پشاور میں رہنے والے سوچان سنگھ کے بڑے بھائی دیال سنگھ کو چند مہینے پہلے نامعلوم افراد نے ان کی دکان میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ سوچان سنگھ کو اس سانحے کے بعد بھائی کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے بھی بہت سے تکلیف دہ مراحل عبور کرنا پڑے کیونکہ پشاور میں کوئی شمشان گھاٹ نہیں ہے۔
انہیں اپنے بھائی کی میت اٹک لے جانا پڑی جس پر تقریباً ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے سوچان سنگھ کے لیے اس رقم کا انتظام کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم برادری کی مدد سے انہوں نے کسی نہ کسی طرح پیسے اکٹھے کیے اور بھائی کی آخری رسومات ادا کیں۔
خیبرپختونخواہ میں سکھ برادری کی بڑی تعداد قبائلی اضلاع میں مقیم تھی جس کے بہت سے لوگ وہاں بدامنی کے بعد پشاور منتقل ہو چکے ہیں۔
2008ء میں صوبائی حکومت نے پشاور میں ان لوگوں کے لیے شمشان گھاٹ بنانے کا اعلان کیا لیکن اس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
اس تاخیر کے خلاف سکھ برادری کے سماجی رہنما بابا جی گورپال سنگھ نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی جس پر تاحال فیصلہ نہیں آیا۔
بابا جی گورپال سنگھ کہتے ہیں کہ تقسیم برصغیر سے قبل پشاور میں تقریباً دس شمشان گھاٹ تھے لیکن آج ایک بھی نہیں ہے جبکہ یہاں سکھوں کی آبادی 10 ہزار سے زیادہ ہے اور نمایاں تعداد میں ہندو بھی رہتے ہیں۔
یہ تمام لوگ اپنے متوفین کی آخری رسومات پشاور سے کوئی 100کلومیٹر دور ضلع اٹک میں ادا کرتے ہیں۔ اٹک میں تقریباً دو سو سکھ خاندانوں نے اپنے مدد آپ کے تحت شمشان گھاٹ کے لیے دریا کنارے زمین خرید رکھی ہے جس کے اخراجات برادری سے سالانہ چندہ لے کر پورے کیے جاتے ہیں۔
بابا جی کا کہنا ہے کہ ہر خاندان کے لیے اپنے عزیزوں کا جسدخاکی اتنی دور لے جانا آسان نہیں ہوتا۔ پشاور سے اٹک تک گاڑیوں کے کرائے کی مد میں کم از کم 70ہزار تک خرچہ آتا ہے۔ اسی وجہ سے برادری کے بہت سے لوگ آخری رسومات میں شرکت سے محروم رہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا اگست 2020ء میں صوبائی حکومت نے پشاور سے متصل قبائلی ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں قائم ایک شمشان گھاٹ پر ضروری سہولیات کی فراہمی کے لیے جلد از جلد کام شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بات وعدے سے آگے نہ بڑھ سکی۔
اس بارے میں جب خیبر کی ضلعی انتظامیہ سے پوچھا گیا تو حکام نے بتایا کہ شمشان گھاٹ کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی گئی ہے تاہم انہوں ںے کسی منصوبے یا اس پر عملدرآمد کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
بابا جی کہتے ہیں کہ اگر باڑہ کے شمشان گھاٹ میں سہولیات میسر ہوں اور علاقے میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو تو پشاور مں سکھ برادری کے لوگوں کو وہاں اپنے متوفین کی آخری رسومات ادا کرنے اور مذہبی تقریبات کے انعقاد میں آسانی ہو گی۔
مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ہارون سرب دیال بتاتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی دوسری حکومت میں مذہبی اقلیتوں کی بہبود کے لیے پانچ ارب 20 کروڑ روپے رکھے گئے جن میں سے ایک ارب 13کروڑ شمشان گھاٹ اور مسیحی قبرستانوں کے لیے مختص کیے گئے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ شمشان گھاٹوں کی تعمیر کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی میں لوگوں کو سیاسی بنیادوں پر شامل کر لیا گیا تھا۔ انہوں نے جن جگہوں کی نشاندہی کی وہ اس مقصد کے لیے موزوں ہی نہیں تھیں۔
ہندو مذہبی عقیدے کے مطابق شمشان گھاٹ آبادی سے دور اور دریا کے کنارے ہونا چاہیے اور جب اس کے لیے کوئی جگہ مقرر کر دی جائے تو اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
اُنہوں نے بتایا کہ صوبے میں اس وقت نو شمشان گھاٹ ہیں جن میں صرف ایک ہی مذہبی اصولوں کے مطابق بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر شمشان گھاٹوں پر ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔ اسی لیے صوبے کی 90 فیصد ہندو آبادی اپنے عزیزوں کی میتوں کو جلانے کے بجائے دفنانے پر مجبور ہے۔
باڑہ
خیبر کی تحصیل باڑہ میں مزمل شاہ کا خاندان پچھلے بارہ سال سے مقامی شمشان گھاٹ کی عمارت میں رہ رہا ہے۔ بائیس کنال پر واقع یہ قلعہ نما شمشان گھاٹ کلنگہ نامی علاقے میں قائم ہے۔ اس علاقے سے سکھ برادری ہجرت کر چکی ہے جس نے جاتے ہوئے مزمل کے خاندان کو اس جگہ کی نگرانی سونپی تھی۔ تاہم یہاں بجلی سمیت بہت سی سہولیات نہیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کئی مرتبہ حکام نے اس جگہ کا دورہ کر کے یہاں بجلی پہنچانے، ٹیوب ویل نصب کرنے اور دو افراد کو اس جگہ کی دیکھ بھال کے لیے نوکری دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر تاحال عمل نہیں ہوا۔
اس بارے میں جب محکمہ اوقاف ومذہبی اُمور کے ڈپٹی سیکریٹری رضوانہ ڈار سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ محکمے کے پاس اس حوالے سے کوئی معلومات دستیاب نہیں اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں اقلیتی نمائندے نے اس حوالے سے ادارے کے ساتھ کوئی رابطہ کیا ہے۔
ضم شدہ اضلاع کی واحد اقلیتی نشست پر منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی ولسن وزیر باڑہ شمشان گھاٹ میں سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ بروقت پی سی ون تیار نہ کرسکی اور سالانہ ترقیاتی فنڈ منسوح کردیا گیا۔
سوات
ضلع سوات اور بونیر میں اقلیتی برادری کے لیے کام کرنے والے سماجی ورکر سردار ہومی سنگھ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں شمشان گھاٹ 2010ء کے سیلاب میں تباہ ہو گیا تھا جس کے بعد مسلمان آبادی کی مدد سے سوات مینگورہ بائی پاس پر نیا شمشان گھاٹ بنایا گیا۔ پچھلے سال اگست میں آنے والے سیلاب میں اسے بھی شدید نقصان پہنچا۔ سیلاب کے بعد حکومت نے 80 لاکھ روپے سے اس کی تعمیر نو شروع کرائی جو تاحال مکمل نہیں ہوئی۔
بونیر
ہومی سنگھ ںے بتایا کہ ضلع بونیر میں شمشان گھاٹ 1980ء میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن قریب ہی بائی پاس کی تعمیر کے دوران اس کا نصف حصہ سڑک کی نذر ہو چکا ہے۔ انتظامیہ نے ایک اور مقام پر نیا شمشان گھاٹ تعمیر کرنے کے لیے 50 لاکھ روپے مختص کیے ہیں تاہم ابھی تک اس پر کام شروع نہیں ہوا۔
تیراہ
ضلع خیبر کے سیاحتی مقام وادی تیراہ میں مقیم منجیت سنگھ نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے اس علاقے میں تقریباً 450 سکھ خاندان رہتے تھے جو بدامنی کی وجہ سے گھربار، زرعی زمینیں اور کاروبار چھوڑ کر پشاور، حسن ابدال اور ننکانہ صاحب منتقل ہوچکے ہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ یہاں پر شلوبر قمبر خیل میں ایک شمشان گھاٹ اور اقلیتوں کے لیے بچوں کا قبرستان ہے۔ اسی طرح ملک دین خیل میں تین شمشان گھاٹ اور بچوں کا ایک قبرستان ہے جو سکھ برادری کی ملکیت ہے اور یہاں تمام سہولیات بھی موجود ہیں۔
منجیت سنگھ کہتے ہیں کہ اس علاقے میں سکھ برادری کئی نسلوں سے آباد ہے اس لیے انہیں یہاں مثالی تحفظ حاصل ہے لیکن شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں کے گرد چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے ان جگہوں کو مویشیوں اور جانوروں سے نقصان ہوتا رہتا ہے۔
مردان
مردان میں ہندو برادری کے لیے تین کنال زمین پر ایک قدیم شمشان گھاٹ موجود ہے تاہم اس کے ارد گرد آبادی بہت بڑھ گئی ہے۔
مسلم اکثریتی علاقے کے بیچوں بیچ شمشان گھاٹ سے استفادہ کرنا سکھوں اور ہندوؤں کے لیے آسان نہیں کیونکہ اس سے مذہبی بنیاد پر کشیدگی کا خدشہ رہتا ہے۔
کوہاٹ/ہنگو
ضلع کوہاٹ میں ہندوؤں اور سکھوں کے لیے ایک شمشان گھاٹ موجود ہے جہاں 233 کلومیٹر دور ڈیرہ اسماعیل خان اور 140 کلومیٹر دور بنوں سے بھی اقلیتی برادری کے لوگ اپنے عزیزوں کی آخری رسومات ادا کرنے آتے ہیں کیونکہ ان کے اپنے اضلاع میں کوئی شمشان گھاٹ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں
قبائلی اضلاع کے مسیحی اپنے پیاروں کی تدفین کے لیے قبرستانوں کی تلاش میں سرگرداں
ہارون سرب دیال نے بتایا کہ یہ شمشان گھاٹ دریا کنارے نہیں ہے اس لیے لوگ یہاں اپنے رشتہ داروں کی میت کو جلانے کے بعد راکھ جمع کر کے اسے پنڈی روڈ پر خوشحال گڑھ کے قریب دریا میں بہا دیتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے انہیں طویل سفر کرنا پڑتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ خوشحال گڑھ ہی میں شمشان گھاٹ تعمیر کرایا جائے۔
قبائلی ضلع کرم سے نقل مکانی کرکے حسن ابدال میں مقیم ہندو برادری کے رہنما حکم داس کہتے ہیں کہ کرم میں ان کی برادری کے 650 خاندان 2006ء میں شیعہ سنی فسادات کے بعد سلامتی کے خطرے کے پیش نظر علاقہ چھوڑ کر کوہاٹ، پشاور اور حسن ابدال منتقل ہوگئے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ آبائی علاقوں میں ان کی چھوڑی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ ان میں کرم کے علاقے عمل کوٹ میں ہندو برداری کا قبرستان بھی شامل ہے جہاں پر وہ چھوٹے بچوں کی تدفین کرتے تھے۔ انہوں ںے انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کو مقامی لوگوں کی جانب سے اس پر قبضے کی کوششوں کے بارے میں اطلاع دی ہے لیکن اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
رضوانہ ڈار کہتی ہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت نے فروری 2019ء میں پشاور کی سکھ برادری کے لیے 90 لاکھ روپے کی لاگت سے شمشان گھاٹ کے لیے چار کنال زمین خریدنے کی منظوری دی جس کے لیے مناسب جگہ کی تلاش جاری ہے۔
چند ماہ قبل سکھ برادری کے مشورے سے ایک جگہ کا انتخاب کیا گیا لیکن اس کے قریب مقیم مسلمان آبادی کو اعتراض تھا جس کے باعث وہ فیصلہ منسوخ کرنا پڑا، تاہم ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ حکام کے تعاون سے یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں۔
تاریخ اشاعت 3 اگست 2023