نئی حلقہ بندیوں سے پنجاب میں چھوٹی بڑی تبدیلیاں تو آئی ہی ہیں۔ کئی اضلاع کی نشستوں میں کمی یا اضافہ بھی ہوا۔ لودھراں ان اضلاع میں شامل ہے جہاں صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ یعنی پی پی 224 ختم ہو گیا ہے۔ جس کے اثرات متصل حلقوں پی پی 225 اور پی پی 228 پر نظر آ رہے ہیں۔
نئی حلقہ بندی کا فائدہ کون اٹھاتا ہے اس کا اندازہ تو مقامی سیاسی دھڑوں کی صف بندی کے بعد ہو گا۔ البتہ کچھ امیدواروں کے اعتراضات سامنے آنے پر ان کی پریشانی ضرور ظاہر ہو رہی ہے۔
تحریک اںصاف سے پہلے ضلع لودھراں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ روایتی حریف ہوا کرتی تھیں۔
کانجو، نون، حویلی نصیر خان کا بلوچ خاندان، جلہ ارائیں کا ارائیں خاندان، مرزا ناصر بیگ، نواب امان اللہ، حیات اللہ ترین، احمد خاں بلوچ اور گوگڑاں کا پیر خاندان یہاں کی سیاست کے اہم کھلاڑی تھے۔ جہانگیر خان ترین کی لودھراں کی سیاست میں انٹری کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی۔
استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن ان چیف، پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین اور کانجو گروپ (ن لیگ) طویل عرصے سے ایک دوسرے کے حریف چلے آ رہے ہیں۔
2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع لودھراں کی آبادی 16لاکھ 99 ہزار 693 نفوس پر مشتمل تھی تو 2018ء میں ہونے والی حلقہ بندیوں میں یہاں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے پانچ حلقے بنائے گئے تھے۔
صوبائی حلقوں میں پی پی 224 لودھراں ون، پی پی 225 لودھراں ٹو، پی پی 226 لودھراں تھری، پی پی 227 لودھراں فور، اور پی پی 228 لودھراں فائیو شامل تھے۔ہر صوبائی حلقے کی آبادی چار لاکھ سے کم تھی۔
ضلع لودھراں کی آبادی اب 19 لاکھ 26 ہزار 299 ہوگئی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں میں یہاں قومی اسمبلی کے دونوں حلقے این اے 154 اور این اے155 برقرار رکھے گئے ہیں اور ان کے نمبروں میں بھی تبدیلی نہیں آئی۔
ڈسٹرکٹ الیکشن افسر لودھراں عدنان ظفر بتاتے ہیں کہ پنجاب میں آبادی کے نئے اعداد و شمار کے تحت ایک صوبائی حلقہ چار لاکھ 29 ہزار 929 افراد پر مشتمل ہے۔ جس میں دس فیصد کم یا زیادہ کی گنجائش ہے۔ اس حساب سے ضلع لودھراں کے حصے میں چار صوبائی نشستیں آتی ہیں۔
یوں ضلع لودھراں میں چار صوبائی حلقے رہ گئے ہیں اور ہر حلقے کی آبادی ساڑھے چار لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ ختم ہونے والے حلقہ پی پی 224 کی آبادیاں متصل دو حلقوں کے ساتھ شامل کر دی گئی ہیں۔
حلقہ پی پی 224 لوددھراں 16 یونین کونسلوں پر مشتمل تھا۔ اس حلقے کی ساڑھے آٹھ یونین کونسلیں پی پی 228 میں شامل کر دی گئی ہیں۔اس طر ح اب اس (نئے) حلقے لودھراں فور میں دنیا پور تحصیل کے حلقہ دو/ایل، دنیا پور تحصیل کی قانون گوئی، 34 ایم کے پٹوار سرکلز چک نمبر ایک سے چار ایم پی آر اور کوٹلی واجبا شامل ہیں۔
ان کے علاوہ بھٹیجی قانونگوئی، لودھراں میونسپل کمیٹی، لودھراں قانونگوئی اور راجہ پور قانونگوئی کے پٹوار سرکلز لالا والہ، کنڈی، کالو والہ اور سمرا کو نکال کر لودھراں تحصیل کا باقی علاقہ بھی اب پی پی 228 شامل کر دیا گیا ہے۔
یعنی مخدوم عالی، جلہ ارائیں، سراج والا، روانی وغیرہ اب اسی حلقے میں شامل ہیں۔
اس طرح حلقہ پی پی 224 کی ساڑھے سات یونین کونسلیں حلقہ پی پی 225 لودھراں ون(کہروڑ پکا) کے ساتھ شامل کردی گئی ہیں۔
یوں حلقہ پی پی 225 اب دنیا پور کے حلقہ دو/ایل، قانون گوئی 34 ایم کے پٹوار سرکلز چک نمبر ایک سے چار ایم پی آر اور کوٹلی واجبا کے سوا پوری تحصیل دنیا پور، تحصیل کہروڑ پکا کی امیر پور سادات قانونگوئی کے پٹوار سرکلز چوکی رنگو خاں، محمد ساعی، چوکی مستی خاں، 21 ایم اور نور شاہ پٹوار سرکل پر مشتمل ہو گا۔
ختم ہونے والے حلقہ پی پی 224 میں 2018ء میں زوارحسین وڑائچ نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ن لیگ کے امیدوار عامر اقبال شاہ کو شکست دی تھی۔ زوار وڑائچ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی سے منحرف ہو گئے اور اپنی نشست کھو بیٹھے تھے۔
جب 2022 ء میں ضمنی الیکشن ہوا تو زوار وڑائچ مسلم لیگ ن اور عامر شاہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔ عامر اقبال شاہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پی پی 224 سے رکن اسمبلی منتخب ہو گئے تھے۔
اب نئی حلقہ بندی پر پی ٹی آئی کے سابق امیدوار عزت جاوید کی طرف سے اعترض جمع کرایا گیا ہے کہ پی پی 228 سے یونین کونسلز جلہ ارائیں، ملک پور اور کنڈی سمرا کو نکالا جائے۔ شاید اعتراض کی وجہ ان علاقوں میں بلوچ برادری اور ن لیگ کی زیادہ حمایت ہے۔
حلقہ پی پی 228 میں پی ٹی آئی کے عامر اقبال شاہ ،ن لیگ کے رفیع الدین شاہ اوراستحکام پاکستان پارٹی کے نذیر خان بلوچ متوقع امیدوار ہیں۔ تاہم عامر شاہ پی پی 224 کا کافی حصہ اس حلقے میں شامل ہونے پر مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔
ان کے علاوہ کہروڑ پکا تحصیل کے علاقے دکھانہ گارو قانونگوئی کے پٹوار سرکل چوکی سوبھا خاں اور رند جاڑا بھی پی پی 225 میں شامل ہیں۔ جبکہ حلقہ پی پی 225 سے کچھ علاقے نکال کر پی پی 226 میں بھی شامل کیے گئے ہیں۔ جس کا فائدہ راناسرفراز نون کو ہو سکتا ہے۔ تاہم حلقہ پی پی227 میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
حلقہ پی پی227 سے نواب امان خان 2018ء میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ بھی کانجو گروپ (ن لیگ)کے صدیق خان بلوچ سے ہار گئے تھے۔ تاہم یہ مقابلہ بازی پرانی چلی آرہی ہے۔ اب بھی اس حلقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
حلقہ پی پی225 میں شازیہ حیات ترین، میاں جہانگیر سلطان بھٹہ، زوارحسین وڑائچ، آفتاب خان بابر اور طاہر ملیزئی امیدوار ہو سکتے ہیں، اس حلقے سے اکرم کانجو بھی رکن اسمبلی رہ چکے ہیں۔ یہاں ن لیگ نے اگر زوار وڑائچ کو ٹکٹ دیا تو شاید جہانگیر سلطان بھٹہ پارٹی چھوڑ دیں۔
ضلع لودھراں میں قومی اسمبلی کے دوحلقوں میں این اے 154 پر ن لیگ کے عبدالرحمن کانجو اور پی ٹی آئی کے اخترخان کانجو میں مقابلہ ہوتا ہے اور دونوں ہی آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔
حلقہ این اے 155 پر ابھی تک جہانگیر ترین کے فرزند علی ترین اور مسلم لیگ ن سے صدیق خان بلوچ اور پی ٹی آئی سے شفیق ارائیں بطور امیدوار سامنے آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
نئی حلقہ بندی، ضلع بھکر میں ایک صوبائی نشست کا اضافہ کس سیاسی خاندان کو مضبوط کرے گا؟
حلقہ این اے 155 کے علاقے میں اگرچہ کوئی تبدیلی نہیں آئی تاہم اس حلقے پر جہانگیر ترین نے ایک دلچسپ اعتراض جمع کرایا ہے۔ جس میں درخوست کی گئی ہے کہ یونین کونسلز حویلی نصیر خان اور جنڈ کو اس حلقے سے نکال کر این اے 154 میں شامل کیا جائے۔ "اس طرح دونوں حلقوں میں توازن پیدا ہو گا"۔
این اے 155 میں جہانگیر ترین کے حریف صدیق خان بلوچ کا گھر حویلی نصیر خان میں ہے اور قریبی یونین کونسل جنڈ میں بھی انہیں واضح حمایت حاصل ہوتی ہے۔
اسی طرح یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ پی پی 227 کی یونین کونسل حویلی نصیر خان اور یونین کونسل جنڈ کو حلقہ پی پی 226 میں شامل کیا جائے۔
حلقہ پی پی 228 میں شامل ملتان روڈ کی مشرقی آبادیاں اور سابقہ پی پی 224 کی آٹھ یونین کونسلز پی پی 227 میں شامل کی جائیں۔ حلقہ پی پی 227 کی پانچ یونین کونسلز چھمب کلیار، آدم واھن، قریشی والا، لال کمال اور یونین کونسل خانقاہ گھلواں کو حلقہ پی پی 228 میں شامل کیا جائے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن ) الیکشن کمیشن کے فیصلے سے مطمئن ہے۔ ن لیگ کے ضلعی ترجمان عرفان اعوان بتاتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو حلقہ بندی پر کوئی اعتراض نہیں۔ تاہم زوار وڑائچ کی طرف سے ایک اعتراض جمع کرایا گیا ہے جو معمولی نوعیت کا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماء خواجہ احمد رضاصدیقی کہتے ہیں کہ ووٹ بینک پر نئی حلقہ بندیوں کا اثر تو پڑے گا۔ لیکن اگر الیکشن شفاف ہوئے تو پی ٹی آئی کئی حلقوں سے کامیاب ہو جائے گی۔
تاریخ اشاعت 7 نومبر 2023