قبائلی اضلاع میں بند ہوتے کارخانے: ہزاروں محنت کشوں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا

postImg

اسلام گل آفریدی

postImg

قبائلی اضلاع میں بند ہوتے کارخانے: ہزاروں محنت کشوں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا

اسلام گل آفریدی

قبائلی ضلع خیبر کے امجد علی نے تین سال پہلے باڑہ میں لوہے کا کارخانہ لگایا تو انہیں بہت اچھے نتائج کی امید تھی۔ لیکن پچیس کروڑ روپے سے شروع کیا جانے والا یہ کاروبار انہیں تین سال میں ہی بند کرنا پڑ گیا اور اب وہ حکومت کے تقریباً چار کروڑ روپے کے مقروض ہیں۔

ان کے کارخانے میں پرانے لوہے (سکریپ) کو پگھلا کر اسے خام لوہے میں تبدیل کیا جاتا تھا۔ وہ اس لوہے کو سریا بنانے والے کارخانوں کو بیچتے تھے۔ اب کارخانے کو تالا لگ گیا ہے اور وہاں کام کرنے والے تقریباً ڈیڑھ سو افراد بے روزگار ہو گئے ہیں یا کہیں اور نوکریاں کر رہے ہیں۔

انہی لوگوں میں پشاور سے تعلق رکھنے والے تیس سالہ جلال خان بھی شامل ہیں جو اس کارخانے میں سکریپ کو پگھلانے کی بھٹی پر ڈیوٹی دیتے تھے۔ اس کام کی انہیں ماہانہ چالیس ہزار روپے تک اجرت ملتی تھی۔ کارخانہ بند ہوا تو انہوں نے کچھ تگ و دو کے بعد ایک جنرل سٹور پر ملازمت کر لی جہاں انہیں پانچ سو روپے دیہاڑی ملتی ہے۔

جلال خان کارخانے کی ملازمت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تب انہیں جو اجرت ملتی تھی اس سے ان کا گھر اچھا چلتا تھا۔ یہ کارخانہ ان کے گھر کے قریب بھی تھا جہاں وہ روزانہ پیدل چلے جاتے تھے۔  ان کا کہنا ہے کہ دیہاڑی کی یہ نوکری مہنگائی کے اس دور میں ان کے روزمرہ بنیادی اخراجات بھی پورے نہیں کرتی۔

خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے ضلع خیبر اور دیگر قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) میں پچھلے دو تین سال میں سٹیل کے 60 میں سے 35 کارخانے بند ہو گئے ہیں۔ سٹیل ملز ایسوسی ایشن ضلع خیبر کے سابق صدر حاجی اسلم آفریدی بتاتے ہیں کہ ان کارخانوں میں ہزاروں افراد ملازمت کرتے تھے جبکہ بہت سے لوگوں کا روزگار بالواسطہ ان کارخانوں سے منسلک تھا۔

سٹیل کے علاوہ دیگر صنعتوں کی بھی یہی صورتحال ہے۔ 2009 تک ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں ہی کپڑا تیار کرنے کے 135 چھوٹے بڑے کارخانے تھے جو اب بند پڑے ہیں۔ باڑہ پاور لومز ایسوسی ایشن کے صدر حاجی رضا خان کے مطابق ان کارخانوں میں تقریباً چار ہزار افراد کام کرتے تھے جو اب بےروزگار ہیں یا چھوٹی موٹی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

<p>ضلع خیبر اور دیگر قبائلی اضلاع میں پچھلے دو تین سال میں سٹیل کے 60 میں سے 35 کارخانے بند ہو گئے ہیں<br></p>

ضلع خیبر اور دیگر قبائلی اضلاع میں پچھلے دو تین سال میں سٹیل کے 60 میں سے 35 کارخانے بند ہو گئے ہیں

قبائلی اضلاع میں کارخانے بند ہونے کا سلسلہ پچھلے دو تین سال میں شروع ہوا جس کی بنیادی وجہ وہاں بجلی کے بلوں پر لاگو ہونے والی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس ہیں۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے وکیل مفرق شاہ کا کہنا ہے کہ 2018 میں 25ویں آئینی ترمیم کے بعد جب قبائلی علاقوں (فاٹا) کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا تو وہاں فوری طور پر انہی قوانین کا اطلاق ہونے لگا جو باقی ملک میں نافذ ہیں۔ حالانکہ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ملکی قوانین کو قبائلی اضلاع میں مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا۔

یہ سلسلہ 2019 میں شروع ہوا جب فیڈرل بیورو آف ریونیو نے ضم شدہ اضلاع میں قائم صنعتوں پر ٹیکس لاگو کرنے کے لئے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت مئی 2018 کے بعد قائم کئے جانے والے گھی، خوردنی تیل اور سٹیل کے کارخانوں سے بجلی کے بل میں سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصول کی جانے لگی۔

ان کارخانوں کے مالک اس فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ چلے گئے جس نے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی تو ختم کر دی جبکہ سیلز ٹیکس پر حتمی فیصلہ دینے تک حکم امتناع جاری کر دیا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایکسائز ڈیوٹی کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جو تاحال زیر التوا ہے۔ دوسری طرف بجلی کے بِلوں میں سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں بقایا جات تواتر جمع ہوتے رہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے باڑہ میں کپڑا بنانے کی ایک فیکٹری کے مالک ساجد علی کے ذمے دو سال کے چار کروڑ روپے واجب الادا ہیں جبکہ بعض کارخانہ دار ایسے بھی ہیں جن کے ذمے یہ رقم 30 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔

صنعت کاروں نے احتجاج شروع کیا تو حکومت نے ان علاقوں کو 30 جون 2023 تک انکم ٹیکس، وِد ہولڈنگ ٹیکس اور سیلز ٹیکس سے استثنا دے دیا گیا۔ مفرق شاہ بتاتے ہیں کہ اس فیصلے کے تحت قبائلی اضلاع میں قائم انڈسٹری کو خام مال کی درآمد اور تیار مال پر بھی ٹیکسوں کی چھوٹ دے دی گئی۔

امجد علی کا خیال تھا کہ ٹیکسوں میں چھوٹ سے ان کا کاروبار دن دُگنی رات چُگنی ترقی کرے گا۔ لیکن بجلی کے بِلوں میں فیول پرائس ایڈجسمنٹ اور کاؤنٹر ٹیرف کی مد میں ہونے والے اضافے کی صورت میں ان پر ایک نئی افتاد آن پڑی۔ اب انہیں بجلی کا ایک یونٹ 35 روپے کے بجائے 55 روپے میں پڑنے لگا۔

<p>  2009 تک ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں کپڑا تیار کرنے کے 135 چھوٹے بڑے کارخانے تھے جو اب بند پڑے ہیں<br></p>

  2009 تک ضلع خیبر کے علاقے باڑہ میں کپڑا تیار کرنے کے 135 چھوٹے بڑے کارخانے تھے جو اب بند پڑے ہیں

کاؤنٹر ٹیرف لائن لاسسز یا بجلی چوری کی مد میں عائد جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک گرِڈ سٹیشن سے ایک لاکھ یونٹ بجلی استعمال ہوئی ہے اور بجلی کے بِلوں میں نوے ہزار یونٹ ظاہر ہو رہے ہیں تو بقیہ 10 ہزار یونٹ متعلقہ گرڈ سٹیشن کے تمام صارفین میں برابر تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ امجد پر اب بجلی کے بلوں میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی مد میں ساڑھے چار کروڑ روپے کے واجبات ہیں۔

اسلم آفریدی کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں لائے جانے والے خام مال پر تو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے لیکن اسی خام مال سے تیار کردہ چیزیں جب ان اضلاع سے باہر بھیجی جاتی ہیں تو ان پر 16 فیصد سیلز ٹیکس اور دو فیصد انکم ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔

ضلع خیبر میں لوہے کے کارخانے بند ہونے کی ایک اور اہم وجہ خام مال کی عدم دستیابی ہے۔ اسلم آفریدی کے مطابق اپریل میں وفاقی حکومت نے صنعتوں کے لئے درکار خام مال کے درآمدی کوٹے میں 25 فیصد کمی کر دی جو بعد میں 50 فیصد تک بڑھا دی گئی۔ اس فیصلے سے خیبر اور مہمند میں سٹیل کے کارخانوں کی پیداواری صلاحیت متاثر ہوئی کیونکہ ان کے لیے 60 فیصد خام مال درآمد ہو کر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سنگِ مرمر کی صنعت کا احتجاج: 'بجلی کے بلوں میں اضافے سے فیکٹریاں چلانا منافع بخش نہیں رہا'۔

ملک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے حکومت ڈالر کی بیرون ملک منتقلی روکنے کے لئے لیٹر آف کریڈٹ (ایل سیز) نہیں کھول رہی۔ اس کے نتیجے میں کراچی بندرگاہ پر پڑے  کنٹینروں پر لگنے والے ڈیمرج کی رقم مال کی اصل قیمت سے بڑھ چکی ہے۔ بندرگاہ پر کھڑے کنٹینر کو ایک ہفتہ میں وہاں سے نہ نکالے جانے کی صورت میں روزانہ کے حساب سےعائد ہونے والے جرمانے کو ڈیمرج چارجز کہا جاتا ہے۔

حاجی رضا خان کہتے ہیں کارخانے بند ہونے سے ناصرف لوگوں کا روزگار متاثر ہوا بلکہ اس سے ان علاقوں میں عسکریت پسندی کی روک تھام کے عمل پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ''پچھلے چند سال میں سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے تقریباً 400 طالبان کو انہی کارخانوں میں ہنر سکھایا گیا جن کی 95 فیصد تعداد اب اپنی سابقہ سرگرمیاں ترک کر کے ماہانہ چالیس ہزار روپے تک کما رہی ہے۔ روزگار کے ذرائع بند ہونے سے ایسے لوگوں کو پرامن زندگی کی جانب واپس لانے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ 

تاریخ اشاعت 22 فروری 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.