مہاراج دیا رام میرپور خاص کے علاقے ستار نگر کے رہائشی ہیں۔ وہ ہندو پنڈت ہیں اور پچھلے 20 برس سے دیگر مذہبی رسومات کے ساتھ میگھواڑ کمیونٹی میں شادیاں کرواتے آ رہے ہیں۔ مگر کچھ عرصے سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ شادی شدہ جوڑے ان سے میرج سرٹیفکیٹ مانگ رہے ہیں۔ مگر دیا رام کو سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی تکنیکی معلومات کا علم نہیں۔
سندھ میں ہندوؤں کی شادیوں کا باضابطہ قانون بن چکا ہے جس کے تحت پنڈت بھی رجسٹرڈ ہوں گے اور رجسٹرڈ پنڈت ہی میرج سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے، دیا رام کو کچھ عرصہ پہلے ہی اس قانون کا علم ہوا ہے۔
2023ء کی مردم شماری کے مطابق سندھ میں 41 لاکھ سے زائد ہندو آبادی ہے، تاہم پاکستان ہندو کونسل کا دعویٰ ہے کہ ہندو کمیونٹی 50 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔
صوبے میں ہندوؤں کی شادی پر سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018ء منظور ہو چکا ہے مگر ہندو کمیونٹی کی اکثریت اور پنڈت سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز اس امر سے لاعلم یا قانون کی جزیات سے ناواقف ہیں۔
یہ ایکٹ پاس کروانے کے لیے جدوجہد کرنے والے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رائٹس کے ممبر ایم پرکاش پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔
ایم پرکاش حیدرآباد ڈسٹرکٹ ہندو پنچائت کے سرپرست بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھ میں 2016ء کے دوران سندھ اسمبلی نے ہندو میرج رجسٹریشن ایکٹ پاس کیا تھا۔
دو سال بعد اس قانون میں ترمیم کی گئی اورسندھ ہندو میرج ترمیمی ایکٹ 2018ء وجود میں آیا جو ایک مکمل عائلی قانون ہے جس کے رولز بھی بن گئے ہیں۔ اس سے پہلے خاص طور پر سندھ میں آباد ہندو کمیونٹی کی نہ تو شادیاں رجسٹر ہوتی تھیں، نہ ہیں انہیں قانونی تحفظ حاصل تھا۔
"اس قانون کے مطابق 45 روز میں ہندو جوڑے کی شادی رجسٹرڈ کروانا لازمی ہے۔ یہ قانون بننے سے قبل ہونے والی شادیاں بھی اسی قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوں گی۔"
انھوں نے بتایا کہ پنڈت کی رجسٹریشن یونین کونسل کی سطح پر ہو گی۔ سندھ لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران کو پنڈتوں کی رجسٹریشن کرنے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ ہر یونین کونسل میں ہندو آبادی کے حساب سے ایک یا زیادہ پنڈت رجسٹرڈ ہو سکتے ہیں جومیرج سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ 2018ء سے ہندو عورتوں کو اور بھی کئی فائدے حاصل ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر اس قانون سے ہندو برادریوں میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام ممکن ہے کیوں کہ اس کے مطابق شادی کے لیے ہندو لڑکی کی کم ازم کم عمر 18برس ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
"سندھ میں رہنے والی ہندو عورتوں کو پہلی بار دوسری شادی کا حق دیا گیا ہے۔ ہندو عورت کو اپنے شوہر سے خلع لینے کا حق بھی حاصل ہو گیا ہے۔"
پنڈتوں کی رجسٹریشن کیوں نہیں ہو رہی؟
سندھ ہندو میرج ایکٹ کے تحت سندھ کی تمام ضلع کونسلز، تحصیل کونسلز، ٹاؤن کونسلز اور یونین کونسلز میں پنڈتوں کی رجسٹریشن کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے باوجود پنڈتوں کی رجسٹریشن کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
اس سلسلے میں ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ حیدرآباد ڈویژن حبیب اللہ صدیقی کا کہنا ہے کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ کے تحت محکمہ بلدیات کو پنڈتوں کی رجسٹریشن کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور ان کا محکمہ قواعد کے مطابق عمل درآمد کرنے کا پابند ہے، مگر کمیونٹی رجسٹریشن کی طرف مائل نہیں ہے۔
ان کے مطابق ہندو کمیونٹی کی اکثریت کو اس قانون کا علم نہیں ہے اس لیے پہلے انھیں آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
"ہم تو رجسٹریشن کے لیے موجود ہیں مگر پنڈت بہت کم آ رہے ہیں۔"
اس معاملے پر پنڈت حضرات کی رائے مختلف ہے۔
مہاراج دیا رام کہتے ہیں کہ انہوں نے میرپور خاص میونسپل کارپوریشن کے میونسپل کمشنر کو جون 2023ء میں درخواست دی تھی کہ انھیں پنڈت رجسٹر کیا جائے لیکن رجسٹرڈ کرنے کا نوٹیفکیشن اکتوبر2023ء میں جاری کیا گیا۔ ان کے خیال میں اس کا سبب یہ تھا کہ میونسپل افسر کو علم ہی نہیں تھا کہ یہ رجسٹریشن کیسے ہو گی اور نوٹیفکیشن میں کیا تحریر کیا جائے گا۔
"میونسپل افسر نے بار بار دفتر کے چکر لگوانے کے چار ماہ بعد پنڈت اجازت نامہ جاری کیا۔"
مہاراج دیا رام نے بتایا کہ ان کی رجسٹریشن تو ہو گئی ہے مگر ان کے جاری کردہ میرج سرٹیفکیٹ پر لگنے والی مہر پر کیا لکھوانا ہے، یہ کوئی نہیں بتا رہا۔
مہاراج کشور کمار سارسوت بھی ہندو پنڈت ہیں اور ان کا بنیادی تعلق تھرپارکر سے ہے، جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ پرعمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا ؟ تو انہوں نے بھی اس معاملے پر اپنے کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔
مہاراج کشور کے مطابق اس قانون پر سو فی صد عمل کی راہ میں کچھ رکاوٹیں اور پیچیدگیاں ہیں ان کو حل کیا جائے، وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے پنڈتوں کی رجسٹریشن کی فیس تمام اضلاع میں یکساں مقرر کی جائے، محکمہ بلدیات کا زیادہ تر عملہ ہندو میرج ایکٹ سے ناواقف ہے ان کو سینسٹائزڈ کیا جائے، پنڈتوں کی سروے کر کے ان کو میرج سرٹیفکیٹ کا فارمیٹ فراہم کیا جائے جو نادرا کیلئے قابل قبول ہو، ان اقدامات سے اس قانون کا استعمال تیز ہو گا۔ اس وقت محکمہ بلدیات کے ٹائون اور یوسیز کی سطح پر مقرر افسران اور پنڈتوں کے درمیان کمیونیکیشن گیپ ہے، اس لئے ہندو میرج ایکٹ پر عمل سست ہے۔
یہ بھی پڑھیں
سندھ ہندو میرج ایکٹ: 'شیڈولڈ کاسٹ ہندو عورتوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ قانونی طریقے سے طلاق لے سکتی ہیں'۔
ایک سروے کے مطابق سندھ کے مختلف اضلاع میں پنڈتوں کی رجسٹریشن فیس بھی مختلف ہے، ضلع میرپورخاص میں یہ فیس پانچ ہزار روپے وصول کی جا رہی ہے جس کو بہت زیادہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ضلع عمرکوٹ میں پنڈت کی رجسٹریشن فیس ایک ہزار روپے مختص ہے، ضلع سانگھڑ کی یوسیز اور ٹائون کمیٹیوں میں دو ہزار سے پانچ ہزار روپے فیس وصول کی جا رہی ہے، ضلع ٹنڈوالہیار میں سب سے کم فیس مقرر کی گئی ہے حال ہی میں ضلع ٹنڈوالہیار کی ٹائون کمیٹی سلطان آباد میں ایک پنڈت کو رجسٹرڈ کرنے کی فیس پانچ سو روپے وصول کی گئی جس کو مناسب قرار دیا گیا ہے۔ بعض پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وہ بھاری فیس کے باعث بھی رجسٹرڈ نہیں ہو پا رہے۔
حبیب اللہ صدیقی کا کہنا ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت لوکل کونسلیں اپنے ٹیکس اور فیسیں مقرر کرنے میں آزاد ہیں، اسی لیے رجسٹریشن فیس الگ الگ مقرر ہے۔
پاکستان کی سطح پر اقلیتوں کے معاملات پر کام کرنے والے نیشنل لابنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹیز کے رکن کرشن شرما کا کہنا ہے کہ سندھ ہندو میرج ایکٹ کے متعلق عوامی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
"یہ وہ دستاویز ہے جس کے ذریعے جبری مذہب تبدیلی کے واقعات کی روک تھام ہو سکے گی، ہندو بچوں کی دیکھ بھال اور جائیداد میں حصہ دینے کے مسائل قانونی طریقے سے حل ہوں گے۔ اس کے تحت ریاست نے ہندو کمیونٹی کو تحفظ دیا ہے۔"
انہوں نے بتایا کہ قومی اسمبلی سے بھی ہندو میرج ایکٹ 2017ء پاس ہو چکا ہے مگر ابھی تک پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اس قانون کے رولز نہیں بن سکے۔
اس طرح سے یہ قانون پاس ہونے کے باوجود ان دو صوبوں میں لاگو نہیں ہو رہا۔
ان کا ماننا ہے کہ قانون پر عمل درآمد کے لیے پہلے مرحلے میں سندھ حکومت لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کے متعلقہ افسران کو تربیت فراہم کرے۔ اس کے بعد ہندو پنڈتوں کے ساتھ آگاہی نشستوں کا انعقاد کیا جائے اورانھیں رہنمائی فراہم کی جائے۔
تاریخ اشاعت 14 دسمبر 2023