کراچی یونیورسٹی کے تحقیقی ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) کے ایگزیکٹو بورڈ کا ایک اجلاس 13 جولائی 2012 کو منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد اس مرکز کی جانب سے رہائشی جائیدادوں میں کی گئی سرمایہ کاری پر بات کرنا تھا حالانکہ اس کام کا سائنسی تحقیق سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اس اجلاس کی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے ایجنڈے کے 14 بنیادی نکات تھے جن میں مرکز کے لیے اپنی آمدنی خود پیدا کرنے اور رہائشی جائیداد کے شعبے میں اس کی طرف سے کی گئی سرمایہ کاری کی مالیت پر بات کرنا بھی شامل تھا۔ چنانچہ اس کے شرکا کو 2003 سے لے کر 2011 تک مرکز کی جانب سے خریدی گئی 26 کروڑ 30 لاکھ روپے مالیت کی 35 جائیدادوں کی ایک فہرست پیش کی گئی۔ ان میں ڈی ایچ اے کراچی کے مختلف حصوں میں واقع سات گھر، ڈی ایچ اے اسلام آباد میں واقع ایک گھر اور ڈی ایچ اے لاہور کے مختلف حصوں میں واقع 27 گھر شامل تھے۔
فروری 2019 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہونے والے ڈاکٹر ماجد ممتاز اس اجلاس میں یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کی نمائندگی کر رہے تھے۔ اس کے نو دیگر شرکا میں کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر (جو کہ ایگزیکٹو بورڈ کے چیئرمین بھی تھے)، مرکز کے سرپرستِ اعلیٰ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے بانی چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمان اور مرکز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اقبال چوہدری بھی شامل تھے۔
ڈاکٹر ماجد ممتاز کہتے ہیں کہ اجلاس کے دوران انہوں نے جائیدادیں خریدنے کے لیے اس قدر بھاری رقم خرچ کیے جانے پر اعتراض کیا تھا۔ انہیں یاد ہے کہ بعض دیگر شرکا نے بھی اس حوالے سے انہی کی طرح خدشات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان تمام لوگوں کو محض یہ کہا گیا کہ اس سلسلے میں تمام فیصلے متعلقہ محکموں اور اداروں کی رائے اور منظوری کے بعد کیے گئے ہیں۔ البتہ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کی کوئی وضاحت نہ کی گئی کہ یہ کون سے محکمے اور ادارے تھے۔ ان کے مطابق ڈاکٹر اقبال نے شرکائے اجلاس کو یہ بھی بتایا کہ رہائشی جائیداد میں سرمایہ کاری مرکز کو چلانے کے لیے درکار آمدنی پیدا کرنے کا سب سے آسان اور یقینی طریقہ ہے۔
لاہور میں مقیم مائیکرو بائیولوجسٹ اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''ہمیں صرف اتنا بتایا گیا کہ یہ جائیدادیں مرکز کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے لیے خریدی گئیں تاکہ اس میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیاں کسی مالی رکاوٹ کے بغیر جاری رہیں''۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایگزیکٹو بورڈ کے کسی رکن کو اس حوالے سے کوئی قانونی سمجھ بوجھ نہیں تھی لہٰذا "ہم نے اس بات پر کوئی بحث نہیں کی کہ یہ سرمایہ کاری قانونی طور پر درست ہے یا نہیں"۔
اُس وقت کراچی کی آغا خان یونیورسٹی میں شعبہ تحقیق کے ایسوسی ایٹ ڈین کے طور پر کام کرنے والے ڈاکٹر انور علی صدیقی بھی بیرونی رکن کے طور پر ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ مرکز کے لیے رہائشی جائیداد کی خریداری پر بات چیت 13 جولائی 2012 کو ہونے والے اجلاس میں ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ہوتی رہی تھی۔ تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سرمایہ کاری کی قانونی حیثیت پر نہ تو کبھی کوئی سوالات اٹھائے گئے اور نہ ہی ان پر کسی حوالے سے غور کیا گیا۔ ان کے مطابق اس کی بظاہر وجہ یہ تھی کہ بورڈ کے زیادہ تر ارکان سائنسدان تھے جو کاروباری سرمایہ کاری کے موضوع میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
اس معاملے میں ارکان کی عدم دلچسپی کے باوجود کراچی یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ نے 8 جون 2013 کو اپنے اجلاس میں اس سرمایہ کاری کا نوٹس لے لیا۔ بعد ازاں سنڈیکیٹ نے ایک خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دی جس نے ایسی سرگرمیوں کی چھان بین کرنا تھی جو یونیورسٹی کے قواعدوضوابط کے تحت انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے لیے ممنوع ہیں۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں واضح طور پر لکھا کہ کراچی یونیورسٹی سے منسلک کسی بھی ادارے کو "کسی بھی طرح کی تجارتی یا کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ہرگز اجازت نہیں"۔
اس کے باوجود سنڈیکیٹ نے اُن لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جو یہ سرمایہ کاری کرنے میں ملوث تھے۔ ڈاکٹر ماجد ممتاز اس رویے کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سنڈیکیٹ کی طرف سے متنازعہ سمجھا جانے والا کوئی بھی معاملہ بالآخر وائس چانسلر کے پاس بھیجا جاتا جسے اس پر کوئی بھی فیصلہ کرنے کا حتمی اختیار ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں خاص طور پر "سنڈیکیٹ نے کمیٹی کی رپورٹ میں اٹھائے گئے سوالات دوبارہ ایگزیکٹو بورڈ کو بھیج دیے جس نے انہیں وائس چانسلر کو بھجوایا مگر انہوں نے اس پر کوئی کارروائی نہ کی''۔
اس حوالے سے بعض تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب سید اعجاز احمد صوفی نے اس رہائشی جائیدادوں کی خریداری کے بارے میں قومی احتساب بیورو (نیب) میں ایک درخواست دائر کی۔ وہ 2010 میں حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے چیف لائبریرین کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے جو انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کا حصہ ہے۔ 22 اگست 2016 کو نیب میں دائر کردہ اپنی شکایت میں انہوں نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر اقبال چوہدری نے رہائشی جائیدادوں کی خریداری کے لیے سرکاری وسائل کا غلط استعمال کیا اور اس معاملے میں متعلقہ اداروں کی منظوری بھی حاصل نہیں کی۔ انہوں نے نیب سے درخواست کی کہ وہ ڈاکٹر اقبال چوہدری کی بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور 10 ارب روپے سے زیادہ مالیت کا غبن کرنے کی تحقیقات کرے۔
'تحقیق کا پیسہ رہائشی املاک کی نظر'
ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اکتوبر 2003 میں سائنسی آلات تک رسائی کا ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو مالی وسائل مہیا کیے جائیں تاکہ وہ دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ کو سائنسی تحقیق کے لیے اپنی لیبارٹریوں اور آلات تک رسائی دے سکیں۔
ایسے لگتا ہے کہ یہ پروگرام حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے لیے خاص طور پر تیار کیا گیا تھا کیونکہ پاکستان میں سب سے بہتر سائنسی لیبارٹریاں اور سازوسامان اسی کے پاس ہیں۔ 2005 میں جاری ہونے والی ایچ ای سی کی رپورٹ سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس کے مطابق ''پروگرام سے مستفید ہونے والے نو سو 99 میں سے چھ سو 99 افراد نے حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی سہولیات سے استفادہ کیا تھا۔ نتیجتاً اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے صرف 2003 اور 2005 کے درمیانی عرصہ میں دو کروڑ 18 لاکھ روپے موصول ہوئے۔
تاہم اس پروگرام کے تحت حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو ادا کی جانے والی یہ واحد رقم نہیں تھی۔ درحقیقت یہ پروگرام 2003 سے ابھی تک جاری ہے اور اس میں محض 2018 سے 2021 تک وقفہ آیا ہے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے پچھلے 20 سال میں اس کے تحت 40 کروڑ 48 لاکھ روپے تقسیم کیے ہیں جن کا بڑا حصہ حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو ملا ہے۔
نتیجتاً اس کے پاس اس قدر مالی وسائل جمع ہو گئے کہ 2012 میں شائع ہونے والی اس کی سالانہ اخراجات کی رپورٹ کے مطابق اس نے ڈی ایچ اے لاہور میں دو کروڑ 34 لاکھ 39 ہزار روپے کی رہائشی جائیدادیں خرید لیں۔ اس نے ان جائیدادوں کی دیکھ بھال اور لاہور میں ایک گیسٹ ہاؤس کی تزئین و آرائش پر بھی بالترتیب 21 لاکھ 27 ہزار روپے اور چھ لاکھ 65 ہزار روپے خرچ کیے۔
تاہم اس لین دین کا سب سے زیادہ حیران کن پہلو یہ ہے کہ حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مالیاتی ریکارڈ یا اس کی آڈٹ رپورٹوں سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اسے سائنسی آلات تک رسائی دینے کے پروگرام کے تحت سرے سے کوئی رقم موصول ہوئی ہے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری اس عدم شفافیت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وسائل کے ضیاع اور بدعنوانی کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ شکایت کرتے ہیں کہ سائنسی آلات تک رسائی کے پروگرام میں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مناسب نگرانی کا نظام ہی موجود نہیں تھا کہ آیا سرکاری وسائل کو درست انداز میں اور مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے برعکس وہ کہتے ہیں کہ "ایسا لگتا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یہ جانچ پڑتال کرنے کی کسی بھی کوشش سے گریز کیا ہے کہ دراصل اس پروگرام کے تحت کون سی خدمات فراہم کی گئیں، کیا وہ فائدہ مند تھیں، کیا صارفین کو واقعتاً ان کی ضرورت تھی، کیا ان کا کوئی بہتر متبادل بھی ہو سکتا تھا اور کیا ان کے عوض ملنے والی رقم درست کھاتوں میں گئی''۔
درحقیقت 2018 میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد سے وہ اس پروگرام کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "یہ پروگرام چند ایسی وجوہات کی بنا پر ایک خاص ادارے کی حمایت کرتا ہے جن کی تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں''۔
2021 میں ایچ ای سی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ تاہم انہوں نے رواں سال کے شروع میں ایک اعلیٰ عدالتی فیصلے کے نتیجے میں یہ عہدہ دوبارہ حاصل کر لیا۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ "بدقسمتی سے میری غیر حاضری کے دوران یہ پروگرام 2021 میں دوبارہ شروع کر دیا گیا تھا''۔
سید اعجاز احمد صوفی نے نیب کو جمع کرائی گئی اپنی شکایت میں الزام لگایا ہے کہ حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے سائنسی آلات تک رسائی کے پروگرام کے تحت حاصل ہونے والی تمام نہیں تو بیشتر رقم رہائشی جائیداد کے شعبے میں سرمایہ کاری پر خرچ کر دی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انسٹی ٹیوٹ کے جن اکاؤنٹس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن سے رقم موصول ہوتی تھی انہی کو جائیدادوں کی خریداری اور دیکھ بھال کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
وہ ایک چونکا دینے والا الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ اس پیسے سے خریدی گئی جائیدادیں حسین ابراہیم جمال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے نام پر رجسٹرڈ نہیں بلکہ اقبال چوہدری، ان کے دوست اور اس انسٹی ٹیوٹ سے جڑے دوسرے لوگ ان کے رجسٹرڈ مالکان ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ڈاکٹر عطاالرحمان اینڈ سنز: ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی چیئرمین اور بینتھم سائنس نامی اشاعتی ادارے میں کیا رشتہ ہے؟
لوک سُجاگ کی تحقیقات سے ان میں کچھ جائیدادوں (خصوصاً ڈی ایچ اے ہومز لاہور میں واقع مکانوں) کی ملکیت کے بارے میں عائد کیے جانے والے الزامات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ان تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تمام جائیدادیں یا تو کراچی یونیورسٹی کے ساتھ کام کرنے والے افراد یا ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کی ملکیت ہیں۔
ان میں سے کچھ جائیدادوں کے بجلی کے بل انٹرنیشنل سنٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز کے ایگزیکٹو بورڈ کے بعض ارکان کے نام پر جاری کیے جاتے ہیں جبکہ دیگر جائیدادوں کے بل ڈی ایچ اے کے سیکرٹری کے نام ہیں کیونکہ ڈی ایچ اے کے ذرائع کے مطابق تاحال ان کا قبضہ ان کے مالکان کو منتقل نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر انور علی صدیقی اور ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک کے لیے یہ تفصیلات حیران کن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جولائی 2012 میں انہوں نے ایگزیکٹو بورڈ کے جس اجلاس میں شرکت کی تھی اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ جائیدادیں کسی ادارے کے بجائے افراد کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔ ڈاکٹر انور علی صدیقی کے مطابق ’’ہمیں کبھی نہیں بتایا گیا کہ دراصل یہ املاک کس کی ملکیت ہیں''۔ اسی طرح ڈاکٹر کوثر عبداللہ کا کہنا ہے کہ ''اگر یہ جائیدادیں افراد کے نام پر رجسٹرڈ ہیں تو قانونی اعتبار سے یہ ایک ناجائز بات ہے۔''
تاریخ اشاعت 23 جولائی 2022