اظہر اقبال سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں ملازم تھے۔ ان پر ایک سال قبل فالج کا حملہ ہوا تو ان کی اہلیہ نرگس پروین انہیں صنعتی مزدوروں کے لیے قائم سوشل سکیورٹی ہسپتال لے گئیں لیکن ہسپتال والوں نے علاج سے انکار کر دیا۔
پچپن سالہ نرگس پروین بتاتی ہیں کہ انہیں مجبوراً شوہر کو سول ہسپتال لے جانا پڑا۔ وہ وہاں چھ دن کوما میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔
" سول ہسپتال میں میرے میاں کو علاج کی مناسب سہولت نہیں ملی۔ اگر اپنے سوشل سیکورٹی ہسپتال میں ان کا علاج ہو جاتا تو شاہد وہ آج زندہ ہوتے۔"
اظہر اقبال ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں پلے بڑھے۔ انہیں 17 سال پہلے سیالکوٹ کی ' کیپ اینڈ ٹچ ' نامی فیکٹری میں ملازمت ملی تو خاندان کو بھی یہیں لے آئے۔ اب ان کی بیوہ اور پانچ بچے محلہ مظفر آباد میں کرایے کے مکان میں رہتے ہیں جس کا ماہانہ کرایہ 18 ہزار روپے ہے۔
سوشل سیکورٹی کا ادارہ 'پنجاب ایمپلائز سوشل سکیورٹی انسیٹیوشن' (پی ای ایس ایس آئی) صوبائی محکمہ محنت و افرادی قوت (لیبر ڈیپارٹمنٹ) کے زیر انتظام کام کرتا ہے۔
صنعتی کارکنوں اور ان کے زیر کفالت افراد کو طبی سہولتوں کی فراہمی اسی ادارے کی ذمہ داری ہے جس کے لیے سوشل سکیورٹی ہسپتال قائم کیے گئے ہیں۔
پراونشل ایمپلائز سوشل سیکیورٹی آرڈیننس 1965ء کے تحت آجر اپنے ملازمین کی اجرت کا چھ فیصد اس ادارے (پی ای ایس ایس آئی) میں جمع کرائے گا۔ جس کے بدلے میں یہ ادارہ ان رجسٹرڈ مزدوروں کو ہر طرح کی طبی سہولیات فراہم کرنے کا پابند ہے۔
اظہر اقبال کئی سال سے اس ادارے (پی ای ایس ایس آئی) میں رجسٹرڈ تھے اور ان کے حصے کی رقم (تنخواہ کا چھ فیصد) باقاعدگی سے ان کی فیکٹری کے مالک ادا کر رہے تھے۔
نرگس پروین کہتی ہیں ان کی دو بیٹیوں میں سے ایک شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ شوہر کو فوت ہوئے ایک سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا کہ سوشل سکورٹی کارڈ واپس لے لیا گیا ہے۔
" میں دل اور گردوں کی مریضہ ہوں۔ اب علاج بھی اپنے پیسوں سے کرانا پڑتا ہے حالانکہ سنا تھا کہ شوہر فوت ہو جانے کے بعد دو سال مزدور کے بیوی بچوں کو سوشل سیکورٹی ہسپتال میں طبی سہولت ملتی ہے۔ لیکن مجھے انکار کر دیا گیا ہے۔"
ساجدہ بی بی کے شوہر 'پروبیک' نامی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ وہ دو سال قبل ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے۔ وہ انہیں سوشل سیکورٹی ہسپتال لے گئیں لیکن انہیں داخل کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
"مجھے علاج نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی بعد میں کسی نے بتایا کہ شاید ان کے پاس ایسی طبی سہولیات موجود نہیں تھیں۔"
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر چار روز بعد سول ہسپتال میں انتقال کر گئے۔ وہاں دواؤں اور علاج پر 50 ہزار روپے سے زائد خرچ ہو گئے لیکن سوشل سیکیورٹی والوں یا فیکٹری مالکان نے کوئی تعاون نہیں کیا۔
چون سالہ ساجدہ بی بی کے بقول وہ خود بیمار ہیں۔ کچھ ماہ پہلے اپنے ہرنیا کا آپریشن کرانے کے لیے سوشل سیکورٹی ہسپتال گئی تو یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا گیا کہ "میاں کی موت کے دو سال بعد بیوہ، بچوں کو علاج کی سہولت نہیں ملتی۔"
نرگس پروین اور ساجدہ بی بی ہی نہیں بلکہ سیالکوٹ کے لاکھوں صنعتی مزدوروں کی یہی کہانی ہے۔ ان کا اول تو سوشل سکیورٹی کارڈ ہی نہیں بنا۔ اگر کسی کے پاس کارڈ ہے بھی تو ان میں سے بیشتر طبی سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔
قانون کے مطابق محکمہ سوشل سیکورٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر رجسٹرڈ کارکن کو ادارے کے زیر نگرانی کام کرنے والے ہسپتالوں اور ڈسپینسریوں میں مفت علاج فراہم کرے۔ اگر یہاں طبی سہولت نہیں ہو گی تو محکمہ اپنے خرچ پر دوسرے ہسپتالوں میں کارکن کے علاج کا بندوبست کرے گا۔
دوران ڈیوٹی زخمی ہونے والے کارکن کی داد رسی اور جان سے ہاتھ دھونے والے کی بیوہ کو عدت کاعرصہ ختم ہونے پر مالی امداد دینا اسی ادارے کی ذمہ داری ہے۔
سیالکوٹ میں ڈائریکٹر سوشل سیکیورٹی محمد حسان تصدیق کرتے ہیں کہ ہر رجسٹرڈ مزدور اور لواحقین کو طبی سہولت کی فراہمی اس ادارے کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن شمالی پنجاب کے صدر چوہدری محمد اشرف کا دعویٰ ہے کہ سیالکوٹ سے ہر ماہ 12 سے 13 کروڑ روپے سوشل سکیورٹی انسٹی ٹیوشن میں جمع ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود سوشل سکیورٹی کارڈ ہولڈرز علاج سے محروم رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سیالکوٹ میں مزدوروں کے نام پر آجروں سے وصول کی جانے بیشتر رقم محکمہ کے افسروں اور اہل کاروں پر خرچ ہو رہی ہے۔ مزدوروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے لیکن سیالکوٹ کا واحد سوشل سکیورٹی ہسپتال جو پہلے سو بستروں پر مشتمل تھا اسے اب 50 بستر کا کر دیا گیا ہے۔
سیالکوٹ صنعتی شہر ہے جہاں سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، چمڑے کی مصنوعات، کپڑا اور دیگر اشیا تیار کی جاتی ہیں۔
پنجاب شماریات بیورو کے مطابق سیالکوٹ میں بڑے صنعتی یونٹس کی تعداد تین ہزار 314 ہے جبکہ لیبر فورس سروے 21-2020ء میں بتایا گیا تھا کہ اس شہر میں مزدوروں کی تعداد 13 لاکھ 26 ہزار سے زیادہ ہے جن میں سے 34.2 فیصد یعنی چار لاکھ 53 ہزار 628 فیکٹریوں سے وابستہ ہیں۔
ڈپٹی ڈائریکٹر سردار محمد شفیق کے مطابق سیالکوٹ سوشل سکیورٹی میں 66 ہزار 435 مزدور رجسٹرڈ ہیں۔ جبکہ یہاں فعال سوشل سکیورٹی کارڈز کی تعداد 27 ہزار 560 ہے۔ یعنی رجسٹرڈ مزدوروں میں سے نصف سے بھی کم طبی سہولیات اور مالی فوائد حاصل کر پا رہے ہیں۔
" کئی مالکان ماہانہ پیسے تو جمع کراتے ہیں لیکن وہ ورکرز کے کارڈ حاصل نہیں کرتے۔ کچھ آجر اپنے حصے کی رقم ہی جمع نہیں کراتے جس کی وجہ سے ان کے ذمہ بقایا جات جمع ہو جاتے ہیں۔ بیشتر اوقات ریکوری کے لیے ضلعی انتظامیہ کی بھی مدد لینا پڑتی ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ ضلع سیالکوٹ میں اس وقت فیکٹری اونرز اور بھٹہ مالکان کے ذمے ایک ارب 17 کروڑ روپے ہیں جن کی وصولی محکمے کے لیے چیلنج ہے۔
تاہم چوہدری اشرف فیکٹری مالکان اور محکمہ دونوں کو برابر کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آجروں کو اعتراض یہ ہے کہ مزدور معمولی تکلیف کے علاج کے لیے سوشل سیکورٹی کی ڈسپینسریوں اور ہسپتال میں کئی کئی گھنٹے ضائع کر دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ فیکٹری مالکان محکمے کے عملے سے ساز باز کرکے اپنے ملازمین کے کارڈ نہیں بنواتے۔
"ان فیکٹری مالکان نے مزدوروں کی رجسٹریشن کرائی ہے اور حصے کی رقم بھی جمع کراتے ہیں۔ لیکن انھوں نے محض اس لیے کارڈ نہیں بنوائے یا مزدوروں کو نہیں دیے کہ اگر ایک کو فائدہ پہنچ گیا تو فیکٹری کے تمام مزدور کارڈ کا مطالبہ شروع کر دیں گے جو شاید مالکان کو قبول نہیں ہے۔"
یہ بھی پڑھیں
کوئٹہ: تعمیراتی انڈسٹری کی بنیاد 'سٹون کرشنگ پلانٹس' کے مزدور کس حال میں ہیں؟
مزدور رہنما سمجھتے ہیں کہ اکثر مزدور سوشل سیکورٹی کارڈ کی اہمیت نہیں جانتے۔ مزدور تنظیمیں جب بھی اس حوالے سے آگاہی دینے کی کوشش کرتی ہیں تو فیکٹری مالک انہیں فیکٹری میں جانے ہی نہیں دیتے۔ کیوںکہ یہاں اکثر فیکٹریوں میں ٹریڈ یونین بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
سیالکوٹ ایوان صنعت و تجارت کے سینئر نائب صدر وہب جہانگیر ان الزامات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا تمام کارڈ ہولڈر ورکرز کو طبی سہولتیں مل رہی ہیں ہے؟ جواب نفی میں ملتا ہے۔ اگر سب کو سہولتیں میسر ہوں تو فیکٹری مالکان اور مزدوروں کا حوصلہ بڑھے گا اور وہ کارڈ بنانے میں بھی دلچسپی لیں گے۔
صنعتی یونٹ 'اعوان سپورٹس' کے چیئرمین ملک جرار اعوان دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنی فیکٹری کے تمام کارکنوں کو قانون کے مطابق سوشل سیکیورٹی سمیت وہ تمام سہولیات فراہم کر رکھی ہیں۔ لیکن انہیں گلہ ہے کہ حکومت ان مزدوروں کو مطلوبہ سہولیات فراہم نہیں کر رہی ہے۔
"حکومت کو چاہیے کہ مزدوروں کے جائز حقوق کی راہ میں رکاوٹ بننے والے افسروں کو فارغ کر دے۔ اس سے ان کا احتساب ہو جائے گا اور نئے افسر یہ غلطی بھی نہیں دہرائیں گے۔"
اسی فیکٹری کے نوجوان مزدور علی رضا تصدیق کرتے ہیں کہ کچھ دن پہلے جب وہ اپنی والدہ کو ہسپتال لے کر گئے تو وہاں عملے نے انہیں سوشل سکیورٹی آفس سے ریفرل سلپ لانے کا 'حکم' دے دیا۔ انہوں نے اس دفتر کے کئی روز تک چکر لگائے مگر وہاں تالے پڑے ہوئے تھے۔
محمد ضرار بٹ سیالکوٹ کی ایک اور کمپنی 'فاروڈ سپورٹس' کی مزدور یونین کے سابق صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی فیکٹری ہر ماہ سوشل سکیورٹی کی مد میں 30 لاکھ روپے سے زائد جمع کراتی ہے لیکن محکمہ فیکٹری میں قائم ڈسپینسری کو ماہانہ بمشکل دو لاکھ روپے کی ادویات فراہم کرتا ہے۔
سیالکوٹ میں زیادہ تر انٹرنیشنل برانڈز کے لیے مال تیار ہوتا ہے اور عالمی برانڈ ہر وقت نگرانی کرتے ہیں کہ کہیں ان فیکٹریوں میں مزدوروں کا استحصال تو نہیں ہو رہا۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر صنعتی کارکنوں کی مشکلات دور کرے۔
تاریخ اشاعت 10 جنوری 2024