ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا: 'حکومت نہ تو ہمارے نقصانات کی تلافی کر رہی ہے اور نہ ہی ہمیں سیلاب سے بچانے کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے'۔

postImg

الویرا راشد

postImg

ایک دن دریا سبھی دیوار و در لے جائے گا: 'حکومت نہ تو ہمارے نقصانات کی تلافی کر رہی ہے اور نہ ہی ہمیں سیلاب سے بچانے کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے'۔

الویرا راشد

غلام قادر کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ پچھلے ماہ کی آٹھ اور نو تاریخ کی درمیانی شب دریائے راوی سے 86 ہزار مکعب میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے گزرنے والا پانی ان کا مکان اور کھیت سب بہا لے گیا۔

وہ وسطی پنجاب کے ضلع ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی کی بستی بونگا شامند کے رہنے والے ہیں جو دریا سے محض ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور جہاں کے 80 کے قریب گھروں میں سے زیادہ تر کچے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ سارے کچے مکان سیلاب میں ملیامیٹ ہو گئے ہیں اور ان کی باقیات اب دریا کے کنارے جگہ جگہ بکھری پڑی ہیں۔ 

بے گھر ہونے والے کئی مقامی باسی اپنے تمام ذرائع روزگار بھی کھو بیٹھے ہیں۔ 55 سالہ غلام قادر خود بھی ان میں شامل ہیں۔ 

اگرچہ وہ صرف پانچ ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں لیکن انہوں نے 15 ایکڑ مزید ٹھیکے پر لے رکھے تھے اور اپنے دو بیٹوں کے ساتھ مل کر اس تمام زمین پر کھیتی باڑی کرتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کاشت کاری سے حاصل ہونے والی آمدن سے وہ ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے لیکن "سیلاب نے ہم سے یہ سب کچھ چھین لیا ہے"۔ 

اب ان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ "محنت مزدوری کے ذریعے اور اپنے مویشیوں کا دودھ فروخت کر کے بمشکل دو وقت کی روٹی کا انتظام کر پاتے ہیں"۔ 

ان کی بستی کے رہنے والے 65 سالہ طارق عزیز بھی اپنی گائیوں اور بکریوں کا دودھ فروخت کر کے گزر بسر کر رہے ہیں حالانکہ سیلاب سے پہلے وہ 40 ایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہونے کی وجہ سے متمول لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ "میں خود تو بیمار ہونے کے باعث کوئی کام نہیں کر سکتا لیکن میرے بیٹے روزانہ محنت مزدوری کرنے کے لیے ادھر ادھر کے دیہات اور قصبوں میں چلے جاتے ہیں جہاں کبھی انہیں کام مل جاتا ہے اور کبھی کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا"۔

سیلاب میں ڈوبی ہوئی تل کی فصلسیلاب میں ڈوبی ہوئی تل کی فصل

بونگا شامند مراد کے کاٹھیا نامی گاؤں کا حصہ ہے جو ساہیوال شہر سے تقریباً 40 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔ راوی میں آنے والے سیلاب نے اس پورے گاؤں کو ہی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ 

یہاں کے سیلاب متاثرین میں 60 سالہ نذیر احمد شامل ہیں جو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر 55 ایکڑ اراضی پر کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اب ان کے معاشی حالات اتنے خراب ہیں کہ انہیں کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لیے بھی روزانہ محنت مزدوری کرنا پڑ رہی ہے۔ جس دن انہیں کام نہ ملے اس دن، ان کے بقول، انہیں "کھانا بھی مانگ کر کھانا پڑتا ہے"۔ 

ان سیلاب متاثرین کو یہ شکایت بھی ہے کہ ان کے پاس کوئی حکومتی امدد نہیں پہنچی۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مقامی سرکاری سکول میں ایک میڈیکل کیمپ لگانے کے علاوہ حکومت نے نہ تو انہیں پیسے اور راشن فراہم کیے ہیں اور نہ ہی ان کی رہائش کے لیے کوئی خیمہ بستی قائم کی ہے۔ چنانچہ پچھلے چھ ہفتوں سے وہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے دیہات کے قریب بلند جگہوں پر رہائش پذیر ہیں۔ 

افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے

طارق عزیز کہتے ہیں کہ سیلاب کی رات جیسے ہی راوی میں پانی کی سطح بلند ہونا شروع ہوئی مقامی زمین کٹاؤ کا شکار ہو کر دریا برد ہونے لگی۔ اس کے نتیجے میں ان کے اپنے گھر اور کھیتوں سمیت بڑے پیمانے پر مکان، سبزیات اور کپاس اور تِل کی فصلیں پانی میں بہہ گئیں۔ 

غلام قادر اس نقصان کی تفصیل بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں مجموعی طور پر تین سو ایک ایکڑ زرعی رقبہ دریا کے کٹاؤ اور سیلاب سے متاثر ہوا ہے جو کل مقامی اراضی کا سات فیصد بنتا ہے۔ انہیں شکوہ ہے کہ حکومت نے اس رقبے پر لگی ہوئی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا جائزہ لینے کا تردد تک نہیں کیا۔ 

لیکن ساہیوال کے ایڈیشنل ڈپٹی کلکٹر ریونیو اور سیلاب متاثرین کی امداد کے نگران اہل کار طارق حسین کا کہنا ہے کہ مراد کے کاٹھیا کا تمام زرعی رقبہ درحقیقت دریا کا پاٹ ہے جہاں لوگوں نے قبضے کر کے غیرقانونی طور پر کاشت کاری کر رکھی ہے۔ اس لیے، ان کے مطابق، "حکومت یہاں فصلوں کو ہونے والے نقصان کا معاوضہ نہیں دے سکتی کیونکہ قانونی طور پر یہ معاوضہ صرف انہی لوگوں کو دیا جا سکتا ہے جو سیلاب سے متاثر ہونے والی زمین کے جائز مالک ہوں"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے: 'مسلسل سیلابی پانی کی زد میں رہنے سے جیکب آباد کی زرعی زمین ناقابل کاشت ہو گئی ہے'۔

مقامی زمین دار ان سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں کا تمام رقبہ نہیں بلکہ صرف ایک سو 75 ایکڑ اراضی دریا کے پاٹ میں واقع ہے۔ ان کے مطابق باقی تمام زمین ان کی ذاتی ملکیت ہے جس کی "ضروری دستاویزات ہمارے پاس موجود ہیں"۔ اپنے دعوے کے حق میں ایک اور ثبوت پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ "ہر موسم برسات کے بعد دریا میں پانی کا بہاؤ کم ہونے کے بعد ہم اپنی زمین پر دوبارہ کاشت کاری شروع کر دیتے ہیں لیکن کبھی کسی حکومتی اہل کار نے ہمیں یہ نہیں کہا کہ اس کے لیے ہمیں کسی قسم کی اجازت کی ضرورت ہے"۔ 

ان میں سے غلام قادر جیسے بزرگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نہ صرف ان کے نقصانات کی تلافی کرنے کو تیار نہیں بلکہ آنے والے سالوں میں بھی انہیں سیلاب سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرنا چاہتی۔ ان کے مطابق یہ مسئلہ بڑی آسانی سے مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکتا تھا اگر اُس بند کی لمبائی ایک کلومیٹر اور بڑھا دی جاتی جو 2021 میں مراد کے کاٹھیا کو راوی کے دوسری طرف واقع دیہات سے ملانے والے پُل کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا۔ مگر، ان کے بقول، "حکومت کو پُل کی تو فکر ہے لیکن ہماری زمینوں، فصلوں اور گھروں کا کوئی خیال نہیں"۔

تاریخ اشاعت 19 ستمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

الویرا راشد کا تعلق ساہیوال سے ہے۔ پچھلے دس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ شہری مسائل اور زراعت ان کی دل چسپی کے موضوعات ہیں۔

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

قصور کو کچرہ کنڈی بنانے میں کس کا قصور ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

افضل انصاری
thumb
سٹوری

چڑیاں طوطے اور کوئل کہاں غائب ہو گئے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنادیہ نواز

گیت جو گائے نہ جا سکے: افغان گلوکارہ کی کہانی

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.