مالاکنڈ ڈویژن کی انتظامیہ کے عدالتی اختیارات کے خلاف عوامی شکایات: 'ایگزیکٹو مجسٹریٹ عموماً یک طرفہ اور غیرمنصفانہ فیصلے کرتے ہیں'۔

postImg

عمر باچا

postImg

مالاکنڈ ڈویژن کی انتظامیہ کے عدالتی اختیارات کے خلاف عوامی شکایات: 'ایگزیکٹو مجسٹریٹ عموماً یک طرفہ اور غیرمنصفانہ فیصلے کرتے ہیں'۔

عمر باچا

جمشید علی شاہ نے 13 اپریل 2018 کو خیبرپختونخوا کے شمالی ڈویژن مالاکنڈ کے کمشنر کی کھلی کچہری میں اپنے ضلعے شانگلہ کے ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے خلاف شکایت کی۔ اگلے ہی دن وہ ایگزیکٹو مجسٹریٹ اپنے عملے کو لے کر صبح سویرے اُن کے گھر پہنچ گیا اور اس نے ان کے دروازے کے ساتھ بنی ہوئی سیڑھیوں کو تجاوزات قرار دے کر توڑنے کا حکم دے دیا۔ جب جمشید علی شاہ ںے اس پر احتجاج کیا تو انہیں گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا گیا۔

یہ واحد واقعہ نہیں جس میں کسی ایگزیکٹو مجسٹریٹ نے اپنے عدالتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی شخص کو فی الفور سزا دی ہو۔ بونیر، شانگلہ، سوات، مالاکنڈ، چترال، اپر دِیر، لوئر دِیر اور باجوڑ کے اضلاع پر مشتمل مالاکنڈ ڈویژن میں شہریوں کو ایسی بے شمار شکایات ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ضلعی انتظامیہ کے اہل کار اپنے عدالتی اختیارات کی بنیاد پر اکثر ان کے بنیادی حقوق پامال کرتے رہتے ہیں۔ 

یہ اختیارات تحصیل کی سطح پر متعین اسسٹنٹ کمشنروں کو حاصل ہیں تاکہ وہ 94 مختلف قسم کے جرائم میں ملوث لوگوں کو فوری طور پر سزائیں دے سکیں۔ ان جرائم میں امن و امان میں خلل پیدا کرنے، عوام میں اشتعال پھیلانے، جنگلات اور معدنی ذخائر کو نقصان پہنچانے، تجاوزات قائم کرنے، سرکاری عمارات اور تنصیبات کو توڑنے پھوڑنے اور سرکاری اور نجی املاک پر قبضہ کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ ان افسران کو حکومت کی طرف سے جاری کردہ لائسنس اور اجازت نامے طلب کرنے اور اشیائے ضرورت کے معیار اور قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے لیے دکانوں اور گوداموں پر چھاپے مارنے کے اختیارات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دائرہ اختیار میں شامل جرائم میں ملوث افراد کو موقع پر ہی تین سال تک قید اور جرمانے کی سزا دے سکتے ہیں۔

شانگلہ کی ضلعی انتظامیہ سے حاصل کردہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ یہ افسران پورے مالاکنڈ ڈویژن میں ہر سال ہزاروں مقدمے سنتے ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں صرف شانگلہ کی پانچ میں سے چار تحصیلوں، الپوری، بشام، پورن اور چکیسر، میں ایگزیکٹو مجسٹریٹوں کے پاس مختلف اقسام کے 14 سو 67 مقدمات آئے جن میں سے ایک ہزار 86 نمٹا دیے گئے جبکہ تین سو 75 ابھی زیر سماعت ہیں۔

ایک ملک دو نظام

ایک مقامی مذہبی تنظیم، تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی، نے 2009 کے شروع میں ضلع سوات کے علاقے مینگورہ میں کئی ہفتے دھرنا دے کر اسلامی نظامِ عدل کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ نتیجتاً حکومت نے پورے مالاکنڈ ڈویژن اور اس سے ملحقہ ضلع کوہستان میں شریعہ نظام عدل ریگولیشن نامی ایک قانون نافذ کر دیا تاکہ تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے مطالبے کے مطابق مقامی آبادی کو فوری اور سستا انصاف مہیا کیا جا سکے۔

تاہم اس قانون پر عمل درآمد کے لیے ضلعی انتظامیہ کو بعض ایسے اختیارات کی ضرورت تھی جو 2001 میں جاری کیے گئے اس صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے اس سے لے لیے گئے تھے جس کے تحت پاکستان بھر میں عدلیہ اور انتظامیہ کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا گیا تھا۔ اس لیے 2009 میں مالاکنڈ ڈویژن اور کوہستان کو اس آرڈی ننس کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا اور یوں مقامی انتظامیہ کے اہل کاروں کو عدالتی اختیارات مل گئے۔  

لیکن ایگزیکٹو مجسٹریسی کا یہ نظام مقامی لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اترا۔ درحقیقت بیشتر لوگ اب اس سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ ضلع شانگلہ کی تحصیل بشام میں مقامی مسائل کے حل کے لیے پیش پیش رہنے والے سید وصی شاہ عوامی جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نظام کے تحت مقدمات کے فیصلے نہ تو اسلامی قانون کے مطابق ہوتے ہیں اور نہ ہی ان سے لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل مقامی لوگوں کے لیے "انصاف کا حصول پہلے سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ایگزیکٹو مجسٹریسی میں مقدمات کے فیصلے کسی نظام کے تابع ہونے کے بجائے فرد واحد کی مرضی پر منحصر ہوتے ہیں"۔ 

سوات سے تعلق رکھنے والے سینئر قانون دان اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے کونسل ممبر شیر محمد خان کو بھی اس نظام سے یہی شکایت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو مجسٹریٹ مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے نہ تو گواہوں اور وکیلوں پر مبنی "عدالتی طریقہ کار اختیار کرتے ہیں اور نہ ہی فریقین کے دلائل سنتے ہیں"۔ 

شانگلہ کے علاقہ لیلونئی سے تعلق رکھنے والے 28 سالہ وکیل محمد سفیر خان بھی سمجھتے ہیں کہ "ایگزیکٹو مجسٹریٹوں کے فیصلے عام طور پر یک طرفہ اور غیرمنصفانہ ہوتے ہیں" کیونکہ وہ "ملزموں کا موقف سنے بغیر ہی ان پر جرمانے عائد کر دیتے ہیں"۔ اس رجحان کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ "جب جنگل سے غیر قانونی طور پر درخت کاٹنے کے الزام میں کسی شخص کو ایک ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ اسے موقع پر ہی جرمانہ کر دیتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتا کہ آیا وہ واقعی اس کام میں ملوث تھا یا نہیں"۔

اس لیے وہ ایگزیکٹو مجسٹریسی کو آئینِ پاکستان میں دیے گئے ان بنیادی حقوق کے منافی قرار دیتے ہیں جو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ کسی بھی الزام کا سامنے کرنے والے شہری کا مقدمہ منصفانہ طریقے سے سنا جائے گا۔ 

آئین بمقابلہ نظام

سات سال پہلے سوات سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل عدنان خان کی درخواست کی سماعت کرنے کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے 24 ستمبر 2015 کو شریعہ نظام عدل ریگولیشن کو آئین سے متصادم قرار دے کر اس کا نفاذ روک دیا تھا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں اسسٹنٹ کمشنروں کے پاس زیرالتوا مقدمات بھی مقامی عدالتوں کو منتقل کر دیے گئے تھے۔

لیکن چھ ماہ کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے ہی اس فیصلے کو معطل کرتے ہوئے ایگزیکٹو مجسٹریسی کا نظام دوبارہ بحال کر دیا (اگرچہ اس بحالی کے خلاف دی گئی درخواست ابھی بھی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے)۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرریاں 'چیف جسٹس آف پاکستان کی ذاتی ترجیحات پر منحصر ہیں'۔

عدنان خان اپنی درخواست میں اٹھائے گئے نکات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئین کی شق نمبر 203 کے تحت ایک صوبے میں کام کرنے والی تمام عدالتیں انتظامی طور پر اس صوبے کی ہائی کورٹ کے ماتحت ہونی چاہئیں لیکن ایگزیکٹو مجسٹریٹ ہائی کورٹ کو جواب دہ ہونے کے بجائے صوبائی انتظامیہ کے تحت کام کرتے ہیں۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ ایگزیکٹو مجسٹریسی آئین کے اس بنیادی تصور سے متصادم ہے جس کی رو سے عدلیہ اور انتظامیہ کو ایک دوسرے سے بالکل الگ ہونا چاہیے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "ایگزیکٹو مجسٹریٹوں کی طرف سے کیے گئے عدالتی فیصلے انتظامی اور سیاسی اثرات سے مبرا نہیں ہو سکتے" کیونکہ ان کے تقرر، تبادلے اور ترقی کا اختیار حکومت کو حاصل ہوتا ہے جو ان سے اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے اُن پر اپنے اختیار ات کا دباؤ ڈال سکتی ہے۔ 

انہی وجوہات کی بنا پر پشاور ہائی کورٹ مینگورہ بنچ بار ایسوسی ایشن نے جولائی 2022 کے شروع میں پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں ایگزیکٹو مجسٹریٹوں کو حاصل عدالتی اختیارات کے خاتمے کی استدعا کی گئی ہے۔ ہائی کورٹ نے اسے قبول کرتے ہوئے اس کی سماعت کی ذمہ داری اپنے مینگورہ بنچ کے ججوں جسٹس محمد نعیم انور اور جسٹس محمد اعجاز کو دی ہے جنہوں نے اس پر کارروائی شروع کرنے کے لیے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو اپنی عدالت میں طلب کر لیا ہے۔

تاریخ اشاعت 25 جولائی 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

عمر باچا خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔ انسانی حقوق، سماجی مسائل، سیاحت اور معیشیت کے حوالے سے رپورٹنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.