چند سال پہلے ہونے والے ایک جھگڑے نے ارشد کی زندگی بدل کر رکھ دی۔
ایک معمولی وجہ سے ہونے والے جھگڑے میں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر لڑکوں کے ایک دوسرے گروہ کے ساتھ مار کٹائی کر بیٹھا جس کے نتیجے میں اسے اور کئی دوسرے لڑکوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
ارشد کی عمر اس وقت 15 سال سے کم تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد پولیس والوں نے اسے نہ صرف حوالات میں بند کر دیا بلکہ اس کی کم عمری کا خیال کیے بغیر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ اس کے مطابق جب وہ اسے مار مار کر تھک گئے تو انہوں نے اسے اُلٹا لٹکا دیا۔
لیکن اس کے غریب ماں باپ کے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ اسے چھڑانے کے لیے کسی وکیل کی خدمات حاصل کر سکتے یا پولیس والوں کو رشوت دے سکتے۔ چنانچہ اگلے روز اسے ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا جس نے اسے فوری طور پر ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ بھیج دیا۔ اس کے بقول جیل کے عملے نے نہ صرف اسے مارا پیٹا بلکہ اس سے جیل کی صفائی کرائی اور اینٹیں بنانے کا کام لیا۔
چار روز بعد جب وہ دوبارہ عدالت میں پیش ہوا تو جج اس بات کا قائل ہو چکا تھا کہ اس سے کوئی جرم سرزد نہیں ہوا۔ اس لیے اسے فوری طور پر رہا کر دیا گیا۔
ارشد اِس وقت 18 سال کا ہے لیکن اس کے چہرے پر ایک ایسی معصومیت ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے چھوٹا لگتا ہے۔ جیل میں گزارے ہوئے دنوں کا اس کی نفسیات پر اتنا گہرا اثر ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سہما سا رہتا ہے (اور اسی خوف کے باعث اپنا اصلی نام پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے)۔ جیل سے واپس آنے کے بعد وہ اپنی تعلیم بھی جاری نہیں رکھ سکا حالانکہ اس سے پہلے وہ باقاعدگی سے سکول جاتا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ "میرے استاد نے مجھے بہت قائل کرنے کی کوشش کی کہ مجھے تعلیم حاصل کرتے رہنا چاہیے لیکن جیل سے باہر آنے کے بعد میرا پڑھنے کو جی ہی نہیں چاہا"۔
اس طرح ارشد کی تعلیم آٹھویں جماعت سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اب وہ وسطی پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں واقع اپنے آبائی قصبے مانانوالہ میں غلے کے ایک تاجر کے ہاں ملازمت کرتا ہے۔
قیدی بچے کس حال میں ہیں؟
اگرچہ صوبہ پنجاب کی حکومت نے بچوں کے لیے فیصل آباد اور بہاولپور میں دو خصوصی جیلیں قائم کر رکھیں ہیں لیکن ان میں سے پہلی اب تک خالی ہے جبکہ دوسری میں صرف 59 بچے قید ہیں حالانکہ صوبے کی 33 مختلف جیلوں میں اس وقت مجموعی طور پر سات سو 34 بچے موجود ہیں-
لاہور میں بچوں کے قانونی حقوق پر کام کرنے والی دستک نامی تنظیم کی طرف سے جمع کیے گئے اعدد و شمار کے مطابق ان قیدی بچوں میں سے صرف 100 سزا یافتہ ہیں جبکہ باقی کے چھ سو 34 اپنے مقدمات کی شنوائی کا انتظار کر رہے ہیں۔
ایسے بچوں کی قانونی امداد کرنے والے وکلا کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر چوری چکاری اور لڑائی جھگڑے جیسے معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث ہوتے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے وہ ضمانت پر رہائی حاصل نہیں کر پاتے۔ لاہور میں کام کرنے والے وکیل حیدر علی بٹ اب تک کئی ایسے بچوں کی ضمانت کرا چکے ہیں جو معمولی جرائم میں کئی مہینوں سے جیل میں پڑے ہوئے تھے۔
ایسے بچوں کو وکیل فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن قیدی بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی اے جی ایچ ایس نامی تنظیم سے 20 سال سے منسلک سماجی کارکن روبینہ شاہین کے مطابق ریاست ایسا شاذ و نادر ہی کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر کسی بچے کو سرکاری وکیل مِل بھی جائے تو وہ مقدمے میں دلچسپی ہی نہیں لیتا کیونکہ حکومت اسے خاطر خواہ فیس نہیں دیتی۔ اس لیے انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ سرکار کے فراہم کردہ وکیل نے کسی بچے کی ضمانت کرائی ہو۔
اسی طرح کی ایک دوسری تنظیم (جو انتظامی وجوہات کی بنا پر اپنا نام خفیہ رکھنا چاہتی ہے) سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کہتی ہیں کہ جیلوں کے معائنے کے لیے متعین ججوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایسے بچوں کو ذاتی ضمانت پر رہا کر دیں جن کے پاس ضمانت کے لیے مالی وسائل موجود نہیں ہوتے۔ لیکن ان کے بقول اس قانونی اختیار کی موجودگی میں بھی جج کبھی ایسا نہیں کرتے۔
روبینہ شاہین کا بھی کہنا ہے کہ قیدی بچوں میں سے کئی ایک کو پولیس والوں نے ناجائز طور پر مختلف مقدمات میں پھنسایا ہوتا ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے آپ کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے درکار سماجی اثر و رسوخ اور مالی وسائل موجود نہیں ہوتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بچہ کسی معمولی جرم میں بھی پکڑا جائے تو اس کی گرفتاری سے کچھ عرصے پہلے ہونے والی ہر وہ چوری اور ڈکیتی اس کے ذمے لگا دی جاتی ہے جس میں پولیس اصل مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہتی ہے۔
آج کل وہ ایک ایسے مقدمے پر کام کر رہی ہیں جس میں "ایک بچے پر 26 ایسے مقدمات قائم کئے گئے ہیں"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو بچہ ایک دفعہ حوالات یا جیل سے ہو آتا ہے اس کا نام پولیس ریکارڈ میں آ جاتا ہے۔ لہٰذا "جب بھی اس کے علاقے میں کوئی واردات ہوتی ہے پولیس اسے پکڑ کر دوبارہ حوالات یا جیل میں بند کر دیتی ہے"۔ ان کے مطابق ایسے "بچوں کو ڈرا دھمکا کر یا تشدد کا نشانہ بنا کر ان سے زبردستی اقرارِ جرم کرا لیا جاتا ہے تا کہ پولیس اپنی کارکردگی کو بہتر بنا کر دکھا سکے"۔
مانانوالہ ہی کے رہائشی ایک بچے کے ساتھ ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ وہ 15 سال کی عمر میں پہلی بار اپنے چچا کے قتل کے الزام میں جیل گیا۔ دوسری بار اسے شراب فروشی کے الزام میں جیل بھیجا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ جب بھی اس کے علاقے میں نشہ آور مواد کی خرید و فروخت کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے پولیس اسے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیتی ہے۔
روبینہ شاہین نے یہ بھی دیکھا ہے کہ پولیس مختلف مقدمات میں پکڑے گئے بچوں کو ایک گروہ کے ارکان ظاہر کر کے ان کے ذمے ایسے جرائم لگا دیتی ہے جو مجرموں کے کسی نا معلوم گروہ نے کیے ہوتے ہیں حالانکہ، ان کے بقول، "یہ بچے ایک دوسرے سے کبھی ملے بھی نہیں ہوتے"۔
حیدر علی بٹ کہتے ہیں کہ جیل جانے کے بعد بھی ملزم بچوں کی حالتِ زار میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ وہ دستک کے ساتھ بھی منسلک ہیں جس کے نمائندے باقاعدگی سے جیلوں کے دورے کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "محض غربت کی وجہ سے جیلوں میں قید سینکڑوں بچے اپنا بچپن بالغ ہونے سے پہلے ہی کھو بیٹھتے ہیں"۔
جیلوں میں کام کرنے والی ایک سماجی کارکن اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر کہتی ہیں کہ وہ اب تک تقریباً ایک سو 70 قیدی بچوں سے مل چکی ہیں۔ اپنے تجربات کی روشنی میں ان کا کہنا ہے کہ ان بچوں کے حالاتِ زندگی انتہائی مخدوش ہوتے ہیں لیکن، ان کے مطابق، جیل حکام ان کے دوروں کے دوران ان حالات کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "جیل کا عملہ دورہ کرنے والے لوگوں کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہتا ہے۔ ان حالات میں بچے ہمیں حقائق سے آگاہ ہی نہیں کر پاتے کیونکہ انہیں خوف ہوتا ہے کہ ہمارے رخصت ہونے کے بعد انہیں سچ بولنے کی سزا دی جائے گی"۔
جیل کے ایک سابقہ اہل کار بھی ان کی رائے سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کبھی محققین، وکلا یا صحافی جیل کا دورہ کرنے آتے ہیں تو جیل کے پورے عملے کو "دورہ تیار" کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قیدیوں کو اچھا لباس پہنایا جائے اور جیل کی مکمل صفائی کر دی جائے "تا کہ آنے والوں کو یہی تاثر ملے کہ سب اچھا ہے"۔
قانون کے نفاذ میں ناکامی
پاکستان میں 2000 میں پہلی بار جووینائل جسٹس سسٹم آرڈیننس نامی قانون بنایا گیا جس کے تحت نابالغ افراد کو کچھ ایسے قانونی حقوق فراہم کیے گئے جو بڑی عمر کے افراد کو دستیاب نہیں۔ مثال کے طور پر اس میں کہا گیا کہ نابالغ افراد کو سزائے موت نہیں دی جا سکتی خواہ ان کے جرم کی نوعیت کتنی سنگین ہی کیوں نہ ہو۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ بلوغت کی قانونی عمر سے پہلے جرائم کا ارتکاب کرنے والے افراد پر مقدمات چلانے کے لیے علیحدہ عدالتیں اور انہیں قید میں رکھنے کے لیے علیحدہ جیلیں بنائی جائیں۔
اس آرڈیننس کے تحت ملزم بچوں کو کسی بھی صورت میں تھانے یا عام جیل میں قید نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے مقدمات کی سماعت کے دوران انہیں ایسے مراکز میں رکھا جانا چاہیے جو ان کی نگرانی کے لیے خاص طور پر بنائے گئے ہوں جبکہ سزا کی صورت میں انہیں ایسے اصلاحی مراکز میں بھیجا جانا چاہیے جہاں انھیں سزا دینے کے بجائے ان کی تربیت پر زور دیا جائے (اگرچہ پچھلے 20 سالوں میں ملزم بچوں کو ان دونوں میں سے کوئی ایک سہولت بھی نہیں دی گئی)۔
لیکن ابھی اس آرڈیننس پر عمل درآمد پوری طرح شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ 2004 میں لاہور ہائی کورٹ نے جنسی زیادتی اور قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کے بعد اسے کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں 18 سال کو بلوغت کی عمر قرار دینے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اکثر بچے اس عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی جوان ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے سے بڑی عمر کے افراد کی صحبت میں وقت گزارتے ہیں، غربت کی وجہ سے کم عمری میں ہی نوکریاں کرنے لگ جاتے ہیں اور مرچوں والے کھانے کھاتے ہیں۔ اس لیے عدالت کا کہنا تھا کہ انہیں سنگین نوعیت کے جرائم میں وہی سزا ملنی چاہیے جو 18 سال سے بڑی عمر کے لوگوں کو ملتی ہے۔
اس فیصلے کے سامنے آنے کے بعد بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور کئی قانونی ماہرین نے اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا گیا جس نے بالآخر اسے ختم کر کے آرڈی ننس کو بحال کر دیا (جس میں 2018 میں پارلیمان نے کچھ مثبت اضافے کر کے اسے جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ کی شکل دے دی)۔
تاہم اس واضح قانون سازی کے باوجود آج بھی عدالتوں میں ملزمان کی صحیح عمر کا تعین کرنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس اپنی عمر کا کوئی ناقابلِ تردید دستاویزی ثبوت نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ لوگ رشوت دے کر اپنی عمر سے متعلق سرکاری ریکارڈ میں رد و بدل کرا لیتے ہیں جبکہ کئی مقدمات میں جج ملزم کو دیکھ کر خود فیصلہ کر لیتے ہیں کہ آیا وہ بالغ ہے یا نہیں۔
لڑکیوں کی عمر کے تعین کا معاملہ اور بھی سنگین ہے۔ اس ضمن میں اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا ایک ایسی ملزمہ پر جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے جو ابھی بلوغت کی قانونی عمر کو تو نہ پہنچی ہو لیکن اس کے ہاں بچے پیدا ہو چکے ہوں۔ اس طرح کی قانونی الجھنوں کا نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت پنجاب کی کسی بھی جیل میں ایک لڑکی بھی بچوں کے لیے مختص حصے میں نہیں رہ رہی۔
کیا اس کا مطلب ہے کہ نابالغ لڑکیاں کبھی کوئی جرم نہیں کرتیں یا اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی نابالغ لڑکی کو کبھی جیل ہی نہیں بھیجا جاتا؟
روبینہ شاہین ان سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ کئی کم عمر لڑکیاں جیلوں میں موجود ہیں لیکن انہیں بڑی عمر کی عورتوں کے ساتھ ہی قید کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ جیل کے ضابطہِ کار میں نابالغ لڑکیوں کے لیے کوئی خصوصی شقیں موجود ہی نہیں حالانکہ اس میں نابالغ لڑکوں کے بارے میں کئی علیحدہ قواعد موجود ہیں۔
تاہم قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ جووینائل جسٹس سسٹم ایکٹ یہ تخصیص ہرگز نہیں کرتا کہ مقدمات کی سماعت یا قید کے دوران کم عمر لڑکیوں اور کم عمر لڑکوں سے ان کی صنف کی بنیاد پر مختلف سلوک کیا جائے۔ لیکن وہ اس بات پر افسوس کا اظہار ضرور کرتے ہیں کہ اس قانون پر عمل درآمد کے کئی اہم تقاضے پورے نہیں کیے جا رہے۔ ان میں سے ایک اہم تقاضہ مبینہ مجرموں کی عمر کا سائنسی طریقی سے تعین ہے۔
تاریخ اشاعت 5 اکتوبر 2021