پشاور کے علاقے رام داس سے تعلق رکھنے والے 52 سالہ عبدالرؤف چھ ماہ قبل ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کے طور پر محلہ (neighborhood) کونسل کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ اس انتخاب کے دوران انہوں نے ووٹروں سے بہت سے وعدے کیے لہٰذا اب ہر ووٹر ان سےکوئی نہ کوئی امید لگائے بیٹھا ہے۔ کسی کو اپنی گلی میں روشنی کا انتظام کرانا ہے، کوئی اپنے گھر کا راستہ پختہ کرانا چاہتا ہے اور کسی کو گندے پانی کی نکاسی کا مسئلہ حل کرانا ہے۔
عبدالرؤف فکر مند ہیں کہ وہ ان توقعات پر کیسے پورا اتریں گے کیونکہ، ان کے مطابق، لوگوں کے مطالبات بہت زیادہ ہیں لیکن خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے انہیں حل کرنے کے لیے نومنتخب مقامی حکومتوں کو نہ تو اختیارات دیے ہیں اور نہ ہی فنڈز۔ وہ زمین کی خریدوفروخت کا کام کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی آمدن سے ساڑھے تین لاکھ روپے خرچ کر کے اپنے محلے میں سٹریٹ لائٹس لگوا چکے ہیں تاکہ ووٹر ان سے مکمل طور پر مایوس نہ ہو جائیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وہ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے انہیں حل نہیں کر سکتے۔
وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بننے والی مقامی حکومت میں لیبر کونسلر رہ چکے ہیں اور 2015 میں یونین کونسل کے نائب ناظم کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ مقامی حکومتیں ماضی کی مقامی حکومتوں کی نسبت اس قدر بے اختیار ہیں کہ "اس بار تو ہم لوگوں کو تسلی دینے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے"۔
عبدالرؤف یہ شکایت کرنے والے واحد منتخب نمائندے نہیں بلکہ صوبے بھر میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے لوگ اسی طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ 20 لاکھ کے قریب آبادی کی نمائندہ سٹی کونسل پشاور کے کئی ارکان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جس میں انہیں کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔
حسرت ان غنچوں پہ ہے۔۔۔
خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کا قانون، خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ، پہلی بار 2013 میں منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت پہلے انتخابات 30 مئی 2015 کو ہوئے جن میں صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کو بھرپور کامیابی حاصل ہوئی۔
بعد میں یہ جماعت صوبے میں قائم ہونے والی مقامی حکومتوں کو اپنا ایک اہم کارنامہ قرار دیتی رہی اور 2018 کے عام انتخابات جیتننے کے بعد پورے ملک میں انہی کی طرح کے بلدیاتی ادارے قائم کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کرتی رہی۔ اس مقصد کے لیے چاروں صوبوں کے بلدیات کے محکموں کے وزرا اور سیکرٹریوں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی لیکن وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
ان مقامی حکومتوں کی مدت 28 اگست 2019 کو پوری ہوگئی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے خود ہی اس قانون میں 120 سے زیادہ ترامیم کر دیں۔ ترمیم شدہ قانون (خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019) کے تحت ضلع کونسلیں ختم کر دی گئیں اور تحصیل کونسلوں کے سربراہوں کے لئے براہ راست انتخابات کا طریقہ متعارف کرایا گیا۔ اسی طرح گاؤں (village) اور محلہ (neighborhood) کونسلوں کے سربراہوں کو براہ راست متعلقہ تحصیل کونسلوں کا رکن بھی بنا دیا گیا۔
لیکن اس قانون کے تحت مقامی حکومتوں کے انتخابات فوری طور پر منعقد نہ کیے جا سکے بلکہ ان کا انعقاد حال ہی میں دو مرحلوں میں ہوا ہے۔ پہلا مرحلہ 17 اضلاع میں19 دسمبر 2021 کو عمل میں آیا جس میں اپوزیشن جماعت، جمعیت علمائے اسلام (فضل)، نے سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ دوسرے مرحلے میں 31 مارچ 2022 کو 18 اضلاع میں انتخابات ہوئے جن میں پاکستان تحریک انصاف دوسری جماعتوں سے آگے رہی۔
تاہم صوبے کے سات بڑے شہروں کے میئروں کے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کو صرف تین (ایبٹ آباد، سوات اور ڈیرہ اسمعیل خان) میں کامیابی مل سکی۔ باقی چار شہروں میں سے تین (پشاور، بنوں اور کوہاٹ) میں جمیعت علمائے اسلام (فضل) کامیاب رہی جبکہ مردان میں عوامی نیشنل پارٹی کی جیت ہوئی۔
یہ انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ خیبرپختونخوا پر پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ اس کے مخالفین کے مطابق یہی وجہ ہے اس نے حال ہی میں خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 میں کئی ایسی تبدیلیاں کر دی ہیں جن کے ذریعے مقامی حکومتوں کے تمام اہم اختیارات کو عملاً سلب کر لیا گیا ہے۔
پشاور کے نومنتخب میئر حاجی زبیر علی کہتے ہیں کہ اگر پاکستان تحریک انصاف ماضی کی طرح یہ انتخابات بھی جیت جاتی تو مقامی حکومتوں کے نظام کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کرتی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "صوبے کے بڑے شہروں میں شکست کھانے کے بعد اس نے مقامی حکومتوں کے اختیارات صوبائی حکومت کے ماتحت کام کرنے والی افسر شاہی کے حوالے کردیے ہیں" تاکہ اس کی حریف جماعتیں اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے اپنے ووٹروں کے مسائل حل نہ کرا سکیں۔
اسلام آباد میں کام کرنے والے غیرسرکاری تحقیقی ادارے، سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹوز (سی پی ڈی آئی)، کے سربراہ مختار احمد علی بھی ان تبدیلیوں کی ذمہ داری بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو پہنچنے والے سیاسی دھچکوں پر ڈالتے ہیں۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں کہ "ایسی تبدیلیاں ایک افسوس ناک امر ہے جو پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لئے کی جانے والی کوششوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا"۔
انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے کچھ ہفتوں بعد، 3 جون 2022 کو ایک قانونی ترمیم کے ذریعے کی گئی ان تبدیلیوں کے چیدہ چیدہ نکات درجِ ذیل ہیں:
1: چیئرمین تحصیل کونسل کے اختیارات اور ذمہ داریوں کی تفصیل قانون سے حذف کر دی گئی ہے۔ اس کے بجائے اسے ان قواعد و ضوابط کا حصہ بنا دیا گیا ہے جو صوبائی حکومت نے نئے قانون کے نفاذ کے لیے بنائے ہیں۔
2: میئر اور سٹی گورنمنٹ کے اختیارات اور ذمہ داریوں کو بھی قانون سے نکال کر قواعد و ضوابط میں ڈال دیا گیا ہے۔ ایک اضافی ترمیم کے ذریعے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کی موجودگی کے باوجود صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل رہے گا کہ وہ کسی بھی مقامی حکومت کی حدود میں کوئی بھی ترقیاتی کام کر سکتی ہے۔
3: نجی رہائشی سکیموں کی منظوری کے اختیارات تحصیل کونسلوں سے لے لیے گئے ہیں۔
اس تبدیلیوں کے نفاذ کے لیے متعلقہ قواعدوضوابط 23 جون 2022 کو جاری کیے گئے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کو عملاً تحصیل کی سطح کے سرکاری افسروں کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ہر تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر کو وہاں پائے جانے والے مقامی حکومت کے تمام محکمے چلانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مقامی نمائندے ان محکموں کے اہل کاروں کو براہِ راست کوئی حکم نہیں دے سکتے بلکہ اس کے لیے انہیں اسسٹنٹ کمشنر کو کہنا پڑے گا۔
اسی طرح تمام شہری سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری تحصیل میونسپل آفیسر (ٹی ایم او) کو سونپ دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی نمائندے روزمرہ کے شہری مسائل کے حل کے لیے بھی اسی کے مرہون منت ہوں گے۔ مقامی حکومتوں کو ترقیاتی کاموں کے لیے دیے گئے پیسوں کے استعمال کا اختیار بھی ٹی ایم او کو دیا گیا ہے۔ وہ تحصیل ترقیاتی کمیٹی کی سربراہ بھی ہو گا اور ضرورت کے پیش نظر سکیل ایک سے 16 تک کی اسامیوں پر بھرتیاں بھی کر سکے گا۔
گاؤں اور محلے کی کونسلوں کے تمام امور کی انجام دہی کے اختیارات ان کے سیکرٹریوں کو سونپ دیے گئے ہیں (اگرچہ وہ چیئرمینوں کی منظوری کے بغیر کوئی انتظامی فیصلہ نہیں کر سکیں گے)۔ لیکن ان کونسلوں کو کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر رقم خرچ کرنے کے لیے اپنی تحصیل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بلدیات سے منظوری لینا ہو گی۔
'غیر قانونی عمل'
خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے نمائندوں کی تنظیم لوکل کونسل ایسوسی ایشن کے صدر اور مردان کے میئر حمایت اللہ مایار ان تمام تبدیلیوں کو غیرقانونی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے نفاذ کے لیے بنائے گئے قواعدوضوابط دراصل خیبرپختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کی منظوری کے فوراً بعد وضع کر دیے جانے چاہیے تھے۔ ان کے مطابق ان قواعدوضوابط کی تشکیل میں تین سال کی تاخیر کا مطلب ہے کہ صوبائی حکومت نے انہیں حالیہ انتخابی نتائج کو پیشِ نظر رکھ کر بنایا ہے جو کہ ایک "غیر قانونی عمل" ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پنجاب میں مقامی حکومتوں کی بحالی کا فیصلہ: بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔
انہوں نے قانون میں کی جانے والی تبدیلیوں اور قواعدوضوابط کی تشکیل کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کی ہے جس کی پہلی سماعت 7 جولائی 2022 کو ہوئی۔ عدالت کے دو رکنی بنچ کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں کے اختیارات قانون سے نکال کر قواعد وضوابط میں ڈالنا اور پھر ان قواعدوضوابط کے ذریعے میئر اور چیئرمین کے اختیارات لے کر افسر شاہی کو دینا آئین میں دیے گئے اس تصور کے منافی ہے جس کے تحت اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ایک ضروری آئینی تقاضہ ہے۔ ان کے بقول یہ عمل صوبائی حکومت کی "بدنیتی" کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم خیبر پختونخوا کے وزیر بلدیات فیصل امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے نہ تو قواعدوضوابط کے وضع کرنے میں کسی بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور نہ ہی وہ صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کے اختیارات میں کمی کرنا چاہتی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حالیہ قانونی ترامیم اور قواعدوضوابط کے تحت صوبائی حکومت کو کوئی نئے اختیارات نہیں دی گئے بلکہ اسے حاصل سابقہ اختیارات کا ہی اعادہ کیا گیا ہے۔
تاریخ اشاعت 13 جولائی 2022