ماحول دوست الیکٹرک گاڑیوں کو رواج دینے کی پالیسی پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے؟

postImg

آصف محمود

postImg

ماحول دوست الیکٹرک گاڑیوں کو رواج دینے کی پالیسی پر عمل درآمد کیسے ممکن ہے؟

آصف محمود

پاکستان نے پانچ سال قبل الیکٹرک وہیکلز (ای ویز) پالیسی منظور کی تھی جس کا مقصد پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کی بجائے ماحول دوست ای گاڑیوں کو فروغ دینا تھا لیکن طے شدہ اہداف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

قومی الیکٹرک وہیکلز   پالیسی 2019ء کے تحت نئی گاڑیوں میں ای کاروں (وین جیپ،ڈالے وغیرہ) کی تیاری و فروخت کا 2030ء تک ہدف 30 فیصد اور 2040 تک 90 فیصد رکھا گیا ہے۔ ای بائیکس اور رکشوں کا 2030ء تک ہدف 50 فیصد جبکہ 2040ء تک 90 فیصد مقرر کیا گیا۔

"الیکٹرک بسوں کی تیاری و فروخت کا ہدف 2030ء تک 50 فیصد اور 2040ء تک 90 فیصد مقرر ہے جبکہ ای ٹرکوں کی تیاری و فروخت کا ہدف 2030ء تک 30 فیصد اور 2040 تک 90 فیصد رکھا گیا تھا۔"

ان بڑے بڑے اہداف کے حصول کے لیے وفاقی حکومت نے 2019ء میں ملک بھر میں 34 کمپنیوں کو الیکٹرک موٹرسائیکل( ای بائیکس)، ای رکشے اور ای گاڑیاں تیار کرنے کے لائسنس بھی جاری کیے تھے۔ ان میں سے چند کمپنیوں نے 2023ء میں ای بائیکس اور رکشے تیار کرنا بھی شروع کر دیے تھے۔

ملک میں ای بائیکس اور رکشے تو تیار ہورہے ہیں لیکن الیکٹرک کاروں، بسوں اور ٹرکوں کی اسمبلنگ اور مینوفیکچرنگ شروع نہیں ہو سکی۔

ہدایت الرحمن خان، لاہور کی لٹن روڈ مارکیٹ میں ای بائیکس اور رکشوں کے ڈیلر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں الیکٹرک موٹر سائیکل کی فروخت بڑھ رہی ہے۔ اب الیکٹرک رکشے بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں لیکن ان کی فروخت لاہور میں بہت کم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ای بائکس پر بھی لوگوں کو تحفظات ہیں۔ ایک تو ان کی بیٹریاں کافی مہنگی ہیں اور دوسرا ان کی ری سیل ویلیو نہیں ہے۔ تیسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ لاہور میں بارش کے دوران کئی علاقوں میں سڑکوں پر پانی جمع ہوجاتا ہے جس سے ای بائیک اور رکشہ بند ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔

تاہم مارکیٹ کے کچھ لوگ ای گاڑیوں کی کم فروخت کی وجہ چارجنگ انفرا سٹرکچر کے فقدان اور غیر واضح حکومتی پالیسیاں بتاتے ہیں۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پنجاب میں اب تک پانچ ہزار 606 الیکٹرک گاڑیاں رجسٹرڈ کی گئی ہیں جن میں چار ہزار 941 ای بائیکس، 12 ای رکشے اور 653 الیٹرک کاریں شامل ہیں۔

پنجاب کے حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ ماحول دوست اور سستی ای ویز متعارف کرانے کے حوالے سے یہاں باقی صوبوں کی نسبت زیادہ تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ صوبائی حکومت نے رواں بجٹ میں مختلف شہروں میں ماحول دوست بسیں چلانے کے لیے تقریباً تین ارب 24 کروڑ 20 لاکھ (3242 ملین) روپے مختص کیے ہیں۔

سیکرٹری ٹرانسپورٹ پنجاب احمد جاوید قاضی بتاتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں فیصل آباد میں 110 اور بہاولپور میں 42 ماحول دوست بسوں کا پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے ۔ پنجاب ٹرانسپورٹ کمپنی نے پچھلے دو سالوں میں لاہور، فیصل آباد اور بہاولپور میں اربن ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لیے فزیبلٹی سٹڈیز مکمل کر لی ہیں۔

"چائنہ کی ایک کمپنی سے 27 بسوں کی خریداری کا معاہدہ ہو چکا ہے جو جنوری 2025ء میں لاہور کی سٹرکوں پر رواں دواں ہوں گی۔ پنجاب میں پسنجر اور لوڈر ای رکشوں کی تیاری کے لیے دو کمپنیوں کو لائسنس جاری ہو چکے جو جلد پیداوار شروع کر دیں گی۔"

وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت طلبا و طالبات کو ایک ہزار ای بائیکس دینے کا پہلے ہی اعلان کر چکی ہے جس کے لیے اب تک 15 ہزار 270 درخواستیں موصول ہوچکی ہیں۔قرعہ اندازی کے ذریعے کامیاب 700 طلبا اور 300 طالبات کو یہ ای بائیکس دی جائیں گی۔

پاکستان میں سب سے پہلے ای بائیک اوررکشہ تیار کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی کمپنی سازگار انجیئرنگ ورکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر حسنین مہدی کہتے ہیں کہ ای ویز پالیسی 2019ء میں منظور ہوئی لیکن اس پر عمل درآمد 2023ء میں شروع ہوا ہے۔

"ای بائیکس کی رجسٹریشن 2023ء اور ای رکشوں اور لوڈرز کی رجسٹریشن پچھلے جنوری سے شروع ہوئی جس سے ان کی فروخت اور پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔"

کہا جا تا ہے کہ پاکستان میں ای ویز کی رجسٹریشن کے حوالے سے کچھ ریگولیٹری ابہام تھے جنہیں کم از کم پنجاب کی حد تک حل کر لیا گیا ہے۔

پاکستان میں گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس ان کے انجن پاور کے مطابق وصول کیا جاتا ہے۔ چونکہ ای گاڑی میں انجن نہیں ہوتا اس لیے ان گاڑیوں کی درجہ بندی کا بھی کوئی طریقہ کار یا فارمولہ نہیں تھا۔

تاہم پوری دنیا میں الیکٹرک گاڑیوں کی درجہ بندی ان کی بیٹری کی صلاحیت کے مطابق کی جاتی ہے جسے کلو واٹ آور میں ماپا جاتا ہے۔

اب پنجاب حکومت نے موٹر وہیکلز ٹیکسیشن ایکٹ 1958ء میں اضافی شق شامل کی ہے جس کے تحت ای گاڑیوں کی رجسٹریشن فیس اور ٹوکن ٹیکس کا تعین کیا گیا ہے۔

اس قانون کے مطابق الیکٹرک گاڑی کی بیٹری کی ایک کلوواٹ آور گنجائش، 18.77 سی سی کے برابر تصور کی جائے گی اور اسی حساب سے ہی رجسٹریشن اور ٹوکن فیس لگےگی۔

سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی ) کے سینیئر ریسرچ ایسوسی ایٹ عبدالرحمن ضیاء بتاتے ہیں کہ چارجنگ انفراسٹرکچر کی کمی، ای ویز کی زیادہ قیمت، محدود پیداوار اور ناکافی عوامی آگاہی پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے بنیادی رکاوٹیں ہیں۔

"ان مسائل پر قابو پانے کے لیے پالیسی سازی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور عوامی تعلیم کی مربوط کوششیں کرنا ہوں گی۔"

وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان ایندھن کی درآمدات پر ہر ماہ 1.3 بلین ڈالر لاگت خرچ کرتا ہے۔ یہاں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ایندھن کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔2023ء میں پاکستان نے 11.98 ملین ٹن ایندھن (فوسل فیول) درآمد کیا جس کی مالیت تقریباً 10.03 بلین ڈالر تھی۔

"اگر ہم مقامی سطح پر بیٹریاں تیار کرنے کی بجائے باہر سے منگواتے ہیں تو ہمارا فوسل فیول کا درآمدی بل تو کم ہوگا لیکن بیٹریوں کا امپورٹ بل بڑھ جائےگا جس سے ملک کو کوئی معاشی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ای ویز کی بیٹریاں یہیں تیار کی جائیں۔"

عاصم ایاز، انجیئنرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے جنرل مینجر ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ای ویز پالیسی کے اہداف کے حصول میں بڑی رکاوٹ چارجنگ انفراسٹرکچر ہے جس کے لیے کوئی پالیسی بھی نہیں ہے۔

"الیکٹرک گاڑیاں مہنگی ہونے کی وجہ سے بینک فنانسنگ مشکل اور مارک اپ (شرح سود) بہت زیادہ ہے۔ ملک میں بیٹریوں کے خام مال کی امپورٹ اور مقامی تیاری میں بھی اسی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔"

پاکستان کی مختلف یونیوسٹیوں اور غیر سرکاری اداروں کی ای ویز سے متعلق ایک مشترکہ سٹڈی رپورٹ 'پاکستان کی الیکٹرک وہیکل مارکیٹ: چیلنجز، مواقع اور 2030 کی راہیں' کئی سٹیک ہولڈرز کے تحفظات کی تصدیق کرتی ہے۔

یہ رپورٹ کہتی ہے کہ ملک میں ای وہیکلز سے متعلق پالیسی فریم ورک واضع نہیں ہے۔ متضاد پالیسیوں اور واضح گائیڈ لائنز کی عدم موجودگی میں غیر یقینی کا ماحول پیدا ہوتاہے جس سے ای وی سیکٹر میں طویل مدتی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

"روایتی آٹوموٹو انڈسٹری میں بھی ای وی انقلاب کی تیاری کی کمی نظر آتی ہے جبکہ ای وی ماڈلز کی محدود مقامی پیداوار، بھاری قیمت اور درآمدی ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار مارکیٹ کی توسیع میں رکاوٹ ہیں۔"

تحقیق کاروں کو لگتا ہے کہ پاکستان کی قومی ای ویز پالیسی کے اہداف' غیر منطقی' ہیں۔

وہ رپورٹ میں تجویز کرتے ہیں کہ حکومت کو ٹارگٹڈ انفراسٹرکچر تیار کرنے، معاون پالیسیاں بنانے اور مقامی ای ویز کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ ملک میں ای گاڑیوں کا استعمال بڑھنے سے بجلی کی کھپت میں بھی اضافہ ہوگا جس کے لیے پاکستان کو مربوط انرجی پلان کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کیا حکومت الیکٹرک بائیکس اپنانے کے لیے لوگوں کو کوئی مراعات دے گی؟

"بیٹریوں کے لیے کوبالٹ اور لیتھیم جیسے خام مال کے حصول سے مارکیٹ کی کمزوریوں اور مسائل سے نمٹنے تک ایک مربوط نقطہ نظر اپنانا ہو گا۔ ای ویز کی پیداوار کے لیے اسمبلی لائن اور سپلائی چین بنانے کی خاطر ابتدائی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ضروری ہے۔"

تحقیق کار کہتے ہیں کہ الیکٹرک گاڑیوں کی طرف لوگوں کی منتقلی آسان بنانے کے لیے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں، پاور ڈویژن اور نیپرا جیسے ریگولیٹری اداروں کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

"تقسیم کار کمپنیاں پہلے شہروں اور شاہراہوں پر چارجنگ انفراسٹرکچر کے قیام کو ترجیح دیں۔ انہیں ای وی چارجنگ سٹیشنوں کے لیے ٹرانسفارمرز کی فوری تنصیب اور کنکشن کو اولیت دینی چاہیے جبکہ نیپرا ٹیرف ریگولیشن سے آگے بڑھ کر چارجنگ سٹیشن لگانے والی کمپنیوں کی مدد کرے۔"

رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ وزارت ماحولیاتی تبدیلی اور متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو ای ویز کی لاگت پوری کرنے کے لیے مراعات اور سبسڈی میں تعاون کرنا چاہیے۔ خاص طور پر بیٹری کی درآمدات کے بوجھ کو کم کرنا ضروری ہے۔

"صارفین اور سرمایہ کار کمپنیوں کو ای ویز پر جانے کی ترغیب دینے کے لیے ٹیکس میں چھوٹ یا مدد دی جاسکتی ہے۔ بیٹریوں کی امپورٹ کم کرنے اور اس کی مقامی تیاری کے لیے ٹیکنالوجی کمپنیوں سے سٹریٹجک پارٹنرشپ کے مواقع تلاش کیے جانے چاہئیں۔"

ماہرین کے مطابق وزارت پٹرولیم کو ملک کے ہر پٹرول یا سی این جی پمپ پر چارجنگ سٹیشن کی تنصیب لازمی قرار دینے کی پالیسی بنانی چاہیے۔ پمپ مالکان کو چارجنگ سٹیشن میں سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس مراعات، گرانٹ یا کم سود پر قرض کی سہولیات دی جانی چاہیئیں تاکہ وہ اخراجات پورے کر سکیں۔

ماہرین زور دیتے ہیں کہ پاکستان میں موٹر انسٹی ٹیوٹ کا قیام ضروری ہے جس میں لیتھیم بیٹریوں کی تیاری کی سہولیات میسر ہوں۔ حکومت یہاں تحقیق، ای گاڑیوں کے پرزوں کی بہتری اور پیداوار کے لیے بھی وسائل مختص کرے جس سے درآمدی پرزوں پر انحصار کم ہوگا۔

تاریخ اشاعت 30 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

آصف محمودکا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ غیرمسلم اقلیتوں، ٹرانس جینڈرکمیونٹی، موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات، جنگلی حیات اور آثار قدیمہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
thumb
سٹوری

کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے بجلی کے چولہے و گیزر کی خریداری کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

پنجاب: حکومتی سکیمیں اور گندم کی کاشت؟

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.