چالیس سالہ عالم خان میانوالی کے محلہ میانہ کے رہائشی ہیں۔ ان کے نو اور چھ سال کی عمر کے دو بچے سکول پڑھتے ہیں مگر مسلسل ایک ہفتے سے سکول نہیں جا رہے تھے کیونکہ دونوں کو پیٹ درد اور اسہال کی شکایت تھی۔
عالم خان کے علاقے میں سرکاری واٹر فلٹریشن پلانٹ دو ماہ سے بند پڑا ہے جس کی وجہ وہ گھر میں واٹر سپلائی سے آنے والا سرکاری پانی استعمال کر رہے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بچوں کو ہسپتال میں چیک کرایا، دوائی سے دونوں کو وقتی طور پر آرام آ گیا لیکن دوسرے دن پھر تکلیف شروع ہو گئی۔
"اگلے دن میں ہسپتال پہنچا تو محلے کے دیگر لوگ بھی بچوں کو چیک کرانے آئے ہوئے تھے۔ جس پر ہم نے محلے کے پانی کو چیک کرانے کا فیصلہ کیا اور سیمپلز لیبارٹری بھیج دیے۔
وہاں سے آنے والے نتائج پریشان کن تھے۔"
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میانوالی ڈیڑھ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا شہر ہے۔ محلہ میانہ، محلہ ہاشم شاہ، محلہ خنکی خیل، محلہ بلو خیل، محلہ زادے خیل، محلہ وتہ خیل، وانڈھی گھنڈ والی اور مجاہد ٹاؤن یہاں کی بڑی آبادیاں ہیں۔
عالم خان کا کہنا ہے کہ شہر کے مختلف محلوں میں 11 واٹر سپلائی سکیمیں کام کر رہی ہیں۔ سب کی پائپ لائنیں 30 سال پہلے بچھائی گئی تھیں جو اب بوسیدہ ہو چکی ہیں۔ اکثر محلوں میں پانی سے بد بو آتی ہے اور یہ استعمال کرنے کو دل نہیں کرتا۔
لیبارٹری رپورٹ کے مطابق شہر کے مختلف محلوں سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں کئی نمکیات کی مقدار مطلوبہ حد سے کم پائی گئی ہے۔ پانی کا ٹی ڈی ایس لیول ایک ہزار 80 تک پہنچ چکا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ 900 ملی گرام فی لیٹر قابل قبول ہوتا ہے۔
پانی کے نمونوں میں آرسینک کی مقدار 190 مائیکرو گرام فی لیٹر تک پائی گئی ہے۔ جبکہ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سنکھیا کی زیادہ سے زیادہ مقدار 10 مائیکرو گرام فی لٹر ہونی چاہیے۔ تاہم پاکستان میں یہ مقدار 50 مائیکروگرام تک قابل قبول سمجھی جاتی ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میانوالی کے سینئر ڈاکٹر امیر احمد خان بتاتے ہیں کہ پینے کے پانی میں نمکیات کی کمی یہاں بچوں کے بیمار ہونے کی شرح میں اضافے کا باعث ہے۔ رواں ماہ اب تک ہسپتال آنے والے مریضوں میں 50 فیصد بچے تھے۔ جن میں الٹی اور اسہال کی شکایت زیادی تھی جبکہ بڑوں میں ہیپاٹائٹس اے کے کیسز زیادہ آ رہے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میانوالی میں رواں سال نومبر میں ٹائیفائڈ، ہیضہ، پیچش، ہیپاٹائٹس اے اور جگر کے کینسر کے تین ہزار مریض داخل ہوئے ہیں۔ جن میں سے ایک ہزار 900 میانوالی شہر کے رہائشی تھے۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ان بیماریوں کی بڑی وجہ مضر صحت پانی کا استعمال ہوتا ہے۔
امریکی نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ(این آئی ایچ) نے 2017ء میں اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان میں صرف 20 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔ جبکہ ملک کی 80 فیصد آبادی غیر محفوظ پانی پینے پر مجبور ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے اعدادوشمار بھی این آئی ایچ کی تصدیق کرتے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر تقریباً 53 ہزار پاکستانی بچے ہر سال مضر صحت پانی اور خراب سینیٹیشن کے باعث ڈائریا سے مر جاتے ہیں۔
پاکستان کی کنزرویشن سٹریٹجی رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھا کہ ملک میں مضرصحت پانی سے جنم لینے والی بیماریوں ٹائیفائیڈ، آنتوں کے کیڑے، اسہال اور گیسٹرو وغیرہ کی شرح 40 فیصد ہے۔
انٹر نیشنل یونین آف کنزرویشن فار نیچر(آئی یو سی این) کے مطابق پاکستان میں بچوں کی لگ بھگ 60 فیصد اموات کی وجہ غیر محفوظ پانی سے جنم لینے والی بیماریاں ہوتی ہیں۔ یہ شرح ایشیا میں سب سے زیادہ بتائی گئی تھی۔
اسی صورت حال کے پیش نظر عالمی بینک کے ایگزیکٹو بورڈ نے پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی اور سیوریج کے معاملات بہتر کرنے کےلیے 44 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی منظوری بھی دی تھی۔ لیکن حالات میں کوئی بہتری دکھائی نہیں دیتی۔
محلہ وتہ خیل کی رہائشی چوبیس سالہ خدیجہ نجی سکول میں پڑھاتی ہیں۔ ان کے علاقے میں بھی فلٹریشن پلانٹ تین ماہ سے بند پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں استعمال کا پانی ہمسایوں کے گھروں سے بھر کر لانا پڑتا تھا جنہوں نے پمپ (سبمرسیبل) لگائے ہوئے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ پچھلے ماہ انہیں جسم میں مسلسل درد رہنے لگا اور رنگت پیلی ہونا شروع ہو گئی۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں چیک اپ کرایا تو ڈاکٹر نے ' یرقان' تشخیص کیا اور اس کی وجہ پینے کا آلودہ پانی بتائی ہے۔
محمد فہیم اقبال پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میانوالی میں ریسرچ آفیسر تعینات ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ شہر میں واٹر سپلائی کا بور چھ سے سات سو فٹ گہرا ہوتا ہے۔ یہاں سے صاف پانی آتا ہے مگر بوسیدہ پائپ لائنوں اور لیکج کے باعث ان میں سیوریج کا پانی شامل ہو جاتا ہے جس کو پینے سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ شہر میں لوگ سو فٹ بور پر پمپ لگوا لیتے ہیں جس سے پانی صاف نہیں آتا۔ سمبرسیبل پمپ کی گہرائی کم از کم دو سو فٹ ہونی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں
گھوٹکی میں کروڑوں کی لاگت سے لگائے گئے واٹر فلٹریشن پلانٹ 2 ماہ بھی نہ چل سکے
میونسپل آفیسر میانوالی (انفراسٹرکچر) وقار حیدر نے پانی میں آلودگی کی آمیزش سے انکار نہیں کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ شہر کے تمام محلوں کی بوسیدہ پائپ لائنوں کا سروےکرنے کے لیے ٹیم بنا دی گئی ہے۔ اس ٹیم کو کام فوری مکمل کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ رپورٹ آتے ہی سپلائی لائنیں تبدیل کر دی جائیں گی۔
ڈپٹی کمشنر میانوالی سجاد احمد خان نے لوک سُجاگ سے گفتگو کے دوران تصدیق کی کہ شہر کے مختلف محلوں میں نصب تمام 22 فلٹریشن پلانٹ خراب ہو چکے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے شہریوں کی شکایات پر ایکشن لیا جس پر اب 10 فلٹریشن پلانٹ ٹھیک کر دیئے گئے ہیں جبکہ 12 کی رپورٹ تیار کرکے متعلقہ محکمے کو بھیج دی گئی ہے۔ جیسے ہی فنڈ جاری ہوں گے تمام فلٹریشن پلانٹس کو چلا دیا جائے گا۔
"تب تک شہری ڈاکٹروں کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں تا کہ کوئی وبا پھیلنے کا خطرہ نہ ہو۔"
آبی ماہر محمد علی کہتے ہیں کہ پانی میں آرسينک ليول کا اضافہ نہایت پریشان کن ہے۔ اس کی ایک وجہ انسانی اور صنعتی فضلےکا دریاوں اور نہروں میں ڈالا جانا ہے۔
"پاکستان میں شمال سے جنوب کی طرف بہتا ہے اور ہمارے ملک میں تازہ پانی کو محفوظ کرنے کے موثر قوانین نہیں ہیں۔ دریاؤں میں آنے والی آلودگی پانی کے ساتھ زمین میں جذب ہوتی ہے اور پھر ہم یہی زیرِ زمین پانی استعمال کرتے ہیں"۔
تاریخ اشاعت 9 جنوری 2024