پشاور میں ہسپتالوں کے خطرناک فضلے کی گلیوں بازاروں میں کھلے عام خریدوفروخت

postImg

اسلام گل آفریدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

پشاور میں ہسپتالوں کے خطرناک فضلے کی گلیوں بازاروں میں کھلے عام خریدوفروخت

اسلام گل آفریدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

پشاور میں رہنے والے افغان مہاجر جاوید علی پچھلے پندرہ سال سے کباڑ کی چھانٹی کا کام کررہے ہیں۔ دو سال پہلے انہیں ہیپاٹائٹس سی لاحق ہو گیا تھا جس سے لڑنے کے بعد وہ حال ہی میں صحت یاب ہوئے ہیں۔ اپنی بیماری کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ مرض کباڑ میں آنے والے سامان سے لاحق ہوا تھا۔

جاوید بتاتے ہیں کہ ان کے گودام میں جو کچرا آتا ہے اس میں طبی فضلہ جیسا کہ پلاسٹک کی بوتلیں، ڈرپس اور سرنجیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ کباڑ کی چھانٹی کے دوران وہ کئی بار استعمال شدہ سرنجیں چبھ جانے زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ انہی آلودہ سرنجوں کی وجہ سے انہیں ہیپاٹائٹس لاحق ہوا۔ صحت یابی کے بعد اب وہ صرف پلاسٹک کا عام کباڑ اور کاغذ ہی چھانٹتے ہیں اور خود کو طبی فضلے سے دور رکھتے ہیں۔

ان کے قریب ہی یہی کام کرنے والے ایک اور افغان مہاجر سلطان محمد کے لیے ہسپتالوں کا کچرا قدرے بہتر کمائی کا ذریعہ ہے۔ وہ حیات آباد، رنگ روڈ کے قریب برساتی نالے میں پھینکے جانے والے کچرے کی چھانٹی  کرتے ہیں۔ کبھی کبھار انہیں یہاں استعمال شدہ سرنجیں، ڈرپ اور جراحی کے آلات بھی مل جاتے ہیں جنہیں وہ 160 روپے فی کلو تک بیچ سکتے ہیں جبکہ گتے، کاغذ اور عام پلاسٹک کا کچرا بیچنے سے انہیں فی کلو بمشکل چالیس سے ساٹھ روپے ملتے ہیں۔

انہوں ںے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک رات کے تاریکی میں چند لوگ گاڑی بھر کر طبی فضلہ لاکر یہاں ڈال جاتے تھے جس سے وہ قابل فروخت اشیا اکٹھی کرکے بیچ دیتے تھے تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کچرے میں کمی آئی ہے، تاہم جہاں پرائیوٹ کلینک اور میڈیکل لیبارٹریاں ہوں وہاں کچرے کے ڈبوں سے استعمال شدہ طبی ساز و سامان اب بھی مل جاتا ہے۔

پشاور کے علاقے ڈبگری گارڈن کی وجہ شہرت یہاں برطانوی راج کے زمانے کے بنائے ہوئے مشنری ہسپتال کی گنبد نما عمارت ہے۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں میں اس کے آس پاس درجنوں چھوٹے نجی ہسپتال، کلینک، لیبارٹریاں اور میڈیکل سٹورز بھی قائم ہو گئے ہیں جہاں صوبے بھر سے لوگ علاج معالجے کے لیے آتے ہیں۔

یہاں ایک نجی ہسپتال کے ملازم نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اکثر جگہوں پر استعمال شدہ طبی سازسامان انہی ہسپتالوں اور کلینکس پر کام کرنے والا عملہ جمع کر کے کباڑیوں کو بیچ دیتا ہے۔ بعض استعمال شدہ چیزیں کوڑے دان میں ڈال دی جاتی ہیں جہاں سے انہیں کچرا چننے والے بچے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔

اندرون شہر پشاور کے گنجان علاقے شاہ ڈھنڈ میں پچیس سال سے کباڑ کا کام کرنے والے حضرت گل کہتے ہیں کہ کچرا چننے والے ان کے پاس ہسپتالوں کا استعمال شدہ سامان بھی لاتے ہیں۔ ان کے ہاں ماہانہ ایسا پانچ  سے چھ سو کلو کچرا آتا ہے جسے وہ 160 روپے فی کلو کے حساب سے خرید کر 210 روپے فی کلو میں بیچ دیتے ہیں۔

تحفظ ماحولیات ایکٹ 1997کے تحت سرکاری اور نجی دونوں طرح کے تمام چھوٹے بڑے طبی مراکز سے نکلنے والے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مخصوص قوانین موجود ہیں اور اس پورے عمل کی نگرانی کی قانونی ذمہ داری تحفظ ماحولیات کے ادارے کی ہے۔

خیبر پختونخوا میں ادارے کے شعبہ تحقیق، ترقی و رابطے کے سربراہ رمضان علی کا کہنا ہے کہ سپتالوں میں طبی فضلے کو درست طور سے تلف نہ کیا جائے تو اس سے انسانی زندگی کو خطرہ لاحق لاحق رہتا ہے۔ اس فضلےکو کھلی فضا میں پھینک دینے سے نباتات اور چرند پرند بھی متاثر ہوتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی بھی خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے۔

وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تمام بڑے سرکاری یا نجی ہسپتالوں سے خارج ہونے والے ہر قسم کے کچرے کی پوری طرح چھان بین کی جاتی ہے تاکہ ماحول کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔

طبی مراکز میں تین الگ رنگوں (نیلے، سرخ اور زرد رنگ) کے کوڑے دان نصب کرنا لازمی ہے،  نیلے رنگ کا کوڑے دان مونسپل کچرا جیسا کہ مشروبات کی بوتلوں، شاپنگ بیگز، لفافے اور کاغذات وغیرہ کے لیے ہوتا ہے۔ سرخ رنگ والا کوڑے دان علاج کے دوران زیر استعمال تیز دھار آلات جیسے انجکش، ٹوٹی بوتلوں، شیشے، ریزر بلیڈز، فلاسک اور ٹیسٹ ٹیوب وغیرہ کے لیے جبکہ زرد رنگ کے کوڑے دان میں جراثیم زدہ مواد جیسا کہ خون کی تھیلیاں، استعمال شدہ دستانے، زخموں سے ہٹائی گئی پٹیاں اور کپڑا اور ڈرپس وغیرہ پھینکی جاتی ہیں۔

رمضان علی کے مطابق ہر بڑے طبی مرکز کیلئے قانون کے مطابق انسنریٹر نصب کرنا لازمی ہے جن میں مونسپل کچرے کے علاوہ باقی فضلے کو جلاکر راکھ میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ تاہم اگر کسی ہسپتال کے پاس اپنا بندوبست نہ ہو تو کسی نجی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرکے اس کا انتظام کر لیا جاتا ہے۔ درج بالا دونوں صورتوں میں ادارہ ان ہسپتالوں سے ریکارڈ طلب کرتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ فضلہ مکمل طور پر ٹھکانے لگا دیا گیا ہے۔

پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلکس کے پاس اپنا انسنریٹر موجود ہے جبکہ خیبر ٹیچنگ ہسپتال نے اس سلسلے میں پندرہ لاکھ روپے ماہانہ کے عوض ایک کمپنی کے خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ تاہم شہر کے بہت سے سرکاری و نجی طبی مراکز ناصرف اس سہولت کے بغیر چل رہے ہیں بلکہ وہاں طبی فضلے کو بنیادی نوعیت کی احتیاط کے ساتھ ٹھکانے لگانے پر بھی توجہ نہیں دی جاتی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

نارووال میں طبی فضلے کی خریدوفروخت: خطرناک بیماریاں ہسپتالوں سے گھروں میں پہنچ رہی ہیں

طبی ماہر ڈاکٹر عائشہ مقبول نے استعمال شدہ طبی سامان کو طے شدہ اصولوں کے مطابق تلف کرنے کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ آج کل ویسٹ منجمنٹ کو میڈیکل کی تعلیم میں ایک اہم مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔

اس کچرے یا فضلے کو باقاعدہ طور پر تلف کرنے کے بجائے ری سائیکل کرنا نہایت خطرناک ہے، کیونکہ اسے جمع کرنے، ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے اور اس کی چھانٹی کے دوران خون آلود تیز دھار اور نوکیلی چیزوں سے زخمی ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہوتے ہیں جن سے ہیپاٹائٹس سی، ایڈز اور دیگر خطرناک بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

رمضان علی کے مطابق ان کا ادارہ پورے صوبے خصوصاً پشاور میں سرکاری اور نجی طبی مراکز کی خود نگرانی کرنے کے علاوہ عام لوگوں کی طرف سے موصول ہونے والی شکایات پر بھی کارروائی کرتا ہے۔ادارے کو حاصل قانونی اختیار کے مطابق خلاف ورزی یا شکایات کی نوعیت دیکھ کر پچاس ہزار سے سات کروڑ تک جرمانہ کیاجاسکتا ہے اور ضوابط کی سنگین خلاف ورزی پر ہسپتال کا کلینک کو سیل بھی کیا جاتا ہے۔

تاریخ اشاعت 17 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.