محمد بلال نے پچھلے سال غیرقانونی طریقے سے یورپ جانے کی کوشش کی لیکن دو لاکھ روپے سے زیادہ رقم خرچ کرنے اور 50 روز ذلیل و خوار ہونے کے بعد وہ اس میں ناکام رہے اور اب تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا یہ اقدام صحیح نہیں تھا کیونکہ اس میں ان کی جان بھی جا سکتی تھی۔
وہ اپنے دو بڑے بھائیوں اور والدہ کے ہمراہ پشاور کے علاقے سرکی میں دو مرلے کے مکان میں رہتے ہیں۔ جب 2013 میں انہوں نے آٹھویں جماعت پاس کی تو ان کے خاندان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ مزید تعلیم حاصل کر پاتے۔ چنانچہ پڑھائی چھوڑ کر وہ اپنی خاندانی دکان پر موٹرسائیکلوں کی تزئین و آرائش کے کام میں اپنے بڑے بھائیوں کا ہاتھ بٹانے لگے۔
چونکہ اس کاروبار میں آمدن بہت محدود ہے اس لیے پچھلے سال انہوں نے اپنے کچھ دوستوں سے مل کر چوری چھپے یورپ جانے کا منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ وہاں جا کر انہیں اچھی نوکری مل جائے گی جس سے ان کے خاندان کے دن پھر جائیں گے۔ تاہم ان کی والدہ کہتی ہیں کہ "میں نے اسے بارہا منع کیا کہ وہ اس طریقے سے بیرون ملک جانے کی کوشش نہ کرے لیکن اس نے میری بات نہ مانی"۔
اس مخالفت کے باوجود محمد بلال نے اپنے بڑے بھائی کو آمادہ کر لیا کہ وہ اس مقصد کے لیے دو لاکھ روپے کا انتظام کریں کیونکہ ایک ایجنٹ یہ رقم لے کر انہیں ترکی پہنچانے پر تیار تھا۔ ان میں سے 50 ہزار روپے انہیں ایران پہنچنے پر دینا تھے جبکہ ڈیڑھ لاکھ روپے ترکی پہنچنے پر ادا کرنا تھے۔
یہ انتظامات مکمل کرنے کے بعد وہ 25 جولائی 2021 کو اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ پشاور سے روانہ ہوئے۔ ان کی پہلی منزل کوئٹہ تھی جہاں سے ایجنٹ کے مقامی نمائندے انہیں ایک بس میں بٹھا کر ایک صحرائی علاقے میں لے گئے۔ وہاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے 40 افراد اور چند افغان شہری پہلے سے ہی موجود تھے۔ ایجنٹ کے نمائندوں نے انہیں تین گروہوں میں تقسیم کر کے بسوں اور ٹرکوں میں ڈالا اور بلوچستان کے مغربی قصبے تافتان کے پاس واقع پاک-ایران سرحد کی جانب روانہ کر دیا۔
انہیں وہاں پہنچنے میں کئی روز لگ گئے کیونکہ مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کی حفاظتی چوکیوں سے بچنے کے لیے وہ کچے پکے صحرائی راستوں پر سفر کر رہے تھے۔ تافتان پہنچ کر انہوں نے ایک ویران علاقے میں واقع دشوار گزار پہاڑی راستے سے پیدل سرحد عبور کی اور ایران میں داخل ہو گئے۔
محمد بلال کہتے ہیں کہ ایران میں ان کے پہلے پڑاؤ پر عورتوں اور بچوں سمیت تقریباً دو ہزار افراد رکے ہوئے تھے کیونکہ دو روز پہلے سرحد پار کرنے والے ایک گروہ پر ایران کی بارڈر سکیورٹی فورس نے فائرنگ کر دی تھی جس سے آٹھ افراد ہلاک اور 20 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔
دو راتیں وہاں گزارنے کے بعد انہوں نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا اور ساڑھے تین گھنٹے کی مسافت پیدل طے کرنے کے بعد ایک صحرائی علاقے میں پہنچے جہاں انہیں ایجنٹ کے نئے نمائندوں کے سپرد کر دیا گیا۔ محمد بلال کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی اس جگہ سے ڈیڑھ ہزار روپے فی فرد کرایہ دے کر موٹرسائیکلوں کے ذریعے اگلی منزل پر پہنچے جہاں 70 افراد کو دو ٹرکوں میں بٹھا کر مزید آگے روانہ کر دیا گیا۔
ان کے مطابق اونچے نیچے راستوں پر کیا جانے والا یہ سفر اتنا تکلیف دہ تھا کہ اس کے دوران ہچکولے لگنے اور گر جانے سے ان کے ہاتھ کی انگلی شدید زخمی ہو گئی جبکہ ان کے ایک دوست کے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ان مشکل حالات میں سفر کرتے ہوئے وہ ایک قصبے میں پہنچے جہاں ان میں سے 16 افراد کو ایک ہی کار میں ٹھونس دیا گیا۔ چونکہ محمد بلال دبلے پتلے سے ہیں اس لیے انہیں دو دیگر افراد کے ساتھ ڈِکی میں لٹایا گیا جس میں ہوا کی آمدورفت کے لیے ایک چھوٹا سا سوراخ بنایا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ تقریباً 20 گھنٹے اس طرح سفر کرنے کے بعد وہ ایران شار نامی جگہ پہنچے جہاں سے انہوں نے اپنے گھر والوں کو فون کر کے اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ اس مقام سے آگے جانے کے لیے انہیں ایک بس کے خفیہ خانے میں بند کر دیا گیا جس میں تقریباً 20 گھنٹے سفر کرنے کے بعد وہ ایران کے شہر شیراز پہنچے۔ ان کے مطابق اس سفر کے دوران انہیں اور ان کے ساتھیوں کو سانس لینے میں مسلسل دشواری پیش آتی رہی جس کی وجہ سے ان کے ساتھ بند چھ افراد بے ہوش ہو گئے اور باقیوں کی حالت بھی بہت خراب ہوگئی۔
ان کی اگلی منزل تہران تھی جہاں انہیں ایک کار میں جانا تھا۔ محمد بلال کہتے ہیں کہ اس دفعہ ڈِکی میں سفر کرنے سے بچنے کے لیے انہوں نے کار کے ڈرائیور کو کچھ رقم دی اور اگلی سیٹ پر جگہ حاصل کر لی۔ تقریباً 10 گھنٹے بعد جب وہ تہران کے قریب پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اس میں داخل ہونے کے لیے انہیں کچرا اٹھانے والے ٹرکوں میں سفر کرنا ہو گا۔ تاہم انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پانچ لاکھ ایرانی تومان (تقریباً 27 سو روپے) میں ایک اور گاڑی کا انتظام کیا اور تہران پہنچ گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ تہران سے ترکی کی سرحد کا سفر انہوں نے دوبارہ ایک کار کی ڈکی میں کیا۔ لیکن جب 15 اگست 2021 کو وہ سرحد پر پہنچے تو انہیں پتہ چلا کہ طالبان کے کابل پر قبضے اور افغانستان سے بڑی تعداد میں لوگوں کی ممکنہ ہجرت کے خدشے کے پیش نظر ترکی نے اپنی سرحد مکمل طور پر بند کر رکھی ہے چنانچہ اسے عبور کرنا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر محمد بلال اور ان کے دوستوں کی ہمت جواب دے گئی۔ چنانچہ انہوں نے ترکی جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور تہران واپس آ گئے۔ (اس کے باوجود پشاور میں ان کے بھائی کو ڈیڑھ لاکھ روپے ایجنٹ کو دینا پڑے کیونکہ، اس کے بقول، وہ ان کے ترکی جانے کے انتظامات کر چکا تھا۔)
تہران میں انہوں نے خود کو افغان شہری ظاہر کرتے ہوئے ایرانی حکام کے حوالے کر دیا جنہوں نے انہیں غیرقانونی تارکین وطن کے لیے بنائے گئے ایک کیمپ میں بند کر دیا۔ کچھ روز بعد اس کیمپ سے تقریباً 12 سو لوگوں کو بسوں میں بٹھا کر افغانستان کے مغربی شہر ہرات کے قریب طالبان حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ محمد بلال بھی ان میں شامل تھے۔
افغانستان پہنچ کر وہ ہرات سے اپنی مدد آپ کے تحت کابل روانہ ہوئے کیونکہ وہاں ان کی بہن بیاہی ہوئی ہیں۔ بہن کے گھر پہنچنے کے بعد انہوں نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا جہاں موجود اہل کاروں نے ان کا قومی شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں پاکستان جانے کی اجازت دے دی۔
پشاور واپس آنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنی دکان پر کام کرنے لگے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ آئندہ کبھی غیرقانونی طریقے سے پاکستان سے باہر جانے کا سوچیں گے بھی نہیں۔
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
محمد بلال کی طرح ہر سال ہزاروں پاکستانی چھپ چھپا کر ایران کے راستے ترکی جانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہاں سے کسی نہ کسی طرح یورپ پہنچ سکیں۔ اس سفر کے دوران درجنوں افراد جغرافیائی رکاوٹوں اور موسم کی سختیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ بہت سے دیگر لوگ ایران اور ترکی کی سرحدوں پر وہاں کی سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ جو لوگ کسی نہ کسی طرح یورپ میں داخل ہو جاتے ہیں انہیں وہاں قانونی قیام کی اجازت نہیں ملتی اور وہ ہزاروں کی تعداد میں یا تو یونان اور بلغاریہ جیسے ملکوں میں قائم کیے گئے حراستی کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں یا غیرقانونی طور پر اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کے ہاں ٹھہرے ہوتے ہیں۔
صرف یونان میں 60 ہزار سے زیادہ ایسے غیرقانونی پاکستانی تارکینِ وطن موجود ہیں۔ یہ انکشاف اِس سال سات فروری کو پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے یونان کے ایک سرکاری وفد نے اُس وقت کے سمندر پار پاکستانیوں کے امور کے وزیر ایوب آفریدی کے ساتھ ایک ملاقات میں کیا تھا۔ اِس وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ ان پاکستانیوں کی اکثریت ایران اور ترکی کے راستے ان کے ملک میں پہنچی تھی۔
پشاور میں متعین وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے انسدادِ انسانی سمگلنگ سیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد آفتاب بٹ کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے والے ایجنٹ انہیں راستے میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں سچ نہیں بتاتے۔ اس لیے، ان کے مطابق، ان میں سے زیادہ تر کو علم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں یورپ جانے کے لیے کس قسم کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے اس انسانی سمگلنگ کو دو طرح سے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ "ایک تو ہم مختلف ذرائع سے ملنے والی شکایات پر کارروائی کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہم اپنے طور پر بھی ایسے لوگوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو لوگوں سے پیسے لے کر انہیں غیرقانونی طریقے سے باہر بھجوانے میں ملوث ہوتے ہیں"۔
ان کے مطابق 2021 میں ان کے ادارے کو اس حوالے سے مجموعی طور پر تین سو 78 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے تین سو 28 پر تحقیقاتی کارروائی کی جا چکی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2021 میں خیبر پختونخوا میں انسانی سمگلنگ میں ملوث چار سو لوگوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے جن کے نتیجے میں تین سو 69 افراد کو گرفتار کیا گیا اور تین سو 55 کو عدالتوں کی طرف سے سزائیں دی گئیں۔
لیکن یہ سرکاری اقدامات واضح طور پر انسانی سمگلنگ کی روک تھام میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ اس معاملے پر پاکستانی اور یورپی حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک غیرسرکاری ادارے سوسائٹی فار ہیومن رائٹس اینڈ پرزنرز ایڈ (شارپ) کے چیف ایگزیکٹو مدثر جاوید کے مطابق اس ناکامی کی وجہ انسانی سمگلروں کا باہمی ربط اور اثرورسوخ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر قانونی طریقے سے پاکستانیوں کو دوسرے ملکوں میں پہنچانے والے ایجنٹ "ایک مافیا کی شکل میں کام کرتے ہیں اس لیے پاکستان، ایران، ترکی، یونان اور دیگر ممالک میں ان کا ایک مربوط نیٹ ورک موجود ہوتا ہے"۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے ملنے والی اطلاعات کی وجہ سے "اول تو یہ لوگ کبھی پکڑے ہی نہیں جاتے اور اگر کوئی سرکاری ادارہ ان پر ہاتھ ڈال ہی دے تو وہ اپنے تعلقات اور پیسے کے بل بوتے پر کڑی سزاؤں سے بچ نکلتے ہیں"۔
تاریخ اشاعت 10 اگست 2022