'قراقرم ہائی وے پر بڑھتے حادثات کی وجہ کیا ہے، انسانی غلطی یا کچھ اور؟

postImg

عمر باچا

postImg

'قراقرم ہائی وے پر بڑھتے حادثات کی وجہ کیا ہے، انسانی غلطی یا کچھ اور؟

عمر باچا

سجاد حسین ایڈووکیٹ سکردو کے قریب گاؤں کے رہائشی ہیں جو وکالت کے سلسلے میں راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ انہیں ہر ایک یا دو مہینے بعد جب بھی اپنے گاؤں جانا ہوتا ہے تو بس کا سفر کرنا پڑتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ تین مئی کو سکردو جانا تھا تو انہوں نے ایک نجی بس سروس مارکوپولو کی ٹکٹ بک کروائی۔ لیکن وہ راستے میں لیٹ ہو گئے اور جب وہ بس اڈے پر پہنچے تب تک بس روانہ ہو چکی تھی۔

"مجھے اگلے دن پتہ چلا کہ وہ بس رات کو گلگت بلتستان کے علاقہ گونر فارم دیامر میں حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس بس میں 40 سے زائد مسافر موجودتھے، حادثے میں 21 افراد جاں بحق اور باقی شدید زخمی ہوئے۔"

وہ کہتے ہیں، قراقرم ہائی وے پر دو طرح کی بسیں چلتی ہیں، ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کارپوریشن آرگنائزیشن (NATCO) حکومت گلگت بلتستان کی ملکیت ہے جبکہ نجی بسیں پرائیویٹ ٹریولنگ کارپوریشنز کی ملکیت ہیں۔ لیکن نجی کمپنی کی بس ہو یا سرکاری دونوں کی حالت انتہائی ناقص اور عملہ غیر تربیت یافتہ ہوتا ہے۔

"میری آمدنی اتنی نہیں ہے کہ میں جہاز کا مہنگا ٹکٹ خرید کر سکردو جاؤں، اسی لئے قراقرم ہائی وے پر جان کو خطرے میں ڈال کر سفر کرنا پڑتا ہے۔"

 دراصل قراقرم ہائی وے نہ صرف طویل ترین ہے بلکہ یہ انتہائی تنگ ہے اور اس پر خطرناک موڑ بھی ہیں۔ خستہ حال بسیں کسی صورت اس پُر خطر راستے پر سفر کے لیے محفوظ نہیں ہیں۔ سجاد حسین کی یہ کہانی ان ہزاروں لوگوں کا مسئلہ ہے جو شمالی علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔

ریسکیو 1122 گلگت بلتستان کے اعداد و شمارکے مطابق اگست 2016ء سے لیکر جولائی 2023ء تک قراقرم ہائی وے اور بابوسر روڈ پر 462 ٹریفک حادثات ہوئے جن میں 231 افراد جاں بحق جبکہ 601 زخمی ہوئے۔

جنوری سے جولائی 2023ء تک 59 حادثے ہوئے اور چالیس جاں بحق 70 افراد زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ 2021ء میں 82 ٹریفک حادثے قراقرم ہائی وے اور بابوسر روڈ پر پیش آئے جن میں 49 افراد جاں بحق اور 101 مسافر زخمی ہوئے۔

ان حادثات کے پیچھے نہ صرف خستہ حال بسیں اور غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز ہیں بلکہ حکومت کی لاپروائی اور مؤثر پالیسیوں کی کمی بھی ایک بڑا سبب ہے۔

قراقرم ہائی وے پر بڑھتے حادثات کو پبلک ٹرانسپورٹیشن کی مناسب پالیسی کی کمی سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پہاڑی علاقوں میں سڑکوں کی حفاظت کے لیے الگ پالیسیاں بنائی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ 1965ء میں پاکستان ٹرانسپورٹیشن آرڈیننس متعارف کرایا گیا لیکن اس کے بعد اس آرڈیننس میں کسی قسم کی ترمیم یا اضافہ نہیں کیا گیا۔

شاہد خان ، حادثے کا شکار ہونے والی بس میں سوار تھے جو اس حادثے میں شدید زخمی ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بس نے کچھ دیر بشام میں قیام کیا اور اس کے بعد ہنزہ کے لئے روانہ ہو ئی۔

"رات کا وقت تھا زیادہ تر مسافر سو رہے تھے۔ میں بھی آنکھیں موندے بیٹھا تھا کہ اچانک دھماکے کی آواز سنائی دی، ابھی یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ٹائر پھٹا ہے یا کچھ اور ہوا ہے۔ گاڑی بے قابو ہو کر پہلے ایک جانب پہاڑ سے ٹکرائی اور پھر جھٹکے سے دوسری جانب دریا میں جا گری۔"

"ہر طرف سے مسافروں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔رات کی تاریکی میں ہم کئی گھنٹے وہی پڑے رہے مدد کے لیے کوئی نہیں آیا، آہستہ آہستہ آوازیں کم ہوتی گئیں۔"

محکمہ ایکسائز گلگلت بلتستان کے ایک آفیسر شیر بہادر نے حادثے کا شکار ہونیوالے بس کی حادثے سے ایک ہفتہ پہلے کی ویڈیو لوک سجاگ کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بس ایک ہفتہ پہلے راستے میں خراب ہوئی تھی، مسافروں کو تب بھی قدرے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

"اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرانسپورٹ کمپنیاں بسوں کی مرمت یا دیکھ بھال کا خیال نہیں رکھتیں اور مسافروں کی قمیتی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔"

حادثے کے بعد وزیر اعلی گلگت بلتستان کی ہدایت پر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے قراقرم ہائے وے پر ایکسائز افسروں کو تعینات کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر اب کسی بھی گاڑی کو قراقرم ہائی وے پرچلنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
    
سیف اللہ جفق ہنزہ سے تعلق رکھتے ہیں جو 20 سال سے کام کے سلسلے اسلام آباد آنے جانے کے لئے انہی بسوں میں سفر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈرائیوروں کی اکثریت کم عمر اور ناتجربہ کار ہوتی ہے، کچھ کے پاس تو ڈرائیونگ لائسنس ہی نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ حادثات کے بعد حکومت ایسے اعلان کرتی رہتی ہے کہ محکمہ ایکسائز کے افسران کو قراقرم ہائی وے پر تعینات کیا جائے گا، لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟

" لوگ دو نمبری کرکے گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ اور ڈرائیونگ لائسنس بنوا لیتے ہیں۔ کچھ عرصے میں غیر معیاری گاڑیاں سڑکوں پر واپس آ جاتی ہیں اور حادثات کا باعث بنتی ہیں۔"

ہنزہ کے رہائشی دیدار کریم 25 برس تک ٹرانسپورٹ کے کام سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ جنہوں نے سات برس پہلے بس چھوڑ کر ٹیکسی چلانا شروع کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ بس مالکان سے لے کر ڈرائیور تک سب کرپشن کرتے ہیں۔

 "بس مالکان کا مقصد صرف اور صرف پیسے کمانا ہے جو بسوں کی مرمت نہیں کراتے، اوور لوڈنگ کرتے ہیں۔ تو دوسری جانب بسوں کے ڈرائیور قراقرم ہائی وے پر اوور سپیڈنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر گاڑیاں حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔"

ایک اور حادثہ 26 مئی کو مانسہرہ میں ہزارہ موٹر وے پر غذر سے راولپنڈی آنے والی بس کو پیش آیا ۔ بس کھائی میں گرنے کے بعد جل کر خاکستر ہو گئی مگر خوش قسمتی سے تمام مسافر حادثے میں محفوظ رہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق سڑکوں پر ہونے والے 85 فیصد حادثات کے متاثرین کا تعلق متوسط اور غریب خاندانوں سے ہوتا ہے۔ ان حادثات کی بنیادی وجوہات میں پر ہجوم سڑکیں، گاڑیوں کی ناقص حالت اہم ہیں، جبکہ انسانی عوامل میں ڈرائیوروں کی نیند پوری نہ ہونا اور منشیات کا استعمال شامل ہیں۔زیادہ تر واقعات میں 85 فیصد حادثات انسانی غلطیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

سجاد حسین کا کہنا ہے کہ زیادہ تر بسیں خراب اور خستہ حال تو ہیں ہی لیکن رہی سہی کسر بسوں کی چھتوں پر بھاری سامان لاد کر پوری کر دی جاتی ہے۔ جب بس کو پہاڑی چڑھائی پر جانا ہوتا ہے تو انجن کام کرنا بند کر دیتا ہے، بعض اوقات تو اوور لوڈنگ کی وجہ سے بس ڈرائیور کے قابو میں نہیں رہتی اور حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نیا کسٹم نظام: خنجراب پاس تو کھل گیا لیکن گلگت بلتستان کے مقامی تاجروں کی قسمت پر تالا پڑ گیا

رفیق الرحمن مارکوپولو کمپنی میں بطور ڈرائیور کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کمپنی بھرپور کوشش کرتی ہے کہ طویل سفر سے پہلے گاڑی مکمل طور پر تیار ہو، مہینے میں دو سے تین بار مرمت بھی کی جاتی ہے۔

"اب حادثہ ہونا یا نہ ہونا اللہ کی مرضی ہوتی ہے اس میں کمپنی یا ڈرائیور کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔"

"محکمہ ایکسائز کے پاس ہماری کمپنی کی جس گاڑی کے خراب ہونے کی ویڈیو ہے، ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ وہ پرانے ماڈل کی گاڑی تھی، لیکن اب وہ لوگ اسے پراپیگنڈہ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔"

دیامر گونر فارم حادثے کے بعد وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے وفاق کو ایک درخواست کی ہے کہ شاہرائے قراقرم پر حادثات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس روڈ پر موٹروے پولیس کو تعینات کیا جائے تاکہ روڈ سیفٹی کے قوانین پر عمل درآمد کو ممکن بنایا جا سکے۔

حکومت گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وزیر اعظم نے وزیر اعلٰی گلگت بلتستان کی درخواست کو منظور کر لیا ہے لیکن اس پر فی الحال عملی اقدامات نہیں کیے گئے، امید ہے جلد اس پر عمل درآمد بھی کیا جائے گا۔  

وہ بتاتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ نے گونر فارم حادثے کیلئے انکوائری کا حکم دیا ہے جو جلد مکمل ہو جائے گی اور واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی بھی ہو گی۔

تاریخ اشاعت 8 جون 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

لیپ آف فیتھ: اقلیتی رہنماؤں کے ساتھ پوڈ کاسٹ سیریز- جیا جگّی

thumb
سٹوری

چراغ تلے اندھیرا: سندھ میں شمسی توانائی کا 'انوکھا' منصوبہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

پنجاب: زرعی ٹیوب ویلوں کو سولر پر چلانے کے منصوبے پر ماہرین کیوں تقسیم ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

تھر کول منصوبہ: ٹھیکیدار اور کمپنیاں رہ جائیں گی، تھر کے باسی نکال دیے جائیں گے

thumb
سٹوری

خیبرپختونخوا میں وفاقی حکومت کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کس حال میں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
thumb
سٹوری

ملک میں بجلی کی پیداوار میں "اضافہ" مگر لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

سولر توانائی کی صلاحیت: کیا بلوچستان واقعی 'سونے کا اںڈا دینے والی مرغی" ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحبیبہ زلّا رحمٰن
thumb
سٹوری

بلوچستان کے ہنرمند اور محنت کش سولر توانائی سے کس طرح استفادہ کر رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
thumb
سٹوری

دیہی آبادی کے لیے بجلی و گیس کے بھاری بلوں کا متبادل کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعزیز الرحمن صباؤن
thumb
سٹوری

چمن و قلعہ عبداللہ: سیب و انگور کے باغات مالکان آج کل کیوں خوش ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceحضرت علی

اوور بلنگ: اتنا بل نہیں جتنے ٹیکس ہیں

thumb
سٹوری

عبدالرحیم کے بیٹے دبئی چھوڑ کر آواران کیوں آ گئے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشبیر رخشانی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.