ڈیجیٹل ٹرانسفر، بائیومیٹرک، کسان کے فون پر موصول کوڈ: فصلوں کی انشورنس کا پیسہ کہاں گم ہو رہا ہے؟

postImg

بلال حبیب

postImg

ڈیجیٹل ٹرانسفر، بائیومیٹرک، کسان کے فون پر موصول کوڈ: فصلوں کی انشورنس کا پیسہ کہاں گم ہو رہا ہے؟

بلال حبیب


•    2018-2017 میں حکومت پنجاب نے کراپ انشورنس کا نظام متعارف کیا تاکہ کسی آفت کی صورت میں کسانوں کے نقصان کی تلافی کی جا سکے

•    اس نظام کے تحت کسان ہر بار اپنی فصل رجسٹر کرواتے ہیں۔

•    پانچ ایکڑ سے کم والے کسانوں کا مکمل پرمیئم حکومت انشورنس کمپنی کو  ادا کرتی ہے اور پانچ سے 25 ایکڑ والوں کا آدھا۔

•    فصل کے نقصان کی صورت میں اس کا تخمینہ انفرادی سطح پر نہیں بلکہ تحصیل کے سطح پر اوسط پیداوار میں کمی کی بنیاد پر لگایا جاتا ہے۔

•    متعلقہ ادارے دعوی کرتے ہیں کہ کسانوں کو ادائیگیاں ایک شفاف نظام کے تحت کی جاری ہیں۔

•    لوک سجاگ نے ایسے 60 کسانوں کو فون کیے جن کو اداروں کے مطابق ادائیگیاں کی جا چکی ہیں۔ انہوں نے کیا جواب دیا؟


خادم حسین کی فصل ژالہ باری سے تباہ ہو گئی ہے۔ چونکہ وہ ہر سال محکمہ زراعت سے اپنی فصل کا بیمہ (انشورنس) کراتے ہیں اس لیے انہیں امید تھی کہ حکومت ان کے نقصان کا ازالہ کر دے گی لیکن انہیں بتایا گیا ہے کہ وہ معاوضے کے حق دار نہیں ہیں۔

خادم کا تعلق رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت آباد کے قصبے جمال دین والی سے ہے۔ وہ ایک ایکڑ (آٹھ کنال) زرعی رقبے کے مالک ہیں جس میں سے نصف ہی زیرکاشت ہے۔ اس مرتبہ انہیں چار کنال زمین سے بیس من تک گندم حاصل ہونے کی امید تھی لیکن بارش اور ژالہ باری نے ان کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا اور وہ سوا چھ من گندم ہی حاصل کر پائے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ تین سال پہلے جب ایک ایکڑ پر ان کی کپاس کی فصل خراب ہوئی تھی تو حکومت نے انہیں بائیس سو روپے معاوضہ ادا کیا تھا۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس مرتبہ انہیں معاوضہ کیوں نہیں دیا جا رہا۔

محکمہ زراعت کے ذیلی ادارے کراپ رپورٹنگ سروس کے ضلعی ڈپٹی ڈائریکٹر کاشف ندیم کا کہنا ہے اس بار خادم حسین کو اس لئے معاوضہ نہیں ملے گا کیونکہ ضلعے میں فصلوں کو مجموعی طور پر زیادہ نقصان نہیں ہوا۔

وہ بتاتے ہیں کہ بیمہ سکیم کے پیسے صرف ایسی صورت میں ملتے ہیں جب پوری تحصیل میں فصل خراب ہوجائیں۔ اگر چند ایک کسانوں کی فصل کو نقصان ہوا ہو تو کسی کو معاوضہ نہیں ملتا۔

پنجاب حکومت نے قدرتی آفات سے فصلوں کو ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے 'ایریا ییلڈ انڈیکس' کے طریقہ کار کے تحت 18-2017 میں فصلوں کی بیمہ سکیم (انشورنس) شروع کی تھی۔

یہ سکیم کراپ رپورٹنگ سروس پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عبدالقیوم کی نگرانی میں چل رہی ہے جو بتاتے ہیں کہ یہ ایک گروپ انشورنس ہے۔ اگر  کسی ضلعی مرکز، تحصیل یا یونین کونسل میں فصل کی پیداوار پچھلے دس سال کی اوسط پیداوار سے 10 تا 20 فیصد کم رہے تو وہاں کے تمام بیمہ شدہ کسانوں کو برابر معاوضہ دیا جاتا ہے، چاہے کسی کا نقصان نہ بھی ہوا ہو۔

ڈاکٹر عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ اگر گندم اور چاول کی فصل 10 فیصد اور کپاس کی فصل 20 فیصد سے زیادہ متاثر ہو تو کسانوں کو معاوضہ دے دیا جاتا ہے۔ اس کے لئے کسانوں کا ہر فصل کی کاشت سے پہلے محکمہ زراعت کے علاقائی دفتر میں اپنی رجسٹریشن کرانا ضروری ہے۔ اس سکیم کے تحت پانچ ایکڑ سے کم رقبے والے کسانوں کی انشورنس کا سو فیصد پریمیم اور پانچ سے 25 ایکڑ تک رقبے کا 50 فیصد پریمیم حکومت خود ادا کرتی ہے۔

عالمی بنک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس بیمہ سکیم کو چلانے کے اخراجات دوسری پالیسوں کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس کے طریقہ کار کے تحت کسی آفت کی صورت میں ہر ایک کسان کی فصل کا انفرادی معائنہ نہیں کرنا پڑتا۔ اس طرح اس سکیم کے اطلاق کے اخراجات نمایاں طور پر کم ہو جاتے ہیں اور یہ چھوٹے پیمانے پر کسانوں کے لئے موزوں ہوتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت پیداوار کے نقصان کا ازالہ مجموعی رقبے کی اوسط پیداوارکے حساب سے کیا جاتا ہے۔

پیسے بھیج تو دیئے لیکن پہنچے نہیں؟

کراپ رپورٹنگ سروس کے مطابق 2018ء اور 2022ء کے درمیان ایک لاکھ 40 ہزار سے زیادہ  کسانوں کو انشورنس کی مد میں ایک ارب 39 کروڑ روپے دیے جا چکے ہیں۔

لیکن رحیم یار خان کے قصبہ کوٹ سمابہ میں موضع بھگویلہ کے کسان صغیر احمد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے 2020ء میں اپنی کپاس کی فصل کی انشورنس کرائی تھی لیکن بڑے پیمانے پر فصلیں خراب ہونے کے باوجود وہ معاوضے سے محروم رہے۔

تاہم ضلعی محکمہ زراعت کے دفتر کا کہنا ہے کہ اُس سال ضلعے کی چار تحصیلوں رحیم یار خان، خان پور، لیاقت پور اور صادق آباد کے چھ ہزار 698 کسانوں کو تین کروڑ 42 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا گیا۔ اس حوالے سے محکمے کی فہرست میں ان کسانوں کے فون نمبر، پتے اور شناختی کارڈ نمبر بھی درج ہیں۔

لوک سجاگ نے اس فہرست میں موجود 60 کسانوں سے رابطہ کیا جن میں سے 26 کا یہ کہنا تھا کہ انہیں اُس سال کوئی معاوضہ نہیں ملا جبکہ 29 کسانوں کے فون نمبر بند ملے یا وہ نمبر کوئی اور افراد استعمال کر رہے تھے۔

اس فہرست میں بشارت علی ولد غلام محمد کا نام بھی درج ہے جنہیں چک 54 پی کا رہائشی بتایا گیا ہے لیکن جب ان سے رابطہ کیا گیا تو یہ نمبر سوات کے رہنے والے حشمت نامی شخص کا نکلا۔ حشمت یہ نہیں جانتے کہ ان کا نام اس فہرست میں کیسے شامل ہو گیا۔

رحیم یار خان میں آباد پور کی بستی واحد بخش کے محمد اصغر کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ وہ تصدیق کرتے ہیں کہ انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملا جبکہ ان کے بقول ان کا 20 لاکھ روپےکا نقصان ہوا تھا۔

60 میں سے صرف پانچ کسانوں نے تصدیق کی کہ انہیں اُس سال انشورنس کی مد میں کچھ نہ کچھ معاوضہ ملا تھا۔ ان میں آباد پور کی بستی غلام سرور کے مشرف حسین بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کی تین ایکڑ پر کپاس کی فصل متاثر ہوئی جس کے انہیں پانچ ہزار روپے ادا کئے گئے۔

محکمہ، کمپنی، بینک یا کسان: ذمہ دار کون؟

رحیم یار خان میں کراپ رپورٹنگ سروس کے ڈپٹی ڈائریکٹر کاشف ندیم سے جب پوچھا گیا کہ اس فہرست میں شامل کسانوں کو معاوضہ کیوں نہیں ملا تو ان کا جواب تھا کہ اس بارے میں انشورنس کمپنی ہی بتا سکتی ہے کہ ادائیگیاں کیوں نہیں کی گئیں۔ 2020ء میں خریف کے سیزن کے لئے بیمہ کا معاہدہ یونائیٹڈ انشورنس کمپنی (یو آئی سی) اور عسکری انشورنس کمپنی(AGI)  سے ہوا تھا۔

تاہم ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عبدالقیوم کہتے ہیں کہ ان کا محکمہ ہی کسانوں تک بیمہ کے پیسے پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ "بیمہ کلیم کے پیسے انشورنس کمپنی کے ذریعے ڈیجیٹل ٹرانسفر کئے جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے بائیومیٹرک کرانا ہوتی ہے۔ رقم کی وصولی کے لیے کسانوں کے موبائل فون نمبر پر کوڈ بھیجا جاتا ہےجسے دکھا کر کلیم کی رقم وصول کی جاسکتی ہے۔ اگر کسان یہ کوڈ گم کر بیٹھیں تو پھر سارا عمل دوبارہ کرنا ہوتا ہے۔"

ان کی رائے میں بہت سے کسان اپنے گھرانے کے دیگر ارکان کو بھی معاوضے کے لئے رجسٹرڈ کرا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے نام پر پیسے نہیں آتے۔ جب ان سے کسانوں کی جانب سے معاوضہ نہ ملنے کے دعووں کی بابت پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ رحیم یارخان دفتر سے اس بارے میں میں معلومات لے کر بتائیں گے۔

اس سے اگلے روز جب ان کے دفتر سے رابطہ کیا گیا تو وہاں کراپ رپورٹنگ سروس کے ڈپٹی ڈائریکٹر وسیم عباس نے بتایا کہ جن کسانوں کو ادائیگی نہیں ہوئی ان کے پیسے بینک میں موجود ہیں تاہم عدم ادائیگی کا مسئلہ کسانوں کےموبائل فون نمبروں کی وجہ سے ہے۔

بہت سے کسانوں کے موبائل فون نمبر ان کے اپنے ناموں کے بجائے رشتہ داروں کے نام پر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں رقم نہیں مل پاتی۔ وسیم عباس کے مطابق اگر کسان اپنے موبائل نمبر مقامی کراپ رپورٹنگ سروس کے دفتر میں جا کر اپ ڈیٹ کروا لیں تو ان کی رکی ہوئی ادائیگیاں ہو جائیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کسان کو کلیم کی رقم نہیں ملتی تو وہ بینک میں ہی پڑی رہتی ہے اور پھر واپس حکومتی خزانے میں چلی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کھاد پر امداد دینے کا پیچیدہ سرکاری طریقہ کار: پریشان حال کسان سبسڈی کے ٹوکن فروخت کرنے پر مجبور۔

"جن کسانوں کو ادائیگی نہیں ہوئی وہ کراپ رپورٹنگ سروس رحیم یارخان کے دفتر جا کر اپنا ڈیٹا اپ ڈیٹ کروائیں اور انہیں موبائل فون پر جو ٹرانزیکشن کوڈ موصول ہو اسے لے کر بینک چلے جائیں جہاں شنختی کارڈ دکھا کر انہیں پیسے مل جائیں گے۔"

کسان کیا کہتے ہیں؟

رحیم یار خان میں کسانوں کی غیرسرکاری تنظیم انجمن کاشت کاراں کے جنرل سیکرٹری محمد عامر غنی کے خیال میں یہ پالیسی سرے سے ہی غلط اصولوں پر بنی ہے۔

"اس میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک حکومت پوری تحصیل کو آفت زدہ قرار نہیں دے دیتی اس وقت تک کسانوں کو معاوضہ نہیں ملتا۔ اگر چند کسانوں کو پیسے ملتے بھی ہیں وہ اتنے کم ہوتے ہیں کہ اس سے ان کا بیج کا خرچ بھی پورا نہیں ہوتا"۔

عامر غنی کے بقول پچھلے سال سیلاب کی وجہ سے بہت سے کسانوں کی سیکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں تھیں لیکن انہیں نہ تو انشورنس کے کلیم ملے اور نہ ہی حکومت نے کسی قسم کی کوئی اور امداد ان تک پہنچائی۔

کسان بچاؤ تحریک پاکستان کے چیئرمین چوہدری محمد یاسین اور آل پاکستان کسان فاؤنڈیشن کے سربراہ محمود الحق بخاری کا ماننا ہے کہ فصلوں کی انشورنس ہونی چاہیے لیکن اس کے لئے ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جس کے ذریعے کسانوں کو ان کا معاوضہ باآسانی مل سکے۔

تاریخ اشاعت 22 مئی 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال حیب رحیم یا ر خان کے رہائشی ہیں۔ وہ گذشتہ 16سال سے انگریزی اردو پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

خیبر پختونخواہ میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.