چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے بنیادی محور گوادر میں کول پاور پلانٹ برسوں سے عجیب صورت حال سے دوچار ہے۔ 300 میگاواٹ کا یہ منصوبہ علاقے کی توانائی ضرورت پوری کرنے اور ساحلی شہر میں صنعتی ترقی کے لیے بنایا گیا تھا۔
گوادر میں درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا پلانٹ لگانے کا فیصلہ 2016ء میں کیا گیا جس کی تعمیر کے لیے وفاقی حکومت نے اگست 2019ء میں چینی کمپنی کو لیٹر آف سپورٹ (اجازت نامہ اور یقین دہانی) جاری کر دیا تھا۔
اس اجازت نامے کے تحت یہ طے ہوا کہ کمپنی کام کے آغاز کے لیے اپریل 2020ء تک اپنے تمام مالی معاملات (فنانشل کلوزنگ) مکمل کر لے گی جس میں بجلی کے نرخ، بینکوں سے قرض، زمین اور ماحولیاتی اجازت نامہ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
نومبر 2019ء کے پہلے ہفتے میں اس منصوبے کے باضابطہ آغاز کی تقریب بھی منعقد کر لی گئی جس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار اور چینی نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے وائس چیئرمین ننگ جزہی شریک ہوئے۔
تاہم نیپرا سے قابلِ قبول ٹیرف منظور ہونے میں تاخیر، بینکوں کا قرض دینے میں پس و پیش، زمین کی لیز اور ماحولیاتی کلیئرنس کے مسائل کے ساتھ چینی کمپنی کی غیر واضح حکمتِ عملی منصوبے کو مسلسل پیچھے دھکیلتے رہے۔
پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) نے چھ بار منصوبہ شروع کرنے کی ڈیڈ لائن بڑھائی، فنانشل کلوزنگ بھی کئی بار مؤخر کی گئی لیکن کمپنی کے فیس ادا نہ کرنے پر حکومت نے اجازت نامے (لیٹر آف سپورٹ) میں مزید توسیع روک دی۔
نتیجتاً گوادر کول پاور پلانٹ جو اس وقت سی پیک کے فلیگ شپ اور فاسٹ ٹریک پراجیکٹس کی لسٹ میں شامل تھا، اس کی ایک اینٹ بھی نہ رکھی جا سکی۔ یہ منصوبہ بدانتظامی اور متضاد حکومتی پالیسی کی بد ترین مثال بن گیا ہے۔

گوادر کی بجلی کا انحصار ایران پر ہے جو اکثر تعطل کا شکار رہتی ہے
وفاقی حکومت نے 2022ء میں گوادر کول پلانٹ کو 300 میگاواٹ کے سولر پراجیکٹ میں بدلنے کا اعلان بھی کیا مگر اس معاملے پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
دسمبر 2023ء میں کمپنی نے مجوزہ پلانٹ کے ٹیرف پر نظرثانی کے لیے تیسری مرتبہ درخواست جمع کرا دی۔ ٹیرف میں بار بار اضافے اور کمپنی کے اعتراضات نے صورتحال کو مزید الجھا دیا۔
اس پاور پلانٹ کا ٹیرف جو 2018ء میں 8.92 روپے فی یونٹ/کلو واٹ آور مقرر ہوا تھا، 2024ء میں 22 روپے (9.08 سینٹ) سے تجاوز کر گیا۔
مسئلہ صرف بدانتظامی یا ٹیرف تک محدود نہیں رہا بلکہ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ جو 283 ملین ڈالر بتایا گیا تھا وہ بھی بڑھ کر تقریباً 444 ملین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
اب اس کول پلانٹ کی نئی متوقع کمرشل آپریشن ڈیٹ دسمبر 2029ء بتائی جا رہی ہے اور کمپنی نے حکومتی اقدامات کو تاخیر کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے لیٹر آف سپورٹ میں 2028ء تک توسیع مانگی ہے۔
وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ صرف وہی منصوبے آگے بڑھائیں گے جو 40 سے 50 فیصد مکمل ہیں یا جنہوں نے فنانشل کلوز کر لیا ہے۔ اس صورت حال سے گوادر کول پاور کا مستقبل ویسے ہی خطرے میں پڑ چکا ہے۔
دوسری جانب گوادر کا برسوں سے ایران سے درآمدی بجلی پر انحصار ہے جو اکثر تعطل کا شکار رہتی ہے۔
گوادر کے رہائشی ماہر بلوچ کو شکایت ہے کہ شہر میں پاور پلانٹ کی تعمیر کا اعلان کیا گیا لیکن یہاں گھنٹوں بجلی بند رہتی ہے تو پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔
"اگر سی پیک کے تحت ملک میں سب سے پہلا توانائی منصوبہ گوادر میں لگنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہمارا علاقہ دنیا کے لیے ایک عظیم بندر گاہ ہے لیکن ہم بجلی کی غیر یقینی سپلائی کی اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔"

گوادر کول پاور صرف بدانتظامی ہی نہیں پالیسی تضادات کاٰ بھی جیتا جاگتا ثبوت ہے
دنیا اس وقت تیزی سے کلین انرجی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پاکستان عالمی کنونشنز (کوپ) اور اجلاسوں میں مسلسل یہ وعدہ دہراتا آیا ہے کہ وہ ری نیوایبل یا گرین انرجی پر انحصار کو بڑھائے گا۔ لیکن یہاں کوئلے سے بجلی بنانے کی متضاد پالیسی پر عمل جاری ہے۔
گوادر کول پاور جیسے درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹ ناں صرف زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ ڈالتا ہے بلکہ کاربن اخراج میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ اس سے جہاں موسمیائی تبدیلیوں کے اثرات مزید گہرے ہوتے ہیں وہیں ملکی توانائی پالیسی کے تضادات بھی بے نقاب ہو جاتے ہیں۔
توانائی تجزیہ کار زینب بابر کے فراہم کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کوئلے کی بجلی سے صرف صحت کے نقصانات کی لاگت تقریباً 15.98 امریکی ڈالر فی میگاواٹ آور بنتی ہے۔ ساہیوال کول پلانٹ کے بیرونی اثرات سے نقصان کا تخمینہ 18 ہزار 271 روپے فی میگاواٹ آور ہے جبکہ اینگرو پاور کا نقصان 40 ہزار 392 روپے فی میگاواٹ آور تک جا پہنچتا ہے۔
پاکستان میں کول پاور پلانٹس ملک میں کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں تقریباً 27 فیصد کے حصہ دار ہیں۔ ان میں ساہیوال پلانٹ کا اخراج 887 کلوگرام فی میگاواٹ آور اور اینگرو پلانٹ کا اخراج دوہزار 154 کلوگرام فی میگاواٹ آور ہے۔
تحقیقی مطالعوں سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ کوئلہ جلنے سے خارج ہونے والے آرسینک، لیڈ، کیڈمیم اور مرکری جیسے عناصر زمین، پانی اور فضا کو آلودہ کر دیتے ہیں جس پانی کے ذرائع اور زرعی زمین متاثر ہوتی ہے۔
ساہیوال کول پاور پلانٹ کے قریب تحقیقی مطالعے میں پایا گیا کہ وہاں جلد، سانس اور آنکھوں کی بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح تقریباً 15 فٹ نیچے چلی گئی ہےجو پلانٹ میں زیادہ پانی کے استعمال کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔

کوئلے سے بجلی کی خطرناک سماجی و ماحولیاتی قیمت
تحقیق بتاتی ہے کہ تھر میں کول منصوبوں کی وجہ سے مقامی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے قریبی علاقوں کے رہائشیوں میں کینسر، دل اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
واضح رہے دنیا میں کوئلے سمیت فوسل ایندھن فیولز جلنے سے خرج ہونے والے زہریلے مادوں کی وجہ سے سالانہ تقریباً 10 لاکھ قبل از وقت اموات ہوتی ہیں۔
بوسٹن یونیورسٹی کے گلوبل ڈویلپمنٹ پالیسی سینٹر کی ایک کیس سٹڈی کے مطابق پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ سے فضائی آلودگی کے باعث قریبی علاقوں میں چار لاکھ سے زائد افراد سے متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان میں توانائی ماہرین اور پالیسی تجزیہ کاروں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی ظاہری لاگت سے کہیں زیادہ اس کی 'چھپی ہوئی سماجی و ماحولیاتی قیمت" ہوتی ہے۔ اس میں صحت کے سنگین اثرات، فضائی آلودگی، ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات اور قدرتی وسائل کی تباہی شامل ہیں۔
پالیسی تضاد صرف سیاسی یا سماجی مسئلہ نہیں، اس سے پاکستان کی بین الاقوامی فنڈنگ اور گرین پروجیکٹس میں شمولیت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
سسٹین ایبل پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) میں انرجی یونٹ کے سربراہ انجینیئر عبیدالرحمان ضیا متنبہ کرتے ہیں کہ ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے پاکستان کو اب تک تقریباً 348 ارب امریکی ڈالر کے مالیاتی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ لاگت مزید بڑھتی رہے گی۔
ماہر بلوچ جیسے گوادر کے ہزاروں رہائشیوں کو تو بجلی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت گوادر کے لیے بجلی کا بلا تاخیر اور پائیدار حل تلاش کرے۔ البتہ سولر پارک یا ونڈ انرجی (پون بجلی) اس ساحلی پٹی میں توانائی کا بہترین اور فوری ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
تاریخ اشاعت 19 ستمبر 2025