موہن نامی گاؤں کے کم و بیش تمام مکانوں کی اندرونی دیواروں میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں۔ ان میں سے بعض اتنی بڑی ہیں کہ ان کے آرپار دیکھا جا سکتا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ دراڑیں اکتوبر 2017 کے بعد بنی ہیں۔
موہن ضلع چکوال کی تحصیل چواسیدن شاہ میں کوہِ نمک کے پہاڑی سلسلے کے اندر واقع ہے۔ یہاں رہنے والے لوگوں کی نظر میں اس مسئلے کی جڑ 14 کلومیٹر جنوب میں واقع غریب وال سیمنٹ فیکٹری ہے جو پچھلے کچھ سالوں سے ان کے گاؤں سے دو کلومیٹر دور واقع پہاڑ سے لائم سٹون نکال رہی ہے (تاکہ اسے سیمنٹ سازی میں خام مال کے طور پر استعمال کر سکے)۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ اس عمل کے دوران ڈائنامائٹ کے ذریعے چٹانوں کو توڑا جاتا ہے جس کی وجہ سے مقامی "مکان لرزتے رہتے ہیں اور ان میں رہنے والے بچے اور خواتین سہمے رہتے ہیں"۔
گاؤں والوں کو اس فیکٹری سے دوسری بڑی شکایت یہ ہے کہ اس نے لائم سٹون کی کان کنی کے لیے مقامی پہاڑ کے دامن میں واقع 25 ایکڑ اراضی پر مشتمل جنگل کا صفایا کر دیا ہے جس کے باعث انہیں گھروں میں جلانے کے لیے درکار لکڑی دستیاب نہیں رہی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کان کنی کے نتیجے میں گاؤں کے پہلو میں تین سو فٹ گہری کھائی بھی بن گئی ہے جس میں گر کر کم ازم کم 70 مویشی ہلاک ہو چکے ہیں جن کی مالیت لگ بھگ 25 لاکھ روپے تھی۔
ان میں 60 سالہ مقبول حسین اعوان کی تین بکریاں بھی شامل تھیں جو 20 نومبر 2020 کو کھائی میں جا پڑیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح انہیں اپنی مردہ بکریوں کو باہر نکالنے میں آدھا دن لگ گیا "کیونکہ کھائی میں اترنے کا کوئی راستہ موجود نہیں تھا"۔
ڈائنامائٹ کے ذریعے چٹانوں کو توڑا جاتا ہےجس کے باعث گھروں کی دیواریں بھی ٹوٹ رہی ہیں
موہن کے باسی ملک عظیم اعوان چند دوسرے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر 2017 سے مقامی مکانوں اور قدرتی ماحول کو پہنچنے والے نقصان کے خلاف مختلف طریقوں سے احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پہلا احتجاجی مظاہرہ اکتوبر 2017 میں کیا گیا جس میں انہوں نے گاؤں کے 35 باشندوں کے ساتھ مل کر بشارت نامی قریبی قصبے کی پولیس چوکی کے سامنے دھرنا دیا۔
اکتوبر اور نومبر 2021 میں ان لوگوں نے وزیرِاعظم پاکستان، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیرِاعلیٰ پنجاب اور چکوال کی ضلعی انتظامیہ کو متعدد درخواستیں بھی دیں۔ ان میں جنگل کی کٹائی، مکانوں کی ٹوٹ پھوٹ اور لائم سٹون کی کھدائی کے نتیجے میں بن جانے والی کھائی کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ ڈائنامائٹ سے کیے جانے والے دھماکوں کے نتیجے میں گاؤں کے زیرِ زمین پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی ہے۔ ملک عظیم اعوان کا کہنا ہے کہ "پہلے یہ پانی 70 فٹ سے 80 فٹ کی گہرائی پر مل جاتا تھا لیکن اب کم از کم تین سو فٹ گہری کھدائی کریں تو تب جا کر اس کے آثار نظر آتے ہیں"۔
ماحول دشمن صنعتی سرگرمیاں
غریب وال سیمنٹ فیکٹری شمالی پنجاب کے اضلاع چکوال اور جہلم کے سنگم پر واقع ہے۔ اس نے 1965 میں ایک نجی کاروباری ادارے کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا لیکن 1970 کی دہائی میں اسے حکومتی تحویل میں لے لیا گیا۔ بعد ازاں 1992 میں توصیف پراچہ اور عبدالرفیق خان نامی کاروباری افراد نے اسے حکومت سے خرید لیا۔ یہ فیکٹری سالانہ 21 لاکھ ٹن سیمنٹ پیدا کرتی ہے۔ اس کے سالانہ گوشواروں کے مطابق 2021 میں اس نے تین ارب 48 کروڑ 79 لاکھ 62 ہزار روپے منافع کمایا۔
موہن کے رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آمدن کا بڑا حصہ ان کے گاؤں میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کا نتیجہ ہے۔ اس کے باوجود، ان کے مطابق، یہ فیکٹری مقامی لوگوں کی فلاح و بہبود پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتی بلکہ الٹا ان کے لیے مالی اور ماحولیاتی نقصان کا سبب بن رہی ہے۔
تاہم فیکٹری کی انتظامیہ کے سربراہ محمد اشتیاق ان کی تمام شکایات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گاؤں کے "چند افراد اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے گزشتہ چند برس سے فیکٹری کی انتظامیہ پر الٹے سیدھے الزامات لگا رہے ہیں"۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کی فیکٹری نے "لائم سٹون کی کان کنی کے لیے 2013 سے حکومت کی ملکیتی زمین سرکاری قوانین کے مطابق اور محکمہ معدنیات اور محکمہ جنگلات کی اجازت سے لیز پر لے رکھی ہے"۔ ان کے بقول "اگر ہم کسی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے تو یہ محکمے اس لیز کو منسوخ کر دیتے"۔
چکوال میں تعینات محکمہ جنگلات کے ایک اہل کار لیز کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا محکمہ "کسی سیمنٹ فیکٹری کو لائم سٹون کی کان کنی کے لیے درکار جنگل کی زمین کا معائنہ کرتا ہے اور اس جائزے پر مبنی رپورٹ معدنیات کے محکمے کو بھجواتا ہے"۔ اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ہی "معدنیات اور جنگلات کے محکمے مل کر فیکٹری کے ساتھ لیز کا معاہدہ کرتے ہیں"۔
اس معاہدے کے تحت فیکٹری انتظامیہ محکمہ جنگلات کو 200 روپے فی ایکڑ سالانہ کرایہ ادا کرتی ہے جبکہ کھودی گئی زمین کو دوبارہ بھرنے کے لیے اسے محکمہ معدنیات کو سالانہ 21 ہزار آٹھ سو آٹھ روپے دینا ہوتے ہیں۔ اسی طرح لائم سٹون کی کان کنی کے حقوق فیکٹری کو دینے کے بدلے میں محکمہ معدنیات اس سے ہر ہزار کلوگرام سیمنٹ کی پیداوار پر 115 روپے رائیلٹی وصول کرتا ہے۔ اس حساب سے اس محکمے نے غریب وال سیمنٹ فیکٹری سے 2021 میں 24 کروڑ 15 لاکھ روپے وصول کیے۔
ان دونوں محکموں کے چکوال میں تعینات اہلکاروں کا کہنا ہے کہ جب تک سیمنٹ فیکٹریاں مندرجہ بالا رقوم ادا کرتی رہتی ہیں تب تک وہ کسی رکاوٹ کے بغیر لائم سٹون کی کان کنی کر سکتی ہیں۔
لیکن 2001 میں بنائی گئی قومی جنگلات پالیسی کے تحت جاری کردہ ہدایات کہتی ہیں کہ اگر جنگل کی زمین کسی صنعتی مقصد کے لیے درکار ہو تو اس مقصد کو پورا کرتے وقت جنگل کے پاس رہنے والی انسانی آبادی کو متاثر نہیں کیا جانا چاہیے۔ مزید برآں، اس پالیسی کے مطابق، مقامی لوگوں کی جنگل سے جڑی ہوئی معاشی اور گھریلو ضروریات پورا کرنے کے لیے انہیں متبادل ذرائع فراہم کرنا بھی محکمہ جنگلات کی ذمہ داری ہے۔
یہ بھی پڑھیں
مہمند کے پتھر پیسنے کے کارخانوں میں مہلک گرد کے شکار مزدور: کسی کو بہرِسماعت نہ وقت ہے نہ دماغ۔
ان ہدایات پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے جنگل کی زمین کا استعمال کرنے والی سیمنٹ فیکٹریوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ کاٹے گئے جنگل کے بدلے میں اتنا ہی بڑا جنگل کسی اور جگہ لگائیں۔ غریب وال سیمنٹ فیکٹری یہ نیا جنگل موہن سے سات کلومیٹر کے فاصلے پر پریرا نامی گاؤن کے پاس لگا رہی ہے۔
لیکن ملک عظیم اعوان کا کہنا ہے کہ اس سے موہن کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ کیونکہ، ان کے بقول، ایک طرف تو نیا جنگل ان کے گاؤں سے اتنا دور ہے کہ اس کے باشندے وہاں سے ایندھن کے لیے لکڑی حاصل نہیں کر سکیں گے اور دوسرا یہ کہ نئے جنگل کو اگنے اور بڑا ہونے میں 20 سال سے زیادہ عرصہ لگے گا جس کے دوران پرانے جنگل کی کٹائی کی وجہ سے ان کے گاؤں کا اتنا زیادہ ماحولیاتی نقصان ہو چکا ہو گا کہ اس کی تلافی کرنا ناممکن ہو گا۔
قدرتی ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنے والا بین الاقوامی غیر سرکاری ادارہ ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر ان کے خدشات کی تصدیق کرتا ہے۔ دسمبر 2004 میں جاری کی گئی اس کی ایک رپورٹ کا کہنا ہے کہ ضلع چکوال میں لگائی گئی سیمنٹ فیکٹریوں کو دیے گئے ماحولیاتی اجازت نامے "مشکوک، سطحی اور نا مکمل معلومات کی بنا پر جاری کیے گئے"۔ حالانکہ، اس رپورٹ کے مطابق، یہ بات واضح تھی کہ یہ فیکٹریاں اپنے ارد گرد کے قدرتی ماحول، جنگلات اور پانی کے ذخائر پر تباہ کن اثرات مرتب کریں گی۔
تاریخ اشاعت 12 فروری 2022