پشاور سے شمال مشرق میں تقریباً 70 کلومیٹر کی مسافت پر واقع آبادی کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کے دوسرے بڑے شہر مردان سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ صنعت کار وصال خان کو کچھ عرصہ پہلے کاروباری سلسلے میں ہمسایہ ملک چین کی سنگِ مرمر کی فیکٹریوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
وہاں ان کے مشاہدہ میں آیا کہ سنگِ مرمر کی تراش خراش کے دوران پیدا ہونے والے سفوف (پاؤڈر) کی شکل کے کمیائی فضلے سے گرینائٹ نامی مصنوعی پتھر بنایا جاتا ہے۔ ان کے بقول ’’یہ پتھر پاکستان میں بھی درآمد کیا جاتا ہے جو یہاں پیدا ہونے والے قدرتی گرینائٹ سے مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔‘‘
اس کے برعکس پاکستان میں یہی کیمیائی فضلہ ندی نالیوں میں بہا دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف آبی حیات سنگین خطرات سے دوچار ہے بلکہ قدرتی آبی گزرگاہوں میں بہنے والے پانی کے زہر آلود ہونے کی وجہ سے انسانوں اور زرعی زمینوں کو بھی خطرات کا سامنا ہے۔
سمال انڈسٹریز سٹیٹ مردان میں سنگِ مرمر کا ایک کارخانہ چلانے والے وصال خان کہتے ہیں کہ ہم چین سے جدید مشینری درآمد کر کے سنگِ مرمر کی فیکٹری سے نکلنے والے فضلے کو کارآمد بنا سکتے ہیں ’’جس سے نہ صرف آبی اور ماحولیاتی آلودگی کو ختم کیا جا سکتا بلکہ لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر ہوں گے۔‘‘
ماربل انڈسٹریز ایسوسی ایشن مردان کے 65 سالہ رہنما محمد یونس بھی سمجھتے ہیں کہ کیمیائی فضلے کو کارآمد بنانے کے لئے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے سے ہم مصنوعی گرینائٹ درآمد کرنے کی بجائے برآمد کر کرنے کے قابل ہو جائیں گے جس سے ملک کے زرِ مبادلہ میں بھی اضافہ ہو گا۔
مردان میں سمال انڈسٹریز سٹیٹ 1974میں قائم ہوئی جس میں لگے 222 سنگِ مرمر کے کارخانوں کا فضلہ ایک نالے کے ذریعہ کلپانی نامی ندی میں جا گرتا ہے۔ کلپانی ندی آگے جا کر نوشہرہ کے علاقہ کھنڈر میں دریائے کابل سے جا ملتی ہے اور وہاں سے ہوتی ہوئی اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتی ہے۔
سمال انڈسٹریز سٹیٹ مردان کے ڈپٹی ڈائریکٹر سید غالب حسین شاہ نے سُجاگ کو بتایا کہ 800 کنال اراضی پر محیط اس صنعتی احاطہ میں 222 فیکٹریاں کام کر رہی ہیں جبکہ اس میں مزید 44 صنعتی یونٹس لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنگِ مرمر کا کارخانہ لگاتے وقت مالک کو تحریری طور پر اس بات کا پابند کیا جاتا ہے کہ کیمیائی فضلے کو وہ خود ٹھکانے لگائے گا۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ محکمانہ سطح پر تاحال ایسا کوئی نظام وضع نہیں کیا گیا جس سے اندازہ ہو سکے کہ روزانہ کی بنیاد پر کتنا فضلہ کلپانی ندی میں گرایا جاتا ہے۔
پانی کا ہوا ہو جانا
ماحولیات پر ایک بین الاقوامی تحقیقی جریدہ ’انوائرمنٹل ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن‘ کی ویب سائٹ پر موجود ایک تحقیق کے مطابق سمال انڈسٹریز سٹیٹ مردان میں 12 مختلف مقامات سے زیرِ زمین پینے کی پانی کے نمونے لئے گئے جبکہ اس کے ساتھ ماربل فیکٹریوں میں کام کرنے والے چھ مزدورں سے خون کے نمونے بھی لئے گئے۔ ان کے لیبارٹری معائنہ سے ثابت ہوا کہ کارخانوں سے نکلنے والا فضلہ زیرِ زمین پینے میں شامل ہو جاتا ہے جسے بعد میں پینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جس کے انسانی صحت پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں ماربل انڈسٹریز سٹیٹ مردان میں میں فضلے ملے پانی کے لئے ٹریٹمنٹ پلانٹ کو ازحد ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ان کارخانوں کی وجہ سے زیرِ زمین پانی کی سطح بھی روز بروز گرتی چلی جا رہی ہے۔ محکمہ تحفظ ماحولیات کے مردان ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ریاض خان کا کہنا ہے کہ سنگِ مرمر کے تراش خراش کے لئے درکار پانی زمین سے بور کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ ’’اگر اسی طرح سینکڑوں فیکٹریاں زمین سے پانی نکالتی رہیں تو کچھ بعید نہیں کہ آنے والے دنوں میں مردان شہر میں پینے کے پانی بھی میسر نہ ہو۔‘‘
ضلع مردان کے محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کے انجینئر منصور خان کہتے ہیں کہ اس وقت مردان میں پانی کی سطح 30 سے 40 فٹ پر ہے جبکہ 90 کے دہائی میں پانی کی سطح 10 سے 20 فٹ پر تھی۔
ریاض خان کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق ہر ماربل فیکٹری کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک سیفٹی ٹینک بنائے۔ بورنگ سے نکلا ہوا پانی استعمال کے بعد اس سیفٹی ٹینک میں جمع کیا جائے گا۔ اگر کوئی کارخانہ اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
لیکن وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مردان میں نہ تو کبھی کسی سنگِ مرمر کے کارخانے کو جرمانہ کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی کارخانہ کو سیل کیا گیا ہے کیونکہ ’’مردان میں تحفظ ماحولیات کا دفتر چندہ ماہ پہلے ہی قائم ہوا ہے۔‘‘
محکمہ سمال انڈسٹریز کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر سُجاگ کو بتایا کہ ان کے محکمہ کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی کارخانہ کو موحولیاتی آلودگی سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی پر بند نہ کیا جائے۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’کارخانے کی بندش سے لوگ بے روزگار ہو جاتے ہیں۔‘‘
ماہر ماحولیات ڈاکٹر ولایت شاہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں کارخانوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن کارخانے لگانے والوں کو ماحول کا بھی خیال رکھنا ہو گا اور اس کے لئے بنائے گئے قوانین پر عمل بھی کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کارخانہ آبی، فضائی یا زمینی ماحول کو خراب کر رہا ہے تو اس کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’دیکھنے میں آیا ہے کہ متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی پر انوائرمینٹل پروٹیکشن ٹریبونل کارخانہ مالکان کو معمولی سا جرمانہ کرتا ہے۔ جس کے بعد کارخانہ دار ماحول اور آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پتھر پیسنے والے کارخانوں میں موت پھانکتے مزدور: 'یہ کام ہم سب کو کھا گیا ہے'۔
سنگِ مرمر کی صنعت سے پچھلے 10 برس سے وابستہ محمد یونس کہتے ہیں کہ سمال انڈسٹریز سٹیٹ مردان سے سے نکلنے والی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لئے انہوں نے کئی مرتبہ محکمہ سمال اندسٹری کے ڈائریکٹر سے ملاقاتیں کی ہیں ’’لیکن ہمارے ساتھ صرف وعدے کئے جاتے ہیں اور ابھی تک عمل نہیں کیا گیا۔‘‘
ان کی تجویز ہے کہ اگر سمال انڈسٹریز سٹیٹ کے قریب ہی پڑی مردان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی 12 کنال اراضی کو ’’ان کارخانوں کے فضلے کے گرانے کے لئے مختص کر دیا جائے یا اس مقصد کے لئے وہ ہمیں کرایہ پر دے دی جائے تو اس مسئلہ کو احسن طریقہ سے حل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
تاریخ اشاعت 22 دسمبر 2022