14 سالہ پروین بند روڈ لاہور کے قریب خانہ بدوشوں کی بستی میں رہتی ہیں۔ان کی پیدائش راوی کنارے اسی خیمہ بستی میں ہوئی تھی۔ ان کا خاندان کم وبیش 25 سال سے یہیں آباد ہے۔ وہ نوعمر ہیں اور بہت کمزور دکھائی دیتی ہیں۔
انہیں نو سال کی عمر میں ماہواری شروع ہو گئی تھی۔ سردیوں کے دن تھے اور اس وقت وہ بستی کی لڑکیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس دوران انہیں ٹانگوں میں اچانک درد شروع ہوگیا۔ وہ اپنی جھوپڑی میں واپس آگئیں اوراپنی والدہ کو درد کا بتایا۔
والدہ نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ آرام کرو، ٹھیک ہوجاؤ گی۔ لیکن جب ماہواری شروع ہوئی تو وہ خوف زدہ ہو گئیں۔ ان کی والدہ نے انہیں کپڑا استعمال کرنے کو دیا اور ٹھنڈی چیزیں کھانے، نہانے اور کھیلنے سے روک دیا۔
تب سے پروین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ انہیں ڈاکٹرکے پاس نہیں لے جایا گیا اور وہ گھریلو ٹوٹکوں سے اپنا علاج کر رہی ہیں۔ ان کے چیرے پر دانے اور چھائیاں ہیں۔ وہ امید کرتی ہیں کہ انہی ٹوٹکوں کی بدولت یہ ختم ہو جائیں گی اور خون کی کمی بھی دور ہو جائے گی۔
نذیر غازی خانہ بدوشوں کی فلاح وبہبود کے لئے سرگرم تنظیم 'گود' کے سربراہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ خانہ بدوش خواتین نسوانی صحت پر بات کرنا معیوب سمجھتی ہیں جس کا نتیجہ کئی طرح کے جسمانی مسائل کی صورت میں نکلتا ہے۔
"ان کے ہاں باقاعدہ واش روم نہیں ہوتے۔ پانی کی قلت کی وجہ سے یہ لوگ کئی کئی دن نہاتے ہی نہیں۔ اس لیے ان خواتین میں بیماریاں عام ہیں۔"
نذیر غازی کہتے ہیں خانہ بدوشوں کی اکثریت کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ اس لیے یہ لوگ کسی بڑے ہسپتال میں علاج کروانے نہیں جاسکتے ۔چنانچہ یہ اتائیوں اور حکمیوں کے پاس جاتے ہیں یا گھریلو ٹوٹکے استعمال کرتےہیں۔
اس حوالے سے صوبائی محکمہ صحت کے ترجمان سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں کوئی بھی علاج کرا سکتا ہے۔ بلا امتیاز ادویات فراہم کی جاتی ہے۔ خانہ بدوشوں یا کسی خاص کمیونٹی کے لئے الگ کوئی پالیسی نہیں ہے۔
سماجی کارکن علینہ اظہر 'آسرا ' کے نام سے این جی او چلا رہی ہیں۔وہ خانہ بدوش خواتین کی نسوانی صحت کے لیے کام کرتی ہیں اور لیڈی ڈیانا ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خانہ بدوش خواتین میں نسوانی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ گندگی اور کم عمری کی شادیاں ہیں۔ یہ لوگ بچپن میں ہی بچوں کے رشتے طے کرتے ہیں ۔تیرہ چودہ سال کی عمر میں لڑکی کی شادی کردی جاتی ہے۔
"جلد شادی کی ایک وجہ جنسی ہراسانی بھی ہے۔ بچوں سے زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات خانہ بدوشوں میں ہوتے ہیں۔ مرد عورتیں مانگنے یا مزدوری کے لیے باہر جاتے ہیں تو گھروں میں لڑکیوں کو خطرہ ہوتا ہے۔"
"مخصوص ایام کے دوران بے احتیاطی، گندے کپڑے کا استعمال اورروایتی ٹوٹکوں سے پیشاب کی نالی کا انفیکشن ہوسکتا ہے۔ بعض خواتین ماں بننے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوسکتی ہیں اور انہیں گردوں کی بیماری کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
اس خانہ بدوش بستی میں رہنے والی ایک عمر رسیدہ خاتون شاہدہ مائی بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹیاں شرم وحیا کی وجہ سے اپنے ایسے مسائل پران سے بات نہیں کرتیں۔ وہ خود بھی مخصوص ایام میں کپڑا استعمال کرتی رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ شہروں میں خواتین پیڈ استعمال کرتی ہیں مگر وہ بہت مہنگے ہیں۔
بابا رفیق گلبرگ لاہورمیں ریلوے لائن کے ساتھ جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شہری خواتین کے مقابلے میں ان کی خواتین زیادہ صحت مند ہیں۔ روزانہ کئی کئی میل پیدل چلتی ہیں۔
"ہمارا ذریعہ معاش بھیک مانگنا ہے۔گھر میں جتنے زیادہ بچے ہوں گے اتنی زیادہ آمدن ہوگی۔ جب بچے سات ،آٹھ سال کے ہو جاتے ہیں تو خود ہی 'کمانا' شروع کردیتے ہیں۔"
ماہر امراض نسواں ڈاکٹر صائمہ عامر بتاتی ہیں کہ خانہ بدوش عورتوں کا سات،آٹھ بچے پیدا کرنا معمول کی بات ہے۔ بعض خواتین کے تو درجن بھر سے زیادہ بچے ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ دیہی خواتین کی طرح خانہ بدوش عورتوں میں بھی نسوانی بیماریوں کی شرح زیادہ ہے۔ کوئی بڑی پیچیدگی محسوس ہو تو یہ خواتین ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں ورنہ ان کی زچگی بھی گھروں میں ہی ہوتی ہے۔
علینہ اظہر جوہرٹاؤن سمیت لاہور کے مختلف علاقوں میں ہرماہ خانہ بدوش خواتین میں سینیڑی پیڈ تقسیم کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کم عمری میں وہ لڑکیاں بھی مائیں بن جاتی ہیں جن کی ابھی کھیل کود کی عمر یوتی ہے۔ ان کے بچے بہت کمزور ہوتے ہیں اور بچے کی پیدائش کے بعد وہ مختلف امراض کا شکار ہوجاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
دوا اور غذا کی قلت: بلوچستان کے سیلاب متاثرین میں حاملہ خواتین کی صحت و زندگی خطرے میں پڑ گئی
ان کے مطابق خاص طور پریہ لوگ اپنی ان لڑکیوں کی شادی جلد کر دیتے ہیں جو ان کے خیال میں اچھی شکل وصورت کی مالک ہوتی ہیں۔ کئی خانہ بدوشوں نے بتایا کہ جن کی بیٹیاں ہیں انہیں پولیس اہلکار اور دیگر لوگ تنگ کرتے ہیں۔ یہاں بعض خواتین جسم فروشی بھی کرتی ہیں۔
حکومت بھی اس کمیونٹی پر توجہ نہیں دیتی۔ لاہور میں بنیادی مرکز صحت واہگہ ٹاؤن کے ایک سینئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرتے کی شرط پر بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ڈیوٹی تھی کہ وہ اپنے علاقے میں بھٹوں اورخانہ بدوش بستیوں میں جائیں گی۔ لیکن چارسال سے یہ سلسلہ بند ہے۔
2017ء میں فیصل آباد میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 59.8 فیصد خانہ بدوش خواتین کے بچوں کی تعداد چار سے زیادہ تھی۔ ان کی اکثریت نے دوران حمل کبھی طبی معائنہ نہیں کرایا۔ 98.3 فیصد خواتین کی گھر میں نارمل زچگی ہوئی ۔صرف ایک اعشاریہ سات فیصد کے بچے کی سی سیکشن کے ذریعے پیدائش ہوئی۔
تاریخ اشاعت 25 اگست 2023