خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک: کوئٹہ میں سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام کب شروع ہو گا؟

postImg

عاصم احمد خان

postImg

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک: کوئٹہ میں سیلاب متاثرین کی بحالی کا کام کب شروع ہو گا؟

عاصم احمد خان

بارش کے نہ تھمنے والے سلسلے نے شفیع اللہ کو بے سکون کر رکھا تھا۔ وہ اندھیرے میں ڈوبے کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے بار بار کھڑکی سے باہر کی صورتحال کا جائزہ لیتے اور پھر اپنے بچوں کی طرف فکر مندی سے دیکھتے تھے۔

دو کمروں کےاس گھر کی دیواریں اب مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہیں تھی اور چھت کسی بھی وقت زمیں بوس ہوسکتی تھی۔

یہ خستہ حال مکان اور ایک ایکڑ پر مشتمل سیب  کا چھوٹا سا باغ ہی 52 سالہ شفیع اللہ کا کل سرمایہ ہے۔ شفیع گھر کے واحد کفیل ہیں اور اسی باغ کی آمدن سے اپنا، اپنی بیوی اور 7 بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ کئی روز جاری رہنے والی بارشوں نے پہلے ہی کوئٹہ کے نواحی علاقے اوڑک میں سیلاب کی صورتحال پیدا کردی تھی اور پہاڑ سے آنے والا سیلابی پانی بھی اب آس پاس کے گھروں میں داخل ہونے لگا تھا۔

پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا اور پانی گھر میں داخل ہونے لگا۔ شفیع اللہ گھبرا کر اٹھے اور جلدی سے بیوی بچوں کو جگایا۔ وہ انہیں ساتھ لےکر قریبی پہاڑی کی جانب روانہ ہو گئے۔ اس راستے پر انہیں کئی دیگر لوگ بھی نظر آئے جو گھروں میں اچانک پانی داخل ہونے کے بعد پہاڑی پر پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔

اگلی صبح پانی کے بہاؤ میں کچھ کمی آئی تو شفیع اللہ فوراً گھر کا جائزہ لینے پہنچ گئے لیکن ان کا گھر ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ سیلابی پانی نے پورے گاؤں کے مکانات کو زمین بوس کر دیا تھا۔

محکمہ موسمیات کوئٹہ کے مطابق صوبے میں 1961ء کے بعد سب سے زیادہ بارشیں 2022ء میں ریکارڈ کی گئیں۔ شدید گرمی کی لہر اور خشک سالی سے بلوچستان کو پہلے ہی سخت ترین حالات کا سامنا تھا اور اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات غیر معمولی بارشوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔

اوڑک کوئٹہ کے وسط سے 20 کلومیٹر کے فیصلے پر شمال اور مشرقی کوہ زرغون اور چارشاخ کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔ ہنہ اور اوڑک دراصل ضلع کوئٹہ کی دو یونین کونسلیں ہیں جو  سیاحتی مقامات کے طور پر مقبول ہیں۔
اوڑک کی آبادی 10 ہزار سے زیادہ ہے اور یہاں کے 90 فیصد رہائشیوں کا روزگار سیب کے باغات سے وابستہ ہے۔

کہ طوفان ابھی تھما نہیں!

شفیع اللہ کا خاندان چار ماہ کے بعد بھی اپنے گھر کے قریب زمین کے نسبتاً خشک حصے پر خیمے میں رہائش پذیر ہے۔ موسم سرما اپنے جوبن پر ہے اور درجہ حرارت اب نقطہ انجماد سے مسلسل نیچے رہتا ہے، ان کا خیمہ سرد ہواؤں کو روک نہیں پاتا لہذٰا وہ زیادہ تر وقت اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خیمے میں کمبل اوڑھے ہی گزارتے  ہیں جو انہیں ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ملے ہیں۔

شفیع اللہ کے مطابق سیلاب میں ان کے گھر کے علاوہ ان کا باغ بھی تباہ ہو گیا جو ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ "چار ماہ گزر چکے ہیں، یہاں سڑک نہیں بنائی گئی نہ ہی کسی نے امداد بھیجی ہے اور نہ ہی کسی نے گھر دوبارہ تعمیر کرنے میں کوئی مدد دی ہے، جو امداد اس علاقے میں آتی ہے وہ چند بااثر افراد لے جاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کس کے در پر جاکر مدد مانگیں"۔

شفیع اللہ کی پریشانیاں وقت گزرنے کے ساتھ بڑھ رہی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بچوں کو کھلانے کیلئے کچھ نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "سیلاب نے باغ کو تباہ کردیا۔ سیب کے درجنوں درخت پانی میں بہہ گئے اور جو بچ گئے ان کا پھل ضائع ہو گیا"۔

شفیع اللہ سیب کی فروخت سے سالانہ 10 سے 12 لاکھ روپے کماتے تھے جس سے ان کے بچوں کی ضروریات اور آئندہ فصل کے اخراجات پورے ہو رہے تھے مگر اس سال وہ صرف ایک لاکھ روپے ہی کما سکے ہیں۔

اوڑک کے گاؤں کلی مالک  سے تین کلو میٹر دور سراغڑگئی میں بھی سیلاب نے ایسی ہی تباہی مچائی ہے۔ سراغڑگئی کوئٹہ شہر سے 17 کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے جس کی آبادی مقامی افراد کے مطابق چھ ہزار سے زیادہ ہے۔

سراغڑگئی کے رہائشی 36 سالہ باچا خان اپنی مدد آپ کے تحت گھر کو دوبارہ تعمیر کررہے ہیں۔ کئی دنوں کی مشقت کے بعد وہ چار دیواری ہی مکمل  کرپائے ہیں کیونکہ وہ مزدوروں کو معاوضہ ادا نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ خود ہی  گھر کی تعمیر میں مصروف ہیں۔

باچا کہتے ہیں کہ "میں نے بہت انتظار کیا کہ انتظامیہ کی جانب سے گھر کو دوبارہ تعمیر کرنے میں مدد ملے گی مگر جب مسلسل انتظار کے بعد بھی مدد کے کوئی آثار نظر نہ آئے تو میں نے خود ہی ہمت کی اور کچھ رشتہ داروں اور علاقے کے مخیر حضرات سے قرض لے کر اپنے گھر کی دوبارہ تعمیر شروع کردی۔ مگر میرے پاس اب بھی اتنے پیسے نہیں کہ گھر کی چھت تعمیر کرسکوں"۔

باچا کا کہنا ہے کہ اس سخت سردی میں خیمے میں بچوں اور عورتوں  کا گزارا ممکن نہیں۔ بچے سردی کی شدت برداشت نہیں کر پا رہے اور بیمار رہتے ہیں۔ "میں چاہتا ہوں کہ ایک کمرہ ہی تعمیر ہوجائے تاکہ یہ سردی ہم چھت تلے گزار سکیں"۔

سیلاب نے باچا خان کے سیب کے باغ کو بھی بری طرح تباہ کردیا۔ انہیں اس باغ سے سالانہ پانچ سے چھ لاکھ روپے تک منافع ہوتا تھا مگر اس سال انہیں ایک روپے کی کمائی بھی نہیں ہوئی۔باچا خان کہتے ہیں "میرا کوئی معاشی مستقبل نہیں اور میں نہیں جانتا کہ دوبارہ کیسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکوں گا؟"

سیلاب بلوچستان کا کیا کچھ بہا لے گیا

وفاقی وزارت منصوبہ بندی و ترقی کی پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈ اسسمنٹ رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سیلاب سے 890 ارب روپے کا نقصان ہوا جبکہ بحالی کے لیے کم از کم 490 ارب روپے درکار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث غربت کی شرح میں تقریباً آٹھ فیصد مزید اضافے کا امکان ہے۔

سیلاب کے باعث صوبے کے 24 لاکھ افراد خوراک کی قلت کا بھی شکار ہوگئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ ڈھائی لاکھ مکانات کی تعمیر نو پر 31 ارب روپے جبکہ مرمت پر 21 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

بلوچستان میں زرعی شعبہ بھی سیلاب سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبے کو زراعت کے شعبے میں 57 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے جس کی بحالی کیلئے 30 ارب روپے سے زیادہ رقم درکار ہے۔

بلوچستان میں سیلاب سے لائیو سٹاک کے شعبے کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے۔

رپورٹ کے مطابق صوبے میں تین لاکھ 95 ہزار مویشی سیلاب کی نذر ہوئے۔

بلوچستان کی صورت حال ملک کے باقی حصوں کی نسبت زیادہ خراب ہے کیونکہ یہاں آبادی کم ہے جس کی بڑی اکثریت غریب ہونے کے علاوہ وسیع و عریض علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

بلوچستان کی صوبائی کابینہ نے صوبے میں فلڈ ایمرجنسی اسسٹنس پروگرام کی منظوری دی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے  کہ صوبائی حکومت نے متاثرہ علاقوں کے کاشتکاروں کی بحالی کے لیے 16 ارب روپے کی لاگت کا پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت انہیں شمسی توانائی، بیج اور کھاد پر سبسڈی دی جائے گی تاکہ وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکیں۔

عجب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا

سیلاب سے نقصانات اور بحالی کیلئے صوبائی حکومت کا سروے مکمل ہوچکا ہے تاہم متاثرین کو فی الحال کوئی اقدامات ہوتے نظر نہیں آرہے۔

کوئٹہ کے علاقے نواں کلی سے تعلق رکھنے والے صابر احمد کے مطابق حکومتی ٹیم دو ماہ قبل سروے کرنے آئی لیکن تاحال  امداد کیلئے کوئی نہیں آیا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومتی ٹیم نے دوبارہ آبادکاری کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا، لہذٰا وہ نہیں جانتے کہ کب تک اس سخت سردی میں وہ خیموں میں رہیں گے؟

کوئٹہ کے علاقے چشمہ اچوزئی کو بھی بارشوں اور سیلاب کے باعث بے حد نقصان پہنچا ہے اور اب سخت سردی یہاں متاثرین کے لئے بڑا امتحان ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کئی طوفان آئیں گے اب اس سیلاب سے آگے: 'مسلسل سیلابی پانی کی زد میں رہنے سے جیکب آباد کی زرعی زمین ناقابل کاشت ہو گئی ہے'۔

چشمہ اچوزئی کوئٹہ ایئرپورٹ سے پانچ کلومیٹر فاصلے پر واقع ہے، ماضی میں اس علاقے میں بڑی تعداد میں باغات ہوا کرتے تھے جو پچھلے دس سال میں نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں اور ان کی جگہ درجنوں ہاؤسنگ سکیموں نے لے لی ہے۔

39  سالہ شہاب الدین اس علاقے کے ان مکینوں میں سے ایک ہیں جن کے گھر بارش کے باعث زمین بوس ہوگئے اور آج وہ خون جما دینے والی سردی میں اپنے خاندان سمیت ایک خیمے میں محصور ہیں۔

شہاب الدین کے چار بچے ہیں اور وہ پرچون کی دکان چلا کر گزر بسر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں ںے "بیس سال کی محنت سے یہ گھر تعمیر کیا تھا جو پل بھر میں مٹی کا ڈھیر بن گیا، اب میں اسے دوبارہ کیسے تعمیر کروں گا؟"

شہاب کے مطابق حکومت کی جانب سے تاحال انہیں کسی قسم کی امداد نہیں دی گئی تاہم ایک غیرسرکاری تنظیم کی جانب سے انہیں دو گارڈر اور آٹھ بانس ملے ہیں جوگھر تعمیر کرنے کیلئے ناکافی ہیں۔

کوئٹہ کی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ خود ہی متاثرینِ کی مدد کرسکے۔ کوئٹہ کے اسسٹنٹ کمشنر نثار احمد لانگو نے  بتایا کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات سے متعلق سروے رپورٹ وفاقی حکومت کو ارسال کی گئی ہے تاہم ابھی تک انہیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ پی ڈی ایم اے کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ متاثرہ خاندانوں کے لئے گرم کپڑوں اور کمبلوں کا بندوبست کیا جا سکے۔

تاریخ اشاعت 6 جنوری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عاصم احمد کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں اور 2015 سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔وہ ہیومن رائیٹس، ماحولیات، اکانومی اور انتہاپسندی پر رپورٹ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.