پندرہ سالہ کرن مسیح کو 8 مارچ 2021 کو اس وقت اغوا کیا گیا جب پوری دنیا خواتین کا عالمی دن منا رہی تھی۔
اس روز وہ لاہور کے جنوب مغربی علاقے چوہنگ میں کام سے گھر واپس جا رہی تھیں کہ دو نقاب پوش افراد نے انہیں زبردستی اپنی کار میں گھسیٹ لیا۔ کرن کی 60 سالہ والدہ حمیدہ بی بی بھی ان کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تاہم اغوا کاروں میں سے ایک شخص نے کرن کو سر پر مُکا مارا اور انہیں کار میں ڈال دیا جبکہ دوسرے نے حمیدہ بی بی کو مار پیٹ کر زمین پر گرا دیا۔
وہ فوراً اٹھ کر ایک مرتبہ پھر کار کی جانب بھاگیں ضرور مگر اتنی دیر میں کار بہت آگے بڑھ گئی تھی۔
کرن کے اغوا کے کئی ہفتے بعد بھی حمیدہ بی بی اس صدمے سے سنبھل نہیں سکیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب یہ واقعہ ہوا تو انہوں نے بہت شور مچایا اور لوگوں کو بتایا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کر لیا گیا ہے جس پر چند لوگ انہیں تھانے لے گئے۔
تاہم پولیس نے ان کی شکایت درج نہیں کی۔ اگرچہ وہ پولیس اہلکاروں کو بتاتی رہیں کہ ان کی بیٹی کس طرح اغوا ہوئیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ کرن کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہیں۔
جب تھانے میں حمیدہ بی بی کی آواز نہ سنی گئی تو کرن کے والدین، بہن بھائیوں اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سمیت پورے خاندان نے تھانے کے سامنے دھرنا دے دیا۔ جب اس دھرنے کو بھی پورا دن گزر گیا تو حمیدہ بی بی اچانک اٹھ کھڑی ہوئیں اور انہوں نے اعلان کیا کہ اگر ان کی شکایت پر کارروائی نہ ہوئی تو وہ خود کو آگ لگا لیں گی۔ یہ سن کر پولیس فوری طور پر حرکت میں آئی اور اس نے کرن کے اغوا کی ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر لی۔
تاہم اگلے دن جب ان کا خاندان دوبارہ تھانے میں آیا تو وہاں موجود تھانے دار نے انہیں بتایا کہ کرن نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا ہے۔ حمیدہ بی بی کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ جلد ہی انہیں اس بات کا تحریری ثبوت بھی مل جائے گا۔
ایک ہی دن بعد انہیں ڈاک کے ذریعے کرن کے اسلام قبول کرنے کا سرٹیفکیٹ اور نکاح نامہ موصول ہوا۔ یہ دستاویزات لاہور میں دربار داتا گنج بخش کے قریب واقع ایک مدرسے کی جانب سے جاری کی گئی تھیں۔
یہ صورتِ حال کرن کے اہلِ خانہ کے لیے بہت غم و غصے کا باعث تھی۔ ان کے والد بشیر مسیح کہتے ہیں کہ اگر ان کی بیٹی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا ہے تو ہم اس بات کو قبول کر لیں گے مگر اس سے پہلے پولیس کا فرض بنتا ہے کہ وہ پتا چلائے اور ہمیں بتائے کہ آیا وہ خیریت سے بھی ہے یا نہیں۔
حمیدہ بی بی کو کرن کے حوالے سے سنگین خدشات لاحق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اغوا کرنے والے لوگ انہیں جسمانی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انہیں یہ بھی خوف ہے کہ کہیں وہ ان کی بیٹی کو جسم فروشی کا دھندہ کرنے والے کسی گروہ کو نہ بیچ دیں۔
کرن کی گمشدگی کو تین ماہ گزرنے کے باوجود حمیدہ بی بی انہیں ڈھونڈنے کے لیے اکثر گھر سے باہر نکل جاتی ہیں۔ کبھی کبھار وہ اس جگہ پہنچ جاتی ہیں جہاں سے ان کی بیٹی کو اغوا کیا گیا تھا اور گھنٹوں وہیں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔
مذہب اور خاندان کے بیچ پِستی لڑکیاں
شارلٹ جاوید کی آنکھیں اکثر بند رہتی تھیں اور انہیں کچھ بھی واضح دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جب وہ آنکھیں کھولتیں تو انہیں اپنے اردگرد ہر شے دھندلی دکھائی دیتی۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں اغوا کرنے والے لوگ ان کے بازوؤں میں انجکشن لگاتے تھے جس کے بعد ان میں کھڑا ہونے اور کسی سے بات کرنے کی طاقت بھی نہیں رہتی تھی۔
شارلٹ کو فیصل آباد میں ان کے گاؤں سے 27 جنوری 2019 کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اسی علاقے میں واقع ایک اور محلے میں اپنے رشتہ دار کے گھر گئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کا رشتہ دار گھر پر نہیں تھا چنانچہ اس کی واپسی کا انتظار کرنے کے لیے وہ اس کے ہمسائے کے گھر چلی گئیں جہاں ایک عورت نے انہیں نشہ آور چائے دی جسے پینے کے بعد وہ بے ہوش ہو گئیں۔
جب انہیں ہوش آیا تو انہوں نے خود کو ایک کمرے میں بند پایا۔
جو لوگ انہیں اغوا کر کے وہاں لائے تھے وہ انہیں باقاعدگی سے کھانا دیتے تھے مگر شارلٹ اس کھانے کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی تھیں۔ جب ان لوگوں کو یہ خدشہ ہوا کہ وہ کہیں بھوک سے مر ہی نہ جائیں تو انہوں نے شارلٹ کو زبردستی کھانا کھلانا شروع کر دیا۔ لیکن جب بھی ان میں کچھ ہمت آتی تو وہ ان لوگوں سے یہی کہتیں کہ وہ انہیں ان کے گھر بھیج دیں۔ اس پر انہیں جواب ملتا کہ "ہم نے تمہیں 50 ہزار روپے میں خریدا ہے، اب تم ہماری ملکیت ہو"۔
دوسری طرف شارلٹ کے والدین انہیں بے چینی سے ڈھونڈ رہے تھے۔ جب انہوں نے ان کی گم شدگی کے بارے میں تھانے میں مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی تو ابتدا میں وہ ناکام رہے۔ لیکن اس کے بعد جب انہوں نے کئی احتجاجی مظاہرے کیے تو ان کے نتیجے میں پولیس نے 14 فروری 2019 کو متعدد افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا جس میں وہ عورت بھی شامل تھی جس نے شارلٹ کو مبینہ طور پر نشہ آور چائے پلائی تھی۔
تفتیش کے دوران اس عورت نے انکشاف کیا کہ اس نے شارلٹ کو ایک رکشہ ڈرائیور کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا جس نے آگے اسے ظفراقبال نامی شخص کو بیچ دیا تھا۔ ظفر اقبال کے بارے میں بتایا گیا کہ اس نے شارلٹ کو کسی نا معلوم مقام پر قید کر رکھا ہے۔
جب ظفر اقبال کو اپنے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بارے میں علم ہوا تو اس نے 20 فروری 2019 کو شارلٹ کو ایک جج کے سامنے پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ شارلٹ نے عیسائیت ترک کر کے اسلام قبول کر لیا ہے جس کے بعد دونوں نے قانونی طریقے سے شادی کر لی ہے۔ ظفر اقبال نے جج کو اپنا نکاح نامہ بھی دکھایا۔
ایسے لگتا ہے کہ جج نے اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی کہ شارلٹ کی عمر صرف 14 سال ہے کیونکہ اس نے ظفر اقبال اجازت دے دی کہ وہ انہیں اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
شارلٹ خود کہتی ہیں کہ "میں اپنا مذہب تبدیل نہیں کرنا چاہتی تھی مگر ظفر اقبال نے مجھے کہا کہ اگر میں نے وہی کچھ نہ پڑھا جو وہ مجھے پڑھنے کو کہہ رہا تھا تو وہ مجھے قتل کر دے گا جس کی وجہ سے میں بے حد خوفزدہ ہو گئی"۔
بعد ازاں شارلٹ کے والدین نے ان کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں اپریل 2019 میں یہ فیصلہ دیا گیا کہ ان کے مذہب کی تبدیلی اور شادی دونوں غیر قانونی ہیں۔
اس فیصلے کے بعد ظفر اقبال انہیں قید میں ہی چھوڑ کر فرار ہو گیا۔اسی دوران اغوا کاروں کا ایک موبائل فون شارلٹ کے ہاتھ لگ گیا جس کے ذریعے انہوں نے اپنے والدین سے رابطہ کیا جو انہیں واپس اپنے گھر لے آئے۔
تاہم شارلٹ کی زندگی ابھی تک معمول پر نہیں آئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ "میرے بھائیوں کا کہنا ہے کہ اس سے بہتر تھا میں اقبال کے ساتھ ہی رہتی کیونکہ ان کے مطابق میں نے خاندان کے نام کو دھبہ لگا دیا ہے"۔
ان کے بھائیوں نے انہیں خرچہ دینا بند کر دیا ہے اور اب ان کی زندگی اپنی معمر والدہ کے سہارے گزر رہی ہے۔ دوسرے رشتہ دار اور ہمسائے بھی ان کی والدہ کو یہی کہتے رہتے ہیں کہ انہیں شارلٹ کو واپس نہیں لانا چاہیے تھا۔ ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ انہیں اکثر بتایا جاتا ہے کہ اب کوئی شخص ان کی بیٹی سے شادی نہیں کرے گا۔
قید، جبر، مذہب کی تبدیلی اور شادی
حالیہ سالوں میں وسطی پنجاب کے مختلف علاقوں میں بہت سی کم سِن مسیحی لڑکیوں کو ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان لڑکیوں کو اغوا کر کے قید میں ڈال دیا گیا جہاں نشہ آور دوائیں دے کر یا مار پیٹ کے ذریعے انہیں اپنا مذہب چھوڑنے اور اپنے اغوا کاروں کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی مائرہ شہباز کے ساتھ پیش آنے والے ایسے ہی واقعے کو تو عالمی شہرت ملی۔ انہیں اکتوبر 2019 میں اغوا کیا گیا لیکن اگست 2020 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج نے فیصلہ دیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور شادی کی۔
تاہم چند روز بعد وہ فیصل آباد میں واقع اپنے اغوا کار کے گھر سے فرار ہو گئیں۔ بعد میں انہوں نے پولیس کو بتایا کہ اغوا کرنے والے شخص نے انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس دوران ان کی ویڈیو بھی بنائی۔ اس نے انہیں دھمکی دی کہ اگر انہوں نے اس سے شادی سے انکار کیا تو وہ انہیں قتل کر دے گا۔
جب مائرہ اپنےو الدین کے پاس آ گئیں تو ان کے والدین نے ان کے اغوا کار پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ اس نے ان کی بیٹی کو جسم فروشی کی غرض سے فروخت کرنے کے لیے اغوا کیا تھا۔
مائرہ کہتی ہیں کہ وہ قید کے دوران بیشتر عرصہ نیند میں رہیں لیکن کئی بار انہیں بہت سی آوازیں سنائی دیتیں جن میں اغوا کار کے قہقہے، اس کی اپنے ساتھیوں سے باتیں اور ان کے ساتھ مائرہ کو فروخت کرنے کے منصوبے پر ہونے والی گفتگو بھی شامل ہوتی۔
مائرہ ابھی تک چھپ چھپا کر رہ رہی ہیں کیونکہ انہیں اغوا کرنے والے شخص نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔
فیصل آباد کی فرح شاہین کے ساتھ بھی کچھ ایسے ہی حالات پیش آئے۔ انہیں 21 فروری 2021 کو اغوا کیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر بمشکل 14 سال تھی۔
وہ بتاتی ہیں کہ جب بھی انہوں نے اپنے گھر واپس جانے کا مطالبہ کیا تو ان کے اغوا کاروں نے انہیں دھمکا کر خاموش کرا دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "انہوں نے مجھے گردن پر مارا اور میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دی"۔
فرح کو حافظ آباد میں ایک زمیندار کے گھر سے بازیاب کرایا گیا۔ اِس سال مار چ میں جب وہ عدالت میں پیش ہوئیں تو ان کے ٹخنے بری طرح زخمی تھے تاہم اس کے باوجود جج نے ان کے اغوا کار مسلمان شخص کو اجازت دے دی کہ وہ انہیں اپنے ساتھ لے جائے کیونکہ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ان کا خاوند ہے۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے مسیحی کارکن لالہ روبن ڈینئل کہتے ہیں کہ جج نے شادی کا کوئی ثبوت دیکھنے کی زحمت بھی نہ کی۔ "اس کے بجائے اس نے لڑکی سے صرف یہ پوچھا کہ آیا اس نے اپنی رضامندی سے شادی کی ہے۔ لڑکی اس وقت اس قدر خوفزدہ تھی کہ اس نے جواب میں ہاں کہہ دیا اور جج نے اسی پر اپنا فیصلہ دے دیا"۔
تاہم چند روز بعد ایک اور عدالت نے قرار دیا کہ فرح کا مذہب جبراً تبدیل کرا کے اس سے زبردستی شادی کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان کے مسیحی وراثتی قوانین: مسیحی عورتوں کے حقِ وراثت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ۔
اب وہ اپنے اہلخانہ کے پاس واپس آ گئی ہیں تاہم اپنی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر وہ اب بھی خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ "بعض لوگ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہماری بیٹی نے اسلام چھوڑ کر دوبارہ عیسائی مذہب اختیار کیا ہے اس لیے وہ واجب القتل ہے"۔
فرح ابھی بھی بیشتر وقت خاموش رہتی ہیں۔ جب ان سے کچھ پوچھا جائے تو وہ بس شرمیلے انداز میں مسکرا دیتی ہیں۔ ایسی دیگر لڑکیوں کی طرح انہیں بھی صدمے سے پیدا ہونے والے ذہنی تناؤ کا سامنا ہے۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ وہ بہت جلد خوفزدہ ہو جاتی ہیں اور راتوں کو خوف کے عالم میں اکثر اپنی چارپائی سے نیچے اتر آتی ہیں۔
قانون پر عمل درآمد میں رکاوٹ
پنجاب بھر میں مسیحی لڑکیوں کو اغوا کرنے، ان کا مذہب جبری طور پر تبدیل کرانے اور انہیں ان کے اغوا کاروں کے ساتھ بیاہنے کے واقعات تواتر سے سامنے آتے رہتے ہیں۔ بعض واقعات میں اغوا شدہ لڑکیوں کو جسم فروشی کے لیے فروخت بھی کر دیا جاتا ہے۔
تاہم ایسی لڑکیوں کی تعداد کے حوالے سے درست اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ساحل (SAHIL) جیسی بعض غیر سرکاری تنظیمیں ملک کے مختلف حصوں سے اغوا ہونے والے بچوں کے بارے میں معلومات تو اکٹھی کرتی ہیں تاہم ان معلومات میں یہ تفصیل نہیں ہوتی کہ ان بچوں میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں کتنی ہیں۔
انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اغوا ہونے والے غیر مسلم بچوں میں سے قریباً 90 فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں جنہیں اسلام قبول کرنے اور شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا کوئی قانون ایسی جبری تبدیلیِ مذہب کو جرم قرار نہیں دیتا۔ نومبر 2016 میں سندھ اسمبلی نے ایک مسودہِ قانون منظور ضرور کیا تھا لیکن اس کے قانونی حیثیت اختیار کرنے سے پہلے ہی صوبائی حکومت نے مسلمان مذہبی گروہوں کے دباؤ میں آ کر اسے واپس لے لیا تھا۔ چنانچہ ایسی غیر مسلم بچیوں کا واحد سہارا پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 498 بی میں ہونے والی ایک ترمیم ہے جو فروری 2017 میں قومی اسمبلی میں منظور کی گئی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی نابالغ غیر مسلم بچی سے جبری شادی کرنے والے شخص کو کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا دی جا سکے گی۔
لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ پولیس جبری تبدیلیِ مذہب کے واقعات میں شاید ہی اس دفعہ سے کام لیتی ہے۔ اس کے بجائے ایسے واقعات میں پینل کوڈ کی دفعہ 365 بی کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے جس کا تعلق صرف اغوا کے معاملے سے ہے۔
اس دفعہ کا اطلاق بعض اوقات ایسے نتائج پیدا کرتا ہے جو مسیحی برادری کے لیے شدید ناراضگی کا باعث بنتے ہیں۔ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک مسیحی کارکن سنیل ملک کہتے ہیں کہ "جب اغوا کار کسی بچی کی تبدیلیِ مذہب کا سرٹیفکیٹ لے آتے ہیں تو مسلمان علما اور پولیس بھی ان کا ساتھ دیتی ہے اور فرض کر لیا جاتا ہے کہ متاثرہ بچی نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے۔ ایسے میں اغوا کا کیس تبدیلیِ مذہب کو برقرار رکھنے کا کیس بن جاتا ہے''۔
کمیشن کی ناکامی
سابق انسپکٹر جنرل پولیس اور اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں یک رکنی کمیشن کے سربراہ شعیب سڈل نے مئی 2021 کے اوائل میں لاہور کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انسانی حقوق کے متعدد کارکنوں نے ان سے ملاقات کر کے کرن مسیح کو بازیاب کرانے کی استدعا کی۔ انہوں نے ان لوگوں کو یقین دلایا کہ وہ اس سلسلے میں متعلقہ حکام سے بات کریں گے تاہم پولیس تاحال کرن کو ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
سڈل کمیشن 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک بنچ نے قائم کیا تھا۔ اس کا مقصد سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی کے 2014 میں دیے گئے ایک فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنا تھا۔
اس فیصلے میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی مذکور تھا کہ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 20 ہر شہری کو اپنے مذہب کا اقرار کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس فیصلے میں یہ وضاحت بھی کی گئی کہ اس آرٹیکل سے یہ نہ سمجھا جائے کہ آئین دوسروں کا مذہب تبدیل کرانے یا ان پر اپنے عقائد مسلط کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کیونکہ جہاں تمام شہریوں کو اپنے مذہب کی تشہیر کا حق ہے وہیں کسی شہری کو دوسروں کا مذہب جبراً تبدیل کرانے یا ان پر اپنے اعتقادات مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں"۔
یہ فیصلہ تاحال عمل درآمد کا منتظر ہے
لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل اور انسانی حقوق کے کارکن اسد جمال کا کہنا ہے کہ "82 مہینے گزرنے اور سپریم کورٹ میں 23 سماعتیں ہونے کے باوجود جسٹس جیلانی کے فیصلے پر صرف 24 فیصد ہی عملدرآمد ہو پایا ہے۔ ان کے مطابق یہ صورت حال ملک میں اقلیتوں کے حقوق کی سنگین صورتحال کی عکاس ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والےمؤرخ اور انسانی حقوق کے کارکن ڈاکٹر یعقوب بنگش سمجھتے ہیں کہ اس فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ ریاست غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کے بارے میں کوئی بھی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔
اپنی بات کے حق میں وہ پنجاب میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی وزارت کے لیے مختص کیے جانے والے بجٹ کی مثال دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "ایک ہی سال کے دوران اس بجٹ میں 50 فیصد کمی کر دی گئی ہے اور اب یہ کسی سرکاری یونیورسٹی کے کسی ایک شعبے کے بجٹ سے بھی کم رہ گیا ہے۔ اس مثال سے واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے"۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ 22 جون 2021 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 16 فروری 2022