ندی کے حال کو اب دیکھ کر افسوس ہوتا ہے: 'صنعتی فضلے، گندے پانی اور کوڑاکرکٹ کی آمیزش سے مردان کی کلپانی ندی کا پانی شدید آلودہ ہو گیا ہے'۔

postImg

عبدالستار

postImg

ندی کے حال کو اب دیکھ کر افسوس ہوتا ہے: 'صنعتی فضلے، گندے پانی اور کوڑاکرکٹ کی آمیزش سے مردان کی کلپانی ندی کا پانی شدید آلودہ ہو گیا ہے'۔

عبدالستار

کلپانی ندی ایک گندے نالے کا روپ دھار چکی ہے۔ 

وسطی خیبرپختونخوا کے شہر مردان کے بیچوں بیچ گزرنے والی یہ ندی چار دہائیاں پہلے اتنی صاف شفاف ہوتی تھی کہ، 87 سالہ مقامی باشندے نورالاسلام کے مطابق، لوگ اس کا پانی نہ صرف پینے کے لیے استعمال کرتے تھے بلکہ مقامی خواتین اس میں کپڑے بھی دھوتی تھیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "قیام پاکستان سے پہلے مقامی ہندو برادری بھی پوجا پاٹ کرنے سے پہلے اسی میں اشنان کیا کرتی تھی"۔ 

لیکن وہ کہتے ہیں کہ 1980 کی دہائی سے شہر کا استعمال شدہ گندا پانی اور کوڑاکرکٹ مسلسل اس ندی میں پھینکے جا رہے ہیں جس سے رفتہ رفتہ اس کا پانی شدید آلودہ ہو گیا ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ "اس کا پانی پینا تو درکنار اس سے اٹھنے والے تعفن کے باعث اس کے قریب سے گزرنا بھی مشکل ہے"۔ 
کلپانی ندی کی آلودگی نے اس کے ارد گرد موجود زیرزمین پانی کو بھی خراب کر دیا ہے جس کے باعث اس کے کناروں پر آباد لوگوں میں یرقان اور پیٹ کی بیماریاں عام ہو گئی ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال مردان سے وابستہ لیبارٹری سے جمع کیے گئے اعدادوشمار اس آبی آلودگی کی نشان دہی کرتے ہوئے انکشاف کرتے ہیں کہ اِس سرکاری طبی مرکز میں اس سال فروری سے جولائی تک پیٹ کے امراض میں مبتلا جن دو ہزار دو سو لوگوں کا علاج کیا گیا ان کی اکثریت مردان خاص، گجر گڑھی اور جھنڈی نامی ایسے علاقوں سے تعلق رکھتی تھی جو اس ندی کے کنارے آباد ہیں۔ ان اعدادوشمار سے یہ پتہ بھی چلتا ہے کہ گزشتہ چار مہینوں میں اس ہسپتال میں لائے جانے والے یرقان کے دو ہزار 95 مریضوں میں سے بیشتر بھی انہی آبادیوں کے رہنے والے تھے۔ 

اسی ہسپتال میں ماہر امراض اطفال کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر محمد عقیق بھی کہتے ہیں کہ ان کے پاس "علاج کے لیے لائے جانے والے اکثر بچے معدے کی ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں جو عموماً آلودہ پانی پینے سے لاحق ہوتی ہیں"۔ ان کے مطابق "ان بچوں کے بیمار ہونے کی بڑی وجوہات کلپانی ندی کی آلودگی اور شہر کی بہت سی آبادیوں میں ان پائپ لائنوں کا گڈ مڈ ہونا ہے جو پینے کے پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کے لیے بچھائی گئی ہیں"۔ 

ندی کی بحالی: کس کی ذمہ داری؟

خیبرپختونخوا کے شمالی ضلع مالا کنڈ کی تحصیل درگئی کے علاقہ مچھی کے قدرتی چشموں سے نکلنے والی کلپانی ندی 55 کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے ضلع نوشہرہ میں کھنڈر نامی مقام پر دریائے کابل میں شامل ہو جاتی ہے۔ اس سفر کے دوران یہ پانچ کلومیٹر طویل شہری اور 23 کلومیٹر طویل دیہی آبادیوں میں سے گزرتی ہے۔

خیبرپختونخوا کے محکمہ آبپاشی کے مردان میں متعین ایگزیکٹو انجینئر سید احمد امین شاہ کہتے ہیں کہ جب یہ ندی مردان شہر سے گزرتی ہے تو ایک طرف تو مقامی ہسپتالوں اور سنگ مرمر کی تراش خراش کرنے والے درجنوں کارخانوں کا فضلہ اس میں شامل ہو جاتا ہے اور دوسری طرف استمال شدہ گندے پانی کے 65 ایسے نالے بھی اس میں گرتے ہیں جن کی دیکھ بھال کرنا مختلف سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس آلودگی کی روک تھام کے لیے گزشتہ سال انہوں نے مردان کی ضلعی انتظامیہ، تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن، واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروس کمپنی اور کنٹونمنٹ بورڈ کو خطوط لکھ کر کہا کہ وہ اپنے اپنے زیرِانتظام گندے نالوں کا رخ ندی کے بجائے کسی اور جانب موڑیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "ان خطوط پر تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی"۔ 

ان کے مطابق ان کا محکمہ بھی اس سلسلے میں مزید کچھ نہیں کر سکتا  کیونکہ "اس کے پاس ایسے کوئی قانونی اختیارات موجود نہیں جنہیں استعمال کر کے وہ اس آلودگی کے ذمہ دار لوگوں اور اداروں کے خلاف کوئی موثر کارروائی کر سکے"۔ اس ضمن میں وہ 1873 کے کینال ڈرینیج ایکٹ کی دفعہ 70 کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ اس کے تحت آبی گزرگاہوں میں استمعال شدہ گندا پانی یا کوڑاکرکٹ پھینکنا ایک جرم ہے لیکن پچھلی دو دہائیوں سے اس جرم میں ملوث افراد یا اداروں کو سزا دینا محکمہ آب پاشی کے دائرہ اختیار سے باہر کر دیا گیا ہے۔ 

اس کے برعکس ماضی میں اس محکمے میں کینال مجسٹریٹ ہوا کرتے تھے جو آبی آلودگی میں ملوث لوگوں کو موقع پر سزائیں دے سکتے تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ 2002 میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے عدلیہ اور انتظامیہ کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرتے ہوئے یہ عہدہ ختم کر دیا اور اس کے اختیارات ضلعی عدلیہ کو دے دیے۔ ان کے مطابق اب ان کا محکمہ "آبی گزرگاہوں کو گندا کرنے والے افراد اور اداروں کے خلاف ایک سول جج کی عدالت میں محض مقدمات درج کرا سکتا ہے جبکہ انہیں سزا دینا یا نہ دینا مکمل طور پر عدلیہ کا استحقاق ہے"۔

لیکن، ان کے بقول، "عدالتیں معمولی سے معمولی مقدمہ نمٹانے میں بھی اکثر چار سے پانچ سال لگا دیتی ہیں" جس کے باعث آلودگی میں ملوث لوگوں کا یہ خوف دور ہو چکا ہے کہ انہیں اپنے جرم کی فوری سزا بھگتنا ہو گی۔ 

ان کے مطابق اس صورت حال میں تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے کہ پرانا نظام واپس آ جائے۔ اس سلسلے میں ہونے والی ایک اہم پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں "اس سال اگست میں پشاور ہائی کورٹ نے کینال مجسٹریٹ کے اختیارات بحال کرنے کا حکم دے دیا ہے"۔ اگرچہ ابھی تک اس عدالتی حکم کے نتیجے میں عملی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب کبھی ایسا ہو جائے گا تو یہ مجسٹریٹ کلپانی ندی کی آلودگی میں ملوث لوگوں کو موقع پر سزائیں دے سکیں گے۔ 

آبی آلودگی سے منسلک دوسرے سرکاری ادارے، صوبائی محکمہ تحفظ ماحولیات، کو بھی اپنے اختیارات محدود ہونے کی شکایت ہے۔ اس کے مردان میں متعین اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریاض خان کہتے ہیں کہ ان کا محکمہ عام افراد اور سرکاری اداروں کے خلاف کوئی کارروائی کر ہی نہیں سکتا بلکہ اس کے دائرہِ کار میں صرف ایسی تجارتی، صنعتی اور ترقیاتی سرگرمیاں آتی ہیں جنہیں اپنے ماحولیاتی اثرات کی وجہ سے اس کی مسلسل نگرانی درکار ہوتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسی نگرانی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے مردان اور اس کے گردونواح میں سنگ مرمر کے 60 ایسے کارخانوں کو نوٹس بھیجے ہیں جو اپنا استعمال شدہ زہریلا پانی کلپانی ندی میں ڈال کر اس کو آلودہ کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق اس کارروائی کے نتیجے میں ان کارخانوں کے خلاف تحفظ ماحولیات کی خصوصی عدالتوں میں مقدمے بھی چل رہے ہیں۔ 

تاہم تحصیل مردان کے میئر حمایت اللہ مایار کے خیال میں کلپانی ندی کی آلودگی محض انتظامی اور عدالتی اقدامات سے دور نہیں ہو گی بلکہ اس کے لیے مربوط منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ اسی لیے، ان کے مطابق، شہری اور صوبائی حکومتیں ایشیائی ترقیاتی بنک سے مل کر سات اربے روپے کی لاگت سے ایک ایسا منصوبہ تیار کر رہی ہیں جو اس ندی کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔  

مردان کی واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروس کمپنی کے ترجمان جنید یوسف زئی اس منصوبے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اس کے تحت ایک ایسا پلانٹ تعمیر کیا جائے گا جو مردان شہر کی چھ یونین کونسلوں سے نکلنے والا سارا گندا پانی اور دو یونین کونسلوں کی نصف آبادی کا استعمال کردہ پانی صاف کرنے کی اہلیت رکھتا ہو گا"۔ 

اگرچہ ابھی اس پلانٹ کی تعمیر شروع نہیں ہوئی لیکن، ان کے مطابق، ایک کمپنی کو اس کام کا ٹھیکہ دے دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "جیسے ہی اس پلانٹ کا تعمیراتی کام مکمل ہو جائے گا تو مردان کا بیشتر گندا پانی کلپانی ندی میں بھیجے جانے کے بجائے اس کی طرف موڑ دیا جائے گا"۔

تاریخ اشاعت 4 اکتوبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عبدالستار نے انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے وہ ملکی اور غیرملکی صحافتی اداروں کے لیے خیبرپختونخوا کے ضلع مردان سے رپورٹنگ کررہے ہیں۔

thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

پاکستان کے پانی کی بدانتظامی اور ارسا کی حالیہ پیش رفت کے ساختی مضمرات: عزیر ستار

ارسا ترمیم 2024 اور سندھ کے پانیوں کی سیاست پر اس کے اثرات: غشرب شوکت

جامعہ پشاور: ماحول دوست شٹل سروس

خیبر پختونخوا: پانچ اضلاع کو جوڑنے والا رابطہ پُل 60 سال سے تعمیر کا منتظر

thumb
سٹوری

پرائیویٹ سکول میں تعلیم: احساس برتری یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.