بلھے شاہ اور نورجہاں کا شہر قصور نصف صدی سے ماحولیاتی آلودگی کے خوفناک اثرات سے لڑ رہا ہے۔ یہاں زیرزمین پانی کے استعمال سے شہر اور نواحی علاقوں میں لوگوں کی بڑی تعداد کینسر، معدے کی بیماریوں اور ہڈیوں یا دانتوں کے ٹیڑھے پن کا شکار ہے۔
سرکاری محکمے اور غیر کاری ادارے اس صورت حال کا ذمہ دار یہاں چمڑے کی صنعت (ٹینریز) سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کو سمجھتے ہیں اور اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن آج تک اس کا خاطر خواہ حل نکانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
قصور میں ٹینریز قیام پاکستان سے کام کر رہی ہیں۔ منافع بخش کاروبار ہونے کے باعث یہ صنعت فروغ پاتی رہی۔ اب شہر کے علاقوں دین گڑھ، نیاز نگر اور اقبال نگر میں ان کی تعداد 230 ہو چکی ہے۔
چمڑے کی صفائی میں استعمال ہونے والے کیمیکلز، ٹینری مالکان کی اجارہ داری اور انتظامیہ کا غیر سنجیدگی کے باعث سے شہر آلودہ ہوتا چلا گیا۔ تعفن اور بد بو سے لوگوں کی زند گی اجیرن ہو گئی۔ جب زیرزمین پانی بھی پینے کے قابل نہ رہا تو شہریوں نے احتجاج شروع کر دیا تھا۔
عالمی ادارے آگے بڑھے، 1996ء میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے مشترکہ طور پر 'قصور ٹینریز پلوشن کنٹرول پراجیکٹ 'شروع کیا۔ اس منصوبے کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی نے 25 لاکھ ڈالر دیئے اور 19 کروڑ 90 لاکھ روپے کی مقامی سرمایہ کاری شامل تھی۔
منصوبے کے تحت دیپالپور روڈ پر ایک بڑا واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا گیا جس کا مقصد ٹینریز سے نکلنے والے آلودہ پانی کو صاف کرنا تھا۔ اس میں سے چمڑے کی باقیات، چربی اور بالوں کے علاوہ کرومیم اور کچھ دیگر زیریلے مادے بھی نکالے جاتے تھے۔
اس پراجیکٹ (بشمول ٹریٹمنٹ پلانٹ) کو چلانے کے لیے ایک خود مختار ادارہ قصور ٹینریز ویسٹ مینجمینٹ اتھارٹی (کے ٹی ڈبلیو ایم اے ) تشکیل دیا گیا تھا جس کا سربراہ (منیجنگ ڈائریکٹر) ڈپٹی کمشنر کو بنایا گیا۔ اس کے ارکان میں کچھ سرکاری افسران اور ٹینریز کا ایک نمائندہ شامل تھے۔
ابتدائی چند برسوں میں تو اس ادارے نے خوب کام کیا لیکن پھر منصوبہ عدم توجہ کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس دوران ٹینریز کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ ایک بار پھر آلودہ پانی صاف کیے بغیر دریائے ستلج میں پھینکا جانے لگا۔
قصور ٹینریز ویسٹ منیجمنٹ اتھارٹی (کے ٹی ڈبلیو ایم اے)کےجنرل منیجر غادف متین بتاتے ہیں کہ ٹینریز سے ٹریٹمنٹ پلانٹ تک آلودہ پانی 3.8 کلومیٹر طویل پختہ نالے کے ذریعے آتا ہے۔
"پلانٹ سے پانی آٹھ کلومیٹر طویل گرین چینل سے ہوتا ہوا کچے نالے(روہی نالہ) میں گرتا ہے۔ جہاں سے اسے پانچ کلو میٹر دور دریائےستلج میں پھینک دیا جاتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کی ٹینریز سے پانی کا اوسط ڈسچارج آٹھ ہزار کیوبک میٹر یومیہ ہے۔ بقر عید کے بعد یہاں سرگرمی عروج پر ہوتی ہے تو ڈسچارج 19ہزار کیوبک میٹر تک پہنچ جاتا ہے۔
"اس کا اندازہ ہم ٹینریز میں نصب واٹر میٹرز کی ریڈنگ سے لگاتے ہیں۔ شہر کے سوریج کا پانی بھی اسی میں شامل ہوجاتا ہے۔ جس سے تمام تخمینے غلط ہو جاتے ہیں۔ پلانٹ میں 'ان فلو' کی پیمائش کا انتظام تکنیکی طور پر ممکن نہیں ہے۔"
قصور ٹینری پالیوشن کنٹرول پراجیکٹ کے مطابق ٹریٹمننٹ پلانٹ کی صلاحیت 13 ہزار کیوبک میٹر روزانہ (24 گھنٹے چلنے کی صورت میں) ہے۔
جی ایم اعتراف کرتے ہیں کہ محدود بجٹ کے باعث پلانٹ کو صرف آٹھ گھنٹے چلایا جاتا ہے اور پانی کا بڑا حصہ صاف کیے بغیر ستلج میں پھینکنا پڑتا ہے۔ اگر سیوریج کی ڈرین الگ ہو تو صورت حال کچھ بہتر ہو سکتی ہے۔
ڈسٹرکٹ افسر فشریز معیز احمد تصدیق کرتے ہیں کہ ٹینریز کا آلودہ پانی ضلع اوکاڑہ تک آبی حیات کو بُری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ دریا میں پانی کا بہاؤ کم ہوتے ہی آلودگی سے جانور، پرندے، درخت اور آبی حیات تیزی سے ہلاک ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
2010ء میں ضلعی انتظامیہ نے اقبال نگر کے نام سے ٹینریز کا نیا کلسٹر بنایا۔ مالکان کو پابند کیا کہ وہ اپنی ہر ٹینری میں کروم ریکوری پلانٹ لگائیں گے۔ دین گڑھ اور نیاز نگر کی طرح یہاں بھی کسی نے کوئی پلانٹ نہیں لگایا۔
غیر سرکاری تنظیم 'گڈ تھنکر' کے چیف محمد اویس بتاتے ہیں کہ ٹینریز میں پلانٹس نہ ہونے سے آلودہ پانی کچے نالے میں پھینک دیا جاتا ہے یا پھر بور کرکے زیر زمین پانی میں ملا دیا جاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اقبال نگر کے اردگرد دیہات میں لوگ ہڈیوں اور دانتوں کے ٹیڑھے پن کی شکایت کرتے ہیں مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔ بیماریاں بڑھ رہی ہیں اور غربت کے باوجود لوگ پینے کا پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔
کے ٹی ڈبلیو ایم اے کے جنرل منیجر نے صوبائی سیکرٹری انڈسٹریز کو چھ اکتوبر 2022ء کو مراسلے میں آگاہ کیا کہ محکمہ صحت کے سروے کے مطابق صرف دو دیہات بنگلہ کمبواں اور دولے والا میں کینسر کے دو ، معدے کے 99، جلد کی بیماری کے 116 جبکہ ہیپاٹائٹس کے 50 مریض پائے گئے ہیں۔
جی ایم تسلیم کرتے ہیں کہ ٹینریز کی وجہ سے درجنوں دیہات خاص طور پر بنگلہ کمبواں، حسین خان والہ، بہادرپورہ، شیخ عماد، دولےوالا، ٹولووالا، فقیریےوالا، کوٹلہ شیخ نتھا، چوڑ پورا، شمس پورہ، منگل منڈی، نوری والا اور بھیڈیاں عثمانوالہ کی حالت زیادہ خراب ہے۔
چیف ایگزیکٹو ہیلتھ اتھارٹی قصور ڈاکٹر محمد طلحہٰ بتاتے ہیں کہ بھاری دھاتوں (ٹی ڈی ایس کی زیادہ مقدار ) والا پانی پینا جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔اس سے کینسر، جگر اور گردے کی دائمی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر کرومیم معدے کی نالی کے علاوہ چھوٹی آنت کو زیادہ متاثر کرتی ہے جو کینسر تصور کیا ہے۔
پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن نے 2022ء کے ایکسپورٹ سٹریٹجی پیپر میں دعویٰ کیا تھا کہ لیدر انڈسٹری نے جولائی 2021ء سے جون 2022ء تک کے مالی سال میں 95کروڑ 37 لاکھ ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کی ہیں جس میں قصور کی ٹینریز کا بھی بڑا حصہ ہے۔
2013ء میں پنجاب حکومت اور کے ٹی ڈبلیو ایم اے نے یو این ڈی پی سے مل کر پلوشن کنٹرول پراجیکٹ کا فیز ٹو شروع کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ جس کے تحت موجودہ پلانٹ سے صاف ہونے والے پانی کا بائیولوجیکل ٹریٹمنٹ کیا جانا تھا مگر اس میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔
محکمہ ماحولیات نے دسمبر 2022ء میں زیر زمین پانی کا تجزیہ کرایا تھا۔ جس میں کرومیم، نائٹریٹس اور میٹلز (ٹی ڈی ایس)کی مقدار خطرناک حد تک زیادہ پائی گئی تھی۔
اس رپورٹ کی بنیاد پر لاہور ہائیکورٹ نے قصور کے ٹینری مالکان کو تمام یونٹس میں ایفولینٹ ٹریٹمنٹ /کروم ریکوری پلانٹس لگوانے کی ہدایت کی تھی مگر صرف دو کارخانوں نے ہی یہ پلانٹ لگائے۔
جوڈیشل واٹر اینڈ انوائرمنٹ کمیشن نے ٹینریز میں کروم ریکوری پلانٹ لگوانے کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کیا تو ضلعی انتظامیہ اور ٹینری مالکان کے درمیان پانچ ستمبر کو ہونے والی میٹنگ میں کروم ریکوری پلانٹس لگانے پر اتفاق ہوا جبکہ پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن نے پلانٹس کے لیے ٹینریز کو آسان قرضے دینے پر رضا مندی ظاہر کی۔
یہ بھی پڑھیں
قصور میں صنعتی فضلہ صاف کرنے کا پلانٹ: سرطان جیسی بیماریوں اور آبی آلودگی کا بڑا ذریعہ۔
آلودگی کیس کی اگلی سماعت کے دوران کمشنر لاہور ڈویژن نے لاہور ہائیکورٹ میں پیشکش کی کہ کے ٹی ایم ڈبلیو اے کے تمام امور ٹینری مالکان کے سپرد کرنے کو تیار ہیں۔ جس پر عدالت نے تین ماہ (قابل توسیع) کے لیے احکامات جاری کر دیے۔
اب کے ٹی ڈبلیو ایم اے کو بہتری کی امید پر ٹینری مالکان کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ کے ٹی ڈبلیو ایم اے، ٹینری مالکان اور ضلعی انتظامیہ نے ڈیڑھ ماہ قبل دس نومبر کو ایک سمجھوتے پر دستخط کیے۔ جس کے مطابق:
آلودہ پانی دریا میں پھینکنے سے قبل اسے پنجاب انوائرمنٹ کوالٹی سٹینڈرڈ کے مطابق صاف کیا جائے گا۔ تین ماہ کے اندر ہر ٹینری میں کروم ریکوری پلانٹ لگائے جائیں گے ۔
ٹریٹمنٹ پلانٹ 24 گھنٹے چلایا جائے گا۔ ضلعی انتظامیہ تمام معاملات کی مکمل نگرانی کرے گی اور رپورٹ ہر ہفتے ہائیکورٹ ، کمشنر لاہور، ماحولیاتی ادارے اور جوڈیشل کمیشن کو ارسال کی جائے گی۔
اب صدر ٹینریز ایسوسی ایشن دین گڑھ ( ٹی اےڈی ) کے ٹی ڈبلیو ایم اے کے نئے سربراہ (منیجنگ ڈائریکٹر) ہیں۔
جنرل منیجر کے ٹی ڈبلیو ایم اے، ٹی اےڈی کے دو ارکان ، سمال ٹینریز ایسوسی ایشن کا نمائندہ، ڈائریکٹر ماحولیات اور ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس افسر(بطور ڈائریکٹر فنانس) اتھارٹی کے رکن ہیں۔
ٹی اے ڈی کے صدر میاں شان الہٰی دعویٰ کرتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کو چلانے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ وہ تقریباً 10 سال سے بند پلانٹ کو بحال کر کے جلد چلانے جا رہے ہیں۔
ٹینریز مالکان، کے ٹی ڈبلیو ایم اے کے لگ بھگ دو کروڑ روپے کے ڈیفالٹر ہیں۔ اس سلسلے میں شان الہٰی کہتے ہیں کہ پہلے کے ٹی ڈبلیو ایم اے کا انتظامیہ سے چارج لینا ضروری تھا۔ اب نادہندہ ٹینری مالکان سے بھی واجبات اقساط میں وصول کر لیے جائیں گے۔
لیکن یہاں کی سول سوسائٹی، وکلاء اور تاجر اس معاہدے سے پر امید نہیں ہیں۔
ملک شاہنواز ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ٹینری مالکان کو کے ٹی ڈبلیو ایم اے کا مختار کل بنانا ایسے ہی ہے 'جیسے قاتل کو اپنے مقدمے کا منصب بنا دیا جائے۔'
این جی او گڈتھنکر کے سی ای او وقاص کے خیال میں یہ ممکن نہیں کہ ٹینری مالکان واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے اخراجات برداشت کریں اور اسے مؤثر انداز میں چلائیں۔
"یہ توقع کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہوگا۔"
تاہم ڈپٹی کمشنر محمد ارشد بھٹی کہتے ہیں کہ انتظامیہ اپنی ذمہ داری پوری کرے گی۔ ٹینری مالکان کے واجبات کو بعد میں دیکھ لیں گے " فی الحال ہمیں اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔"
ٹینری مالک محمد یوسف ثقلین کہتے ہیں کہ آلودہ پانی کے مسائل کی سنگینی سے واقف ہیں۔
"ہم ایفولینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس لگانے کی حمایت کرتے ہیں اور پہلے ہی کے ٹی ڈبلیو ایم اے کے تمام اخراجات (تقریباً 50 لاکھ روپے ماہانہ )برداشت کر رہے ہیں۔"
تاریخ اشاعت 8 جنوری 2024