نئی حلقہ بندیوں پر سیاسی کارکنوں میں جوش و خروش نظر آ رہا ہے۔ ضلع خوشاب میں ایک صوبائی نشست کے اضافہ اور حلقوں کی 'تشکیل نو' زیر بحث ہے۔ تحفظات سامنے آ رہے ہیں اور اعتراضات بھی جمع کرائے جا رہے ہیں۔
2018ء کے انتخابات میں ضلع خوشاب میں قومی اسمبلی کے دو اور صوبائی اسمبلی کے تین حلقے تھے۔ نئی حلقہ بندیوں میں دونوں قومی حلقے برقرار رکھنے کے ساتھ ان کے کچھ علاقوں میں ردو بدل کیا گیا ہے۔اب ان کے نمبر جو پہلے این اے 93 اور این اے 94 تھے اب این اے 87 اور این اے 88 ہو گئے ہیں۔
نئی حلقہ بندی میں یہاں صوبائی حلقوں کی تعداد چار کر دی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2002ء سے ضلع خوشاب میں چار صوبائی نشستیں چلی آرہی تھیں۔ مگر پچھلی الیکشن سے قبل اچانک ایک حلقہ کم کر دیا گیا تھا۔ اب دوبارہ چار حلقے کر دیے گئے ہیں۔
گزشتہ عام انتخابات میں خوشاب کے صوبائی حلقے پی پی 82 سے پی پی 84 تک تھے۔ اب ان میں پی پی 81 کا اضافہ ہو گیا ہے۔اور اس نئے حلقے کی تشکیل کے لیے پہلے والے تینوں حلقوں سے مختلف علاقے لیے گئے ہیں۔
پی پی 81 خوشاب ون میں وادی سون اور دیگر پہاڑی علاقے آتے ہیں۔ یہ حلقہ تحصیل نوشہرہ، کٹھہ سگھرال قانونگوئی حلقہ، کنڈ شمالی قانونگوئی حلقہ، خوشاب ون قانونگوئی حلقہ اور خوشاب ٹو قانونگو ئی پر مشتمل ہے۔
پی پی 82 خوشاب ٹو میں میونسپل کمیٹی خوشاب کےچارج 15 سے 17، میونسپل کمیٹی جوہرآباد کے چارج 13 اور 14، میونسپل کمیٹی ہڈالی چارج 10،میونسپل کمیٹی مٹھہ ٹوانہ چارج 11، جوہرآباد قانونگوئی کے کچھ علاقے اور مٹھہ ٹوانہ قانونگوئی کے پٹوار سرکل بوتالہ اور بجار جنوبی شامل ہیں۔
پی پی 83 خوشاب تھری، تھل کے علاقوں ٹاؤن کمیٹی گروٹ، گروٹ قانونگو ئی حلقہ، مٹھہ ٹوانہ قانونگو ئی کا پورا علاقہ ماسوائے پٹوار سرکل بوتالہ اور بجار جنوبی ، جوہرآباد قانونگوئی کے پٹوار سرکل چک 39 ایم بی، 45 ایم بی، چک 48 ایم بی، 50 ایم بی اور چک 51 ایم بی پر مشتمل ہے۔
اس کے علاوہ نور پور تھل تحصیل بھی پی پی 83 میں شامل کی گئی ہے۔ تاہم اس میں سے آدھی پور قانونگوئی اور رنگ پور قانونگوئی کے کچھ علاقے نکال دیے گئے ہیں۔
پی پی 84 خوشاب فور قائدآباد تحصیل، نور پور تھل تحصیل کی آدھی کوٹ قانونگوئی اور رنگپور کا قانونگوئی کے پٹوار سرکل رنگ پپ بغور، چک نمبر 41 بی ڈی اور 49 بی ڈی پر مشتمل ہو گا۔
اس ضلعے کی حلقہ بندی پر اب تک امید واروں اور شہریوں کی طرف سے اعتراضات پر مشتمل کل 16 درخواستیں جمع کرائی جا چکی ہیں۔ پی پی 84 خوشاب فور میں تحصیل نور پور تھل کے علاقوں کی شمولیت سب سے زیادہ متنازع بنی ہوئی ہے۔
زیادہ تر اعتراضات بھی نور پور تھل، رنگ پور تھل اور چکوک کے لوگوں کی طرف سے جمع کرائے گئے ہیں۔جو پی پی 83 میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔
اسی طرح سابق ایم پی اے کرم علی بندیال نے بھی اعتراض داخل کرایا ہے کہ نور پور تھل میں ان کی آبائی یونین کونسل آدھی کوٹ کو پی پی 83 نور پور تھل سے کاٹ کر پی پی 84 قائد آباد میں شامل کر دیا گیا ہے۔
پروفیسر مسرت عباس مقامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نئی حلقہ بندی سے 2018ء کی غلطیوں کو کسی حد تک سدھار لیا گیا ہے۔ پہلے حلقوں سے نہ صرف عوام بلکہ امیدواروں کو بھی کافی مسائل کا سامنا تھا۔
یہاں سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ نئی حلقہ بندی کا تحریک انصاف کے سابق ایم پی ایز حسن اسلم اعوان اور فتح خالق بندیال کا نقصان ہو سکتا ہے۔ حسن اسلم کا حلقہ پہلے پی پی 83 تھا جس میں تینوں میونسپل کمیٹیاں تھیں۔ اب وہ پی پی 81 سے انتخاب لڑیں گے جو تحصیل نوشہرہ، کٹھہ سگھرال، کنڈ شمالی وغیرہ پر مشتمل ہو گا۔
اسی طرح فتح خالق بندیال کا حلقہ پی پی 82 تھا جو قائدآباد کے ساتھ نوشہرہ تحصیل اور پہاڑی علاقے تک جاتا تھا۔ لیکن اب ان کے حلقہ پی پی 84 میں قائد آباد، آدھی کوٹ اور رنگپور تھل کے علاقے شامل ہے۔ یوں حسن اسلم اور فتح خالق دونوں اپنے ترقیاتی کاموں کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔
پی پی 83 میں سے نون لیگ کے ملک وارث کلو مرحوم اور ان کے بیٹے معظم شیر ایم پی اے بنے تھے۔اب علاقوں میں ردوبدل سے انہیں بھی کچھ حامیوں سے محروم ہونا پڑا ہے۔
جوہر آباد ڈسٹرکٹ بار کے رکن عطااللہ جسرہ بتاتے ہیں کہ ضلع خوشاب میں حلقہ بندیوں کو نون لیگ کے امیدواروں اور ان کے سپورٹرز نے چیلنج کر رکھا ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے ایسی کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔
حلقہ پی پی 84 سے امیدوار اور تحریک انصاف کے رہنما امجد رضا گجر نئی حلقہ بندیوں سے مطمئن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حلقہ بندیوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔علاقوں میں رد و بدل کا مطالبہ صرف نون لیگ والے ہی کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ نون کےضلعی سینئر نائب صدر ملک اصف نواز بتاتے ہیں کہ جتنے اعتراضات دائر کیے جا رہے ہیں ان میں کسی زیادتی یا سیاسی مداخلت کی شکایت نہیں کی گئی۔ بیشتر اعتراضات شہریوں کی اپنے نمائندے تک آسانی رسائی کے لیے جمع کرائے گئے ہیں۔
خوشاب کے قومی حلقوں کی بھی 'تشکیل نو' کر دی گئی ہے۔حلقہ این اے 87 اب وادی سون سے دامن پہاڑ تک جاتا ہے جس میں تحصیل نوشہرہ،کٹھہ سگھرال قانون گو حلقہ، کنڈ جنوبی قانونگو ئی میونسپل کمیٹی خوشاب، میونسپل کمیٹی جوہرآباد، میونسپل کمیٹی ہڈالی،میونسپل کمیٹی مٹھہ ٹوانہ وغیرہ شامل ہیں۔
اسی طرح این اے 88 میں تحصیل نور پور تھل ، تحصیل قائدآباد ، تحصیل خوشاب کی گروٹ قانونگوئی۔ جوہرآباد قانونگوئی حلقہ کے پٹوار سرکل 39 ایم بی، 45 ایم بی، 45 ایم بی، 50 ایم بی، 51 ایم بی اور ٹاؤن کمیٹی گروٹ شامل کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
پشاور میں ایک صوبائی نشست کم ہونے سے حلقوں میں تبدیلیاں، کس کا حلقہ ختم ہو گیا؟
یہاں قومی اسمبلی کی نشستوں کے حوالے سے ملک طاہر سرفراز، ملک ظفر اور ملک خان طارق محمد نے اعتراضات داخل کرائے ہیں۔ جنہوں نے این اے 87 اور این اے 88 کے کچھ علاقوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
این اے 87 سے قومی اسمبلی کے امیدوار اور پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر محمد علی ساول بتاتے ہیں کہ اگرچہ کچھ علاقوں کے متعلق تحفظات موجود ہیں۔ پہاڑی بیلٹ سے اعوان قبیلے کے علاقں چُوھا، ڈھوکڑی، گولے والی اور وڑچھہ کو حلقہ این اے 87 کے بجائے حلقہ این اے 88 میں شامل کیا گیا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ حلقہ بندی میں کوئی مداخلت نظر نہیں آئی ۔جن افراد نے حلقہ بندیوں کو چیلنج کیا ہے انہوں نے بھی کلچرل یا ٹرائبل تقسیم کو درست کرنے کی ڈیمانڈ کی ہے۔
صحافی نعمت اللہ مسعود کی رائے مختلف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ سیاست دانوں نے پچھلے پانچ سال اپنے اپنے حلقہ میں محنت کی ہے۔
" سارے حلقوں میں توڑ پھوڑ سے سیاسی کارکنوں کی محنت ضائع ہو گئی ہے اور اب انہیں نئےعلاقوں میں نئے سرے سے اپنا ووٹ بینک بنانا ہو گا۔"
تاریخ اشاعت 11 نومبر 2023