قمبر شہداد کوٹ کی سیلاب زدہ خواتین بیت الخلا کی عدم دستیابی کی وجہ سے طبّی مسائل کا شکار

postImg

مومل زیدی

postImg

قمبر شہداد کوٹ کی سیلاب زدہ خواتین بیت الخلا کی عدم دستیابی کی وجہ سے طبّی مسائل کا شکار

مومل زیدی

سندھ کے شمال مغربی ضلع قمبر شہداد کوٹ سے لاڑکانہ کی طرف سفر کے دوران مرکزی شاہراہ کے دونوں طرف سیلاب متاثرین کی بہت سی خیمہ بستیاں دکھائی دیتی ہیں۔ قصبہ میرو خان کے قریب گھاس پھوس سے بنی چند جھونپڑیوں اور تین خیموں پر مشتمل ایسی ہی ایک بستی میں رہنے والے 10 خاندانوں کو یوں تو درجنوں مسائل درپیش ہیں لیکن بستی میں بیت الخلا کی مناسب سہولت نہ ہونے سے ان لوگوں خصوصاً یہاں رہنے والی خواتین کی صحت اور تحفظ کو خطرات لاحق ہیں۔

اس بستی میں ایک ہی بیت الخلا ہے جس کی دیواریں پلاسٹک کے تھیلوں سے بنائی گئی ہیں اور اس کی اونچائی صرف ڈھائی فٹ ہے۔ یہاں رہنے والی لیلیٰ بی بی کا کہنا ہے کہ اس بستی میں تقریباً 40 خواتین اور لڑکیوں کے لئے دن کے وقت بیت الخلا کا رخ کرنا دشوار ہوتا ہے کیوں کہ وہ کھلے عام وہاں جانے میں شرم محسوس کرتی ہیں اور انہیں عدم تحفظ کا احساس بھی رہتا ہے۔ اسی لئے وہ بیت الخلا استعمال کرنے کے لئے رات ہونے کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔

اس بیت الخلا سے خارج ہونے والا پانی قریب ہی ایک جوہڑ میں جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ جگہ ہر وقت متعفن رہتی ہے۔ بستی کی خواتین نے بتایا کہ جس جگہ یہ بیت الخلا بنایا گیا ہے وہ اس قدر اونچی نیچی اور نم دار ہے کہ وہاں پاؤں جمانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ لیلیٰ بتاتی ہیں کہ اس بیت الخلا کی دیواریں پردے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی خاتون کو دن کے اوقات میں یہاں آنا ہو تو اس کے گرد چادروں سے پردہ کرنے کے لئے دیگر خواتین کو بھی اس کے ساتھ آنا پڑتا ہے۔

سیلابی پانی کے قریب پلاسٹک کے تھیلوں سے بنا گیا بیت الخلاسیلابی پانی کے قریب پلاسٹک کے تھیلوں سے بنا گیا بیت الخلا

یہ حالات اس بستی یا قمبر شہداد کوٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس سے جنوب میں ضلع دادُو میں قائم کی جانے والی سیلاب متاثرین کی بستیوں میں بھی خواتین کو ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ دادُو کی تحصیل خیرپور ناتھن شاہ سے 10 کلومیٹر مغرب کی جانب عبداللہ کھوسہ گاؤں میں سو سے زیادہ گھر سیلاب میں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو گئے ہیں۔ اس جگہ رہنے والے سینکڑوں سیلاب متاثرین کے لئے صرف سات بیت الخلا ہیں جن میں سے تین کچی اینٹوں سے بنے ہیں جبکہ چار پلاسٹک کے تھیلوں کو جوڑ کر بنائے گئے ہیں۔ یہاں سے خارج ہونے والا فضلہ اور گندا پانی کچھ فاصلے پر جمع ہوتا رہتا ہے۔

اس گاؤں کی رہنے والی 40 سالہ سکینہ کہتی ہیں کہ بھوک افلاس اور بے سروسامانی اپنی جگہ لیکن مناسب بیت الخلا نہ ہونا اس بستی کی عورتوں اور بچیوں کا اصل مسئلہ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں کی خواتین نے اپنی مدد آپ کے تحت چند پرانے بیت الخلا بحال کیے ہیں اور چند نئے بیت الخلا بھی بنائے ہیں لیکن یہ تین سو سے زیادہ خواتین کے لئے ناکافی ہیں۔

اسی بستی کی رہائشی 35 سالہ رُباب کھوسہ کے بقول یہاں لگ بھگ پچاس خواتین حاملہ ہیں جن کا اس طرح کے بیت الخلا میں جانا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ یہاں پانی کے باعث پھسلن رہتی ہے، حفظان صحت کا کوئی انتظام نہیں ہے اور غیر محفوظ انداز میں بیت الخلا استعمال کرنے سے ماں اور بچے دونوں کی صحت اور زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

اس بستی کی عورتوں کا کہنا ہے کہ سیلاب کے بعد چند غیر سرکاری تنظیمیں ان کی مدد کے لئے آئی تھیں جنہوں نے انہیں کھانا اور چند خیمے فراہم کیے تھے لیکن بیت الخلا بنانے کے لئے کسی نے کوئی کام نہیں کیا۔

حالات کے رحم و کرم پر

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین معلومات کے مطابق سندھ میں تقریباً ایک کروڑ 23 لاکھ اور 57 ہزار افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں دو لاکھ سے زائد کو نقل مکانی کرنا پڑی ہے۔ ان میں تقریباً ساڑھے چار ہزار افراد کو ہی امدادی کیمپوں میں جگہ ملی ہے جبکہ باقی تمام لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ٹیلوں پر، بڑی سڑکوں کے کنارے یا سیلاب سے محفوظ آبادیوں کے قریب رہ رہے ہیں۔ ان لوگوں میں خواتین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔

 حکومتی امداد نہ ملنے کے باعث سیلاب متاثرین تاحال خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں حکومتی امداد نہ ملنے کے باعث سیلاب متاثرین تاحال خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں

رپورٹ کے مطابق حکومت نے صوبہ بھر میں سیلاب متاثرین کو ایک ہزار تین سو 70عارضی بیت الخلا مہیا کیے ہیں۔ اگر بے گھر ہونے والے تمام متاثرین کو مدِ نظر رکھا جائے تو تقریباً ڈیڑھ سو افراد کے لئے ایک بیت الخلا دستیاب ہے۔

بچوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر سیف اللہ ’سیف چائلڈ‘ کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم چلا رہے ہیں جو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بچوں اور ماؤں کی صحت کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ متاثرین کی بستیوں میں بیت الخلا کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث گیسٹرو، خونی پیچش اور پیپاٹائٹس اے جیسی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کو روزِمرہ استعمال کے لئے صاف پانی میسر نہیں ہے اور جو پانی وہ استعمال کرتے ہیں وہ بھی فضلے سے آلودہ ہو رہا ہے جس سے بیکٹیریل اور وائرل انفیکشن عام ہونے کا خدشہ ہے۔

سیلاب متاثرہ خواتین نے اپنی مدد آپ کے تحت گھر کے قریب بیت الخلا بنایا ہےسیلاب متاثرہ خواتین نے اپنی مدد آپ کے تحت گھر کے قریب بیت الخلا بنایا ہے

 اسی طرح ہاتھوں اور جسم کی اچھی طرح صفائی نہ ہونے اور گندے پانی میں دُھلے کپڑے پہننے کے باعث بہت سی جِلدی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ ڈاکٹر سیف کے مطابق حمل یا حیض کے ایّام میں ناقص بیت الخلا استعمال کرنے والی خواتین مثانے کی نالی کے انفیکشن کا شکار ہو رہی ہیں۔ دورانِ حمل خواتین کو بیت الخلا استعمال کرنے کی حاجت بھی زیادہ ہوتی ہے جسے زیادہ دیر تک روکنا طبّی اعتبار سے بہت خطرناک ہوتا ہے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ اگر حکومت ہر دو خاندانوں کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جانے والا بیت الخلا مہیا کر دے تو خواتین کی صحت کو کافی حد تک تحفظ مل سکتا ہے۔

سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیشتر خواتین کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ انہیں کم از کم ایسے بیت الخلا ضرور مہیا کیے جائیں جہاں پردے کا مناسب انتظام ہو۔ رُباب کھوسہ شکوہ کرتی ہیں کہ سیلاب میں حکومت نے خواتین کے مخصوص مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور کسی غیر سرکاری تنظیم نہیں بھی انہیں توجہ کے قابل نہیں سمجھا۔

تاریخ اشاعت 10 دسمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مومل زیدی سُجاگ میں بطور وڈیو جرنلسٹ کام کرتی ہیں۔ سماجی مسائل خصوصا خواتین کے مسائل کی رپورٹنگ اور وڈیو ڈاکو مینٹری ان کے کام کا حصہ ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.