہ سندھ اور وفاق کی طرز پر پنجاب میں بھی صحافیوں کے تحفظ کا قانون منظور کیا جانا چاہیے۔ پنجاب جرنلسٹ پروٹیکشن اینڈ کوآرڈینیشن کمیٹی کو ضلعی سطح پر فعال کیا جائے تو اس سے بھی یہاں خواتین کو صحافت کرنے میں مدد ملے گی۔

تاریخ اشاعت 25 اپریل 2025

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ماہ پارہ ذوالقدر کا تعلق میانوالی سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں۔ ان کے پسندیدہ موضوعات میں ماحول، تعلیم، سماجی مسائل خصوصاً خواتین و بچوں کے مسائل شامل ہیں۔

thumb
سٹوری

میانوالی کی خواتین صحافی: 'شٹل کاک برقعے میں رپورٹنگ کے لیے نکلتی ہوں تو سرکاری اہلکار مجھے ان پڑھ سمجھتے ہیں یا پھر مشکوک'

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

دریائے سندھ کے قدرتی بہاؤ کے حق میں کراچی کے طلبا کا مارچ

thumb
سٹوری

کھیت مزدور عورتوں کے شب و روز: 'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا، اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'

arrow

مزید پڑھیں

عثمان سعید

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے خلاف دریا میں احتجاجی مشاعرہ

thumb
سٹوری

سندھ: سرکاری ورکنگ ویمن ہاسٹلز پر سرکاری اداروں کا قبضہ کون سی سرکار چھڑوائے گی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

عمر کوٹ میں قومی نشست پر ضمنی الیکشن سے متعلق پانچ اہم حقائق

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

خاموش واپسی یا زبردستی اخراج؟ افغان پناہ گزینوں کی حقیقی کہانیاں

سندھ: کینیڈا سے سائنس سمجھانے آیا محمد نواز سومرو

thumb
سٹوری

طویل لوڈ شیڈنگ سے دنیا کی چھٹی بڑی سولر مارکیٹ بننے کا سفر: کیا نئی پالیسی سے 'سولر سونامی' تھم جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

سجاگ رپورٹ
thumb
سٹوری

انصاف کی راہ میں گھات لگائے راہزن: اپنی جان لینے والے نیسلے ملازم کی کہانی

arrow

مزید پڑھیں

User Faceامین وارثی

سولر لگانے والے کیوں پریشان ہیں؟

دریاؤں کے لئے کچھ کرنے کے عالمی دن پر دریائے سندھ کو خراج تحسین

Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.