تھرپارکر میں فقیر پاربرھم کا سالانہ میلہ تحصیل ڈیپلو کے گاؤں ویڑھی جھپ میں لگتا ہے۔ پانچ دن جاری رہنے والے ہندو برادری کے اس میلے میں شرکت کے لیے یاتریوں کے قافلے مٹھی، اسلامکوٹ، ڈیپلو اور تھرپارکر کے کئی دیگر شہروں سے نکلتے ہیں۔ ہر قافلہ اپنا ایک علم اٹھائے ہوتا ہے جس پر ترشول کو مور کے پروں وغیرہ سے سجایا ہوا ہوتا ہے جسے چھڑی صاحب کہا جاتا ہے۔ قافلے میں شامل یاتری ناچتے گاتے میلوں کا سفر پیدل طے کر کے دیسی مہینے جیٹھ کی گیارہویں تاریخ کو میلے کے مقام پر پہنچتے ہیں۔
کئی دنوں کے اس سفر میں ان کے آرام اور کھانے پینے کا انتظام راستے میں آنے والے دیہات کے لوگ کرتے ہیں اور جب یہ قافلے آگے بڑھتے ہیں تو میزبان دیہات کے لوگ بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی اسلام کوٹ سے روانہ ہونے والے قافلے نے مٹھی کے قریبی دیہات ساتار میں قیام کیا۔ 30 سالہ لالو کولھی جو دیہاڑی پر مزدوری کرتے تھے، اسی گاؤں کے تھے اور ہر سال قافلے کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس سال بھی جب قافلہ سستانے کے بعد روانہ ہوا تو وہ اپنے گاؤں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ اس میں شامل ہو گئے۔
یہ 29 مئی کی رات تھی اور موسم غیر معمولی طور پر ابرآلود تھا۔ 9 بجے کے قریب گرج چمک کے ساتھ بارش شروع ہو گئی اور پھر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اچانک آسمانی بجلی کڑکی اور قافلے پر گر گئی۔
لالو کولھی سمیت چھ افراد موقعہ پر ہی اجل کا شکار ہو گئے اور نو زخمی ہوئے جنہیں فوری سول ہسپتال مٹھی میں پہنچا دیا گیا۔
تھر میں چار دیسی مہینوں جیٹھ، ہاڑ، ساون اور بھادوں کو برسات کا چوماسہ کہا جاتا ہے۔ یہ عام کیلنڈر میں وسط مئی سے وسط ستمبر کا دورانیہ بنتا ہے اور یہی وہ عرصہ ہے جب تھر کے لوگوں کی نظریں آسمان کی جانب ہوتی ہیں۔
علاقے میں کہاوت مشہور ہے کہ جیٹھ کی بارش اور پلیٹھی (پہلی اولاد) کا بیٹا بھاگوں والوں کو نصیب ہوتا ہے۔ جیٹھ میں بارش بہت ہی کم ہوتی ہے۔ لیکن موسمی اعتبار سے گذشتہ چند برسوں سے کچھ بھی معمول کے مطابق نہیں ہو رہا اور جیٹھ کی بارش لالو کولھی کے خاندان کے لیے تو ہرگز بھاگوان ثابت نہیں ہوئی۔
لالو اپنے والد کے ساتھ ہی ساتار گاؤں کے ایک کچے گھر میں رہتے تھے۔ ان کے 55 سالہ والد ولیو کولھی بھی اپنے بیٹے کی طرح دیہاڑی دار مزدور ہیں۔ اس عمر میں اب ان کے کندھوں پر لالو کی دو کمسن بیٹیوں اور پانچ سالہ بیٹے کی کفالت کا بوجھ بھی آن پڑا ہے۔
تھرپارکر میں آسمانی بجلی گرنے سے ہونے والے حادثات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔
آسماں ایک سلگتا ہوا صحرا ہے جہاں
مٹھی کے ایک قریبی گاؤں کے 70 سالہ بزرگ خان محمد اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ تھرپارکر میں بجلی گرنے کے واقعات اکا دکا ہی ہوا کرتے تھے اور "جان لیوا واقعات تو کبھی کبھار ہی سننے میں آتے تھے۔ مگر پانچ چھ سالوں سے ان میں کافی اضافہ ہو گیا ہے"۔
گذشتہ ماہ (جولائی) کی 9 تاریخ کو اسلام کوٹ کے قریبی گاؤں بھوتاڑو میں آسمانی بجلی گرنے سے 50 سالہ چیتن بھیل اور ان کی 45 سالہ بیوی ردھو بائی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ وہ اپنے جھونپڑے میں سو رہے تھے کہ ان پر بجلی آن گری۔ گاؤں والوں نے بجلی گرنے سے ہونے والا دھماکہ تو سنا مگر ڈر کے مارے کوئی بھی اپنے گھر سے نہیں نکلا۔ صبح کو دونوں میاں بیوی کی لاشیں ملیں۔
18 جولائی کو گاؤں پانھیاری میں 30 سالہ وڈکی جو اپنے کھیت میں کام کر رہی تھی آسمانی بجلی کا نشانہ بنی۔ 20 جولائی کو اسلام کوٹ میں بجلی گرنے سے 53 سالہ مزدور نارو بھیل جاں بحق ہوئے۔ 21 جولائی کو مٹھی کے قریب گاؤں مٹھڑیو میں اپنے گھر کے باہر بارش میں بھیگتے ہوئے 22 سالہ دلیپ مینگھواڑ پر بجلی گری اور وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس مہینے میں آسمانی بجلی گرنے سے مٹھی کے گاؤں ویجھیار میں سات اونٹ ، گاؤں کولھی ویری میں دو گائیں، ڈیپلو تحصیل کے گاؤں جھرمریو میں 30 بکریاں، مٹھی تحصیل کے گاؤں عالمسر میں 13 اور گاؤں ٹاھو میں آٹھ بکریاں مر گئیں۔
تھرپارکر کی اکثریتی آبادی کے گذر بسر کا اہم ترین ذریعہ مال مویشی ہیں اور میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں میں آسمانی بجلی گرنے سے تین ہزار مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ زیادہ ہلاکتیں ان مویشیوں کی ہوئیں جو بارش سے بچنے کے لئے درختوں کے نیچے جمع ہو گئے تھے۔
غازی بجیر معروف سندھی اخبار عوامی آواز کے تھرپارکر بیورو چیف ہیں اور گذشتہ پندرہ سال سے اس علاقے سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ اس مسئلے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جان لیوا حادثات کے حوالے سے 2019ء سب سے برا سال تھا جب ایک ہی دن (14 نومبر) بجلی گرنے کے 25 واقعات میں 30 ہلاکتیں ہوئیں تھیں، اس سال ہلاکتوں کی کل تعداد 40 تھی۔ ان کے جمع کردہ اعدادوشمار کے مطابق اگلے تین سالوں میں یہ تعداد بالترتیب 30، 20 اور 18 رہی اور رواں سال اب تک 12 ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار اس سے قدرے مختلف ہیں۔ تھرپارکر کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر 2 سنجے ترکیو کا کہنا ہے کہ 2020ء میں کل 22 لوگوں کی جان آسمانی بجلی کی وجہ سے گئی تھی جبکہ اگلے دو سالوں میں یہ تعداد 10 اور آٹھ تھی۔
14 نومبر 2019ء کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو سندھ حکومت نے 60 ہزار روپے فی کس امداد دی تھی۔ امسال مٹھی کے قریب آسمانی بجلی گرنے سے چھ نوجوانوں کی موت کے واقعہ کا بھی سندھ حکومت نے نوٹس لیا اور اقلیتی امور کے صوبائی وزیر گیانچند ایسرانی نے مٹھی پہنچ کر مرحومین کے ورثا کو ایک ایک لاکھ روپے کے چیک دیے۔ حکومت بڑے جان لیوا حادثات کے بعد ہی متحرک ہوتی ہے جبکہ اکا دکا واقعات نظرانداز کر دیئے جاتے ہیں۔
اضافے پر تحقیق کون کرے گا؟
غازی بجیر چاہتے ہیں کہ تھرپارکر میں ان واقعات میں اضافے کی وجوہات کی تحقیق کی جائے۔ "اس کی سخت ضرورت ہے۔ یہاں واقعات دوسرے علاقوں کی نسبت بہت زیادہ ہو رہے ہیں۔ حکومت اس پر اگر توجہ دے تو اس کی وجوہات سامنے آ سکتی ہیں"۔
ڈائریکٹر محکمہ موسمیات سندھ سردار سرفراز نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اب تک اس حوالے سے کوئی تحقیق نہیں ہوئی، اس لیے اضافے کی وجوہات کے بارے میں مستند طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ "پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ کتنا اضافہ ہوا ہے اور کس طرح ہوا ہے، اس پر ابھی تحقیقی کام ہونا باقی ہے"۔
پاکستان میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کو ریکارڈ کرنے کا بندوبست کسی محکمے کے پاس نہیں ہے۔
ڈاکٹر عمران شہزاد کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ موسمیات کے ہیڈ ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ واپڈا کے ہر گرڈ سٹیشن پر آسمانی بجلی سے بچاؤ کا ایک آلہ لگا ہوتا ہے جس میں ایک کاؤنٹر بھی شامل ہوتا ہے جو بجلی گرنے کے ہر واقع کو گنتا ہے "لیکن کیونکہ یہ آلہ اس واقعہ کا وقت ریکارڈ نہیں کرسکتا، اس لیے اس ڈیٹا کی مدد سے ہم نہیں بتا سکتے کہ کس عرصے میں کتنے واقعات ہوئے اور آیا ان میں اضافہ ہو رہا ہے یا نہیں۔ البتہ بین الاقومی سطح پر ایسی ٹیکنالوجی دستیاب ہے جس سے ہم معلومات کا یہ خلاء پر کر سکتے ہیں"۔
ڈاکٹر عمران نے ایسی ایک تحقیق کے حوالے سے بتایا کہ کراچی اور اسلام آباد میں گذشتہ 15 سالوں میں بجلی گرنے کے واقعات میں ڈھائی سو فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ماہرین اس اضافے کو بڑھتی ہوئی موسمی سختیوں کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں۔
آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کو ریکارڈ کرنا اور ان کے امکانات کی پیش گوئی کرنا دنیا بھر کے موسمیات کے اداروں کے لیے ایک معمول کا کام ہے۔ بھارت کا محکمہ موسمیات زمینی مراکز اور سیٹلائٹ کی مدد سے حاصل کردہ معلومات کو ملا کر نقشے پر ان واقعات کو ہمہ وقت ظاہر کرتا ہے۔
بھارت کے محکمہ موسمیات کی موبائل فون ایپ آسمانی بجلی گرنے کے امکانات کو بھی عام صارفین تک براہ راست ہمہ وقت پہنچاتی ہے۔
حادثات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
ڈائریکٹر محکمہ موسمیات سندھ سردار سرفراز نے لوک سجاگ کو بتایا: "عام طور پر تمام ہی موسمی انتہاؤں (شدید بارش، شدید طوفان) میں اضافہ ہو رہا ہے، آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی میں عالمی سطح پر اضافے نے زمین کا درجہ حرارت بڑھا دیا ہے اور اس عمل نے بہت سی موسمی تبدیلیوں کو جنم دیا ہے"۔
ڈاکٹر کلیم اللہ کامسیٹس یونیورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ موسمیات کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے موسمیاتی سائنس میں چین سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور پاکستان میں اس پیچیدہ سائنس کے معدود چند محققین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ گزشتہ برس مون سون ہواوں کا راستہ روایتی راستے سے مختلف ہو گیا تھا۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان بڑی بڑی تبدیلیوں کا موسمی انتہاؤں میں اضافے سے ربط ہے اور جب بارشوں اور طوفانوں میں اضافہ ہوتا ہے تو آسمانی بجلی زمین پر گرنے کے واقعات میں بھی لامحالہ اضافہ ہوتا ہے۔
تھرپارکر میں مختلف اداروں کے ساتھ ماحولیات پر کام کرنے والے دیال صحرائی وکیل ہیں۔ وہ تھر ٹیکنیکل فورم کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ "یہ گلوبل وارمنگ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ تو ضرور ہے لیکن گذشتہ چند سالوں میں تھر میں شروع ہونے والی اوپن پٹ کول مائننگ بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے"۔
ساؤتھ افریقہ کی یونیورسٹی آف وٹ واٹرزلینڈ میں قائم جوہانسبرگ لائٹننگ ریسرچ لیبارٹری دنیا بھر میں آسمانی بجلی پر تحقیق کا ایک بڑا ادارہ ہے۔ لوک سجاگ نے وجوہات جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا۔
ادارے کے پروفیسر چندیما گومز نے ای میل پر جواب دیتے ہوئے بتایا کہ "یہ بات دنیا کے مختلف حصوں میں مشاہدے میں آئی ہے کہ وسیع میدانی علاقوں میں جب انسانی سرگرمیاں بڑھتی ہیں تو آسمانی بجلی گرنے کے نتیجے میں ہونے والے حادثات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ تھر میں ان حادثات میں اضافے کی وجہ وہاں شروع ہونے والی کوئلے کی مائننگ ہو"۔
پروفیسر گومز نے واضح کیا کہ بجلی گرنے کے واقعات میں اضافے کے مائننگ جیسی سرگرمی سے براہِ راست تعلق کے بارے میں ابھی کوئی ٹھوس سائنسی تحقیق موجود نہیں ہے لیکن مائننگ میں کیونکہ انسان اور بڑی بڑی دھاتی مشینیں ان علاقوں میں گھومتی پھرتی ہیں جو روایتی طور پر غیر آباد رہے ہیں، اس لیئے وہاں جو بھی آسمانی بجلی گرتی ہے وہ (انسان اور مشینیں) اس کی زد میں آنا شروع ہو جاتے ہیں"۔
کیا اس آفت سے بچا جا سکتا ہے؟
مٹھی کے بزرگ خان محمد کا ماننا ہے کہ پہلے آمدورفت کے ذرائع کم ہوتے تھے تو لوگ باہر کم ہی نکلتے تھے مگر اب لوگ باہر بہت آتے جاتے ہیں۔ ان کا اندازہ ہے کہ ماضی کے نسبت اب بجلی گرنے کی حادثات میں چار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
موسمیاتی عفریت نے کیا کچھ توڑ ڈالا؟
خان محمد کہتے ہیں کہ پہلے لوگ بہت احتیاط کیا کرتے تھے۔ "بارشوں کے وقت دھات خاص طور پر پیتل کے برتنوں کو چھپایا جاتا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ان پر بجلی گر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہم گھروں کے اوپر اک درخت کی شاخ بھی لگا دیتے تھےکیونکہ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اس پر بجلی نہیں گرتی۔ ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ایسے ہی حادثات بڑھتے رہے تو ہمارے مویشی ختم ہو جائیں گے۔ ہمارا تو گزارہ ہی ان پر ہے"۔
دیال صحرائی کے خیال میں سائنٹیفک طریقے سے ایسا بندوبست کیا جا سکتا ہے جو اس آفت سے بچنے میں مددگار ثابت ہو۔ "ایک خاص راڈ پر مشتمل ایسا ایکوپمنٹ موبائل کمپنیوں کے ٹاور پر لگا ہوتا ہے جو آسمانی بجلی کے واقعہ کو حادثے میں تبدیل ہونے سے روک دیتا ہے۔ جہاں یہ لگا ہوتا ہے وہاں ایک ہزار فٹ تک آسمانی بجلی کوئی نقصان نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا ارتھ بجلی کو زمین میں ملا دیتا ہے اور کوئی نقصان نہیں ہوتا"۔
ڈاکٹر چندیما گومز کے خیال میں بھی ایسے کم خرچ اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو انفرادی اور کمیونٹی کی سطح پر آسمانی بجلی گرنے کے نتیجے میں ہونے والے حادثات کو کم کر سکتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 14 اگست 2023