سھراب سومرو ضلع عمرکوٹ کے گاؤں 'جالو جو چونیرو' کے رہائشی ہیں۔ وہ مقامی پرائمری سکول میں چوکیدارہ کرتے ہیں۔ تین ماہ قبل ان کے 12 سالہ بیٹے کو تیز رفتار لانگ جیپ(جگاڑو) نے کچل دیا۔ زخمی شاہنواز کو ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ وہاں پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے تھے۔
یہ واقعہ صحرائے تھر میں کھوکھرا پار چھور روڈ پر پیش آیا تھا۔ سھراب سومرو جواں سال بیٹے کی ہلاکت پر قانونی کارروائی کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں برادری کے دباؤ پر حادثے کے ذمہ دار جیپ ڈرائیور غلام سمیجو کو معاف کرنا پڑا۔
نوعمر شاہنواز کے ماموں محمد فضل سومرو بتاتے ہیں کہ ان کے معصوم بھانجے کی میت ابھی گھر کے آنگن میں ہی رکھی تھی کہ جیپ ڈرائیور غلام سمیجو اپنی برادری کے 50 سے زائد معززین کو لے کر سوگوار خاندان کے گھر پہنچ گیا۔ آخری رسومات کے بعد تمام معززین نے معافی طلب کرنا شروع کر دی۔
"سندھ میں صدیوں سے 'میڑھ منت قافلے' کا رواج چلا آ رہا ہے۔ واقعے کا ذمہ دار گھر آ کر جرم کا اعتراف کرتے ہوئے معافی مانگے (سندھی میں اسے 'تڈو بخشانہ' کہتے ہیں) تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ روایت کے تحت سھراب سومرو نے بھی ڈرائیور کو معاف کر دیا۔ البتہ تمام لوگوں نے اتفاق رائے سے ڈرائیور غلام سمیجو کے کھوکھراپار چھور روٹ پر لانگ جیپ چلانے پر پابندی لگا دی ہے۔
عمرکوٹ اور تھرپارکر میں صرف شاہنواز ہی نہیں، معروف الٹرا ساؤنڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر نیاز سمیجو سمیت درجنوں افراد ان لانگ جیپوں کے حادثات میں جانیں گنوا چکے ہیں لیکن معافی تلافی یا 'میڑھ منت' کے باعث یہ حادثات رپورٹ تک نہیں ہوتے۔
صرائےتھر کے بڑے قصبات اور شہروں کے درمیان آمدورفت کے لیے طویل عرصے تک اونٹ کے علاوہ ایک خاص ساخت کے ٹرک (مقامی لوگ اسے کیکڑا یا چھکڑا کہتے ہیں) استعمال ہوتے رہے ہیں۔ ریتلے اور اونچے نیچے راستوں پر تیز سفر کے لیے ان گاڑیوں کا متبادل نہیں تھا۔
80ء کی دہائی میں پاک بھارت سرحدی علاقوں میں کہیں کہیں جیپیں نظر آنے لگیں۔ ان میں زیادہ تر سوزوکی کمپنی کی تیار کردہ ماڈل 'سمورائی' اور 'شیرا' فور ویل ڈرائیو 5/7 سیٹر گاڑیاں تھیں۔ یہ گاڑی عام جیپ سے تھوڑی لمبی تھی، اس لیے اسے لانگ جیپ بھی کہا جاتا تھا۔
طاقتور انجن (ہزار سے ڈیڑھ ہزار سی سی) اور آف روڈ صلاحیت کے باعث ان گاڑیوں کو سرحد پر سمگلنگ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تاہم 80ء کی دہائی کے آخر میں بارڈر پر باڑ لگنے سے یہ دھندہ بند ہو گیا تو ان گاڑیاں کو سواریوں اور سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ تب سے یہ صحرا میں مقبول ترین سواری چلی آ رہی ہے۔
شفیع محمد بھنبھرو پانچ سال تک گاڑیوں کاروبار کرتے رہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 86ء کے بعد لانگ جیپ آنا بند ہوگئی تھی۔ اس وقت یہاں اکا دکا جیپیں ہوتی تھیں لیکن طلب بڑھنے کے ساتھ ہی 'دو نمبر' لانگ جیپ بنانے کا کام شروع ہوگیا جو تاحال جاری ہے۔
"مقامی مکینک(مستری) اور ڈینٹر پرانے ماڈل کی ہاف ہڈ، پوٹھوہار، شیرا وغیرہ خریدتے ہیں۔ اس کا پچھلا حصہ کاٹ کر چیسز (نچلا فریم) کے ساتھ اضافی حصے ویلڈ کر دیتے ہیں۔ یوں فریم کی لمبائی ڈیڑھ دو فٹ بڑھا کر باڈی کو 'لانگ جیپ' کی شکل دے دی جاتی ہے۔ مقامی لوگ اسے 'جگاڑ' کہتے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ ان گاڑیوں کے سٹرکچر کے ساتھ انجن میں بھی تبدیلیاں (آلٹریشن) کی جاتی ہیں یعنی پٹرول کٹ کو ڈیزل میں بدل دیا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تھرپارکر اور عمرکوٹ میں 90 فیصد دو نمبر 'جگاڑی جیپیں' چل رہی ہیں۔
مکینیکل انجینئر نریش کمار کھتری بتاتے ہیں کہ جگاڑ سے بنائی گئی گاڑی کا کوئی سیفٹی سٹینڈرڈ (حفاظتی معیار) نہیں ہوتا۔
"اوریجنل چیسز کی لمبائی میں اضافے سے گاڑی متوازن ہی نہیں رہتی"۔
وہ کہتے ہیں کہ پانچ افراد کے لیے ڈیزائن کی گئی جیپ میں چھ اور اصل لانگ جیپ میں آٹھ افراد تک کی گنجائش ہوتی ہے۔ یعنی کمپنی نے کل ساڑھے تین سے چارسو کلو گرام لوڈ اٹھانے کی گنجائش رکھی ہوتی ہے۔
"جگاڑ والی گاڑی پر پانچ یا چھ گنا زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ وزن کا بیشتر حصہ پیچھے چیسز کے بڑھے ہوئے حصے پر ہوتا ہے جس سے روڈ پر اگلے ٹائروں کی گرپ کمزور پڑ جاتی ہے اور گاڑی کنٹرول میں نہیں رہتی۔ ایمرجنسی بریک پر حادثہ تو ہونا ہی ہوتا ہے۔"
ارشد خاصخیلی زیرو پوائنٹ عمر کوٹ پر ورکشاپ مکینک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر گاڑی بکتی رہے تو وہ مہینے میں دو مزدوروں کی مدد سے ایک یا دو لانگ جیپیں بنا لیتے ہیں۔ خرچہ نکال کر انہیں اس کام میں ایک لاکھ روپے تک کی بچت ہو جاتی ہے۔
" گاڑی کو لانگ جیپ میں بدلنے پر کم از کم پانچ لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جس میں گاڑی کے اگلے ہڈ پر 50 ہزار، رنگ روغن پر 50 ہزار، باڈی پر دو لاکھ، وائرنگ پر 50 ہزار اور پٹرول کٹ کو ڈیزل میں تبدیل کرنے پر دو لاکھ لگ جاتے ہیں۔"
عمر کوٹ میں اڈا منیجر جان محمد منگریو بتاتے ہیں کہ تھرپارکر اور صحرائی علاقوں سے لگ بھگ 700 لانگ جیپیں روزانہ عمرکوٹ آتی ہیں جن میں چھاچھرو، کاہوڑ براستہ رتنور، کھوکھراپار، کنری براستہ چیل بند، کھپرو اور اچھڑو تھر کے روٹ شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ عمرکوٹ شہر میں ان 'جگاڑی جیپوں' کے سات اڈے ہیں اور تھر کے چھوٹے بڑے قصبات میں لاتعداد جیپیں کھڑی ہوتی ہیں جو مقامی ٹیکسی کے طور پر چلتی ہیں۔
رانو منگریو 20 سال سے عمرکوٹ ڈھیبوڑی روٹ پر اپنی لانگ جیپ چلا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ نئی بنی ہوئی جیپ کم از کم 12 لاکھ میں ملتی ہے اور ڈیزل بہت مہنگا ہے۔
"اگر میں جیپ میں 40 من سامان اور 25/ 30 سواریاں نہ اٹھاؤں تو گذارا نہیں ہوتا۔ ٹیلوں میں گاڑی کا ستیاناس ہو جاتا ہے اور تین ہزار روپے دہاڑی میں بچت بھی نہیں ہوتی۔"
ان جیپوں نے مقامی لوگوں کی منزلوں کو قریب تو کر دیا ہے لیکن گنجائش سے زیادہ سواریاں اور سامان اٹھانے کی وجہ سے حادثے روز کا معمول ہیں۔ تاہم نہ تو پولیس کے پاس حادثات کا ریکارڈ ہے نہ ہی محکمہ ایکسائز کو ان جگاڑو جیپوں کی تعداد کا علم۔
ایس ایس پی آفس عمرکوٹ میں قائم حادثات ڈیٹا سیل میں حادثوں کی مکمل تفصیلات موجود نہیں۔ تاہم یہاں سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اکتوبر تک ضلعے میں سڑک کے کل 58 حادثے ہوئے جن میں سے صرف تین کی رپورٹ درج ہوئی جبکہ 55 رپورٹ ہی نہیں ہو سکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
6 ہزار حادثات، 680 ہلاکتیں، میانوالی تا مظفرگڑھ روڈ ڈیڑھ سال میں 'خونی سڑک' کیسے بنی؟
ٹریفک پولیس تھانہ عمرکوٹ کے ہیڈ محرر عبدالستار ٹریفک پولیس کی لاپروائی کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں سیکڑوں لانگ جیپیں روزانہ آتی جاتی ہیں مگر شاید ہی کسی گاڑی کے کاغذات درست ہوں، لائسنس تو اکثر ڈرائیوروں کے پاس نہیں ہے۔
"سارا سسٹم سیاسی مداخلت اور سفارش پر چل رہا ہے۔ سارجنٹ گاڑی یا ڈرائیور کو پکڑے تو فوراً کسی رکن اسمبلی یا وڈیرے کا فون آ جاتا ہے کہ میرا بندہ چھوڑ دیں۔ حادثہ ہو تو گرفتاری سے پہلے ہی معافی تلافی ہو جاتی ہے۔ ہم سب بے بس ہیں۔"
ایکسائز انسپکٹر شاہ میر سموں تصدیق کرتے ہیں کہ علاقے میں بیشتر 'دو نمبر' گاڑیاں چل رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گاڑیوں کی آلٹریشن نہ صرف غیر قانونی بلکہ جرم ہے۔ تاہم ان گاڑیوں کی رجسٹریشن کراچی میں ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے پاس جیپوں کا ڈیٹا نہیں ہے۔
سیکریٹری آر ٹی اے عمرکوٹ سید شیراز شاہ نے یہ کہ کر جان چھڑا لی کہ " لانگ جیپ 'کمرشل گاڑیوں' کے زمرے میں نہیں آتی اس لیے ان کے مالکان کو پابند نہیں کر سکتے۔ تاہم ہم نے رواں سال لائسنس، روٹ پرمٹ نہ ہونے اور ٹریفک رولز کی خلاف ورزی پر 50 جیپوں کے چالان کیے ہیں۔"
فتح علی جونیجو 23 سال سے تھر میں گاڑی چلا رہے ہیں۔ وہ حادثات کا ذمہ دار جوگاڑو جیپ کی بجائے ڈرائیوروں کو سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ وزن، طویل سفر اور کچے راستوں کے باعث کبھی گاڑی کا ایکسل، تو کبھی کمانی یا پھر ٹائی راڈ ٹوٹ جاتا ہے۔
"شاید ہی کوئی ڈرائیور ہو گا جو حادثے کا شکار نہ ہوا ہو۔ ٹریفک پولیس اور انتظامیہ چاہیں توحادثات کم ہو سکتے ہیں مگر کوئی سنجیدہ نظر نہیں آتا۔"
تاریخ اشاعت 29 نومبر 2023