الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

postImg

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

آصف محمود

loop

انگریزی میں پڑھیں

تحریم فاطمہ ڈی ایچ ا ے لاہور کی رہائشی ہیں اور جوہر ٹاؤن میں نجی کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں۔ وہ آفس آنے جانے کے لیے اپنی گاڑی استعمال کرتی ہیں مگر انہیں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے پریشان کر رکھا ہے۔

"ہماری تنخواہیں پچھلے تین سال سے نہیں بڑھیں جبکہ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔خاص طور پر پٹرول  جو اس وقت (جون 2021ء) 110 روپے لٹر تھا اب 294 روپے لٹر ہے جس کی وجہ سے آفس آنے جانے پر میری جیب سے روزانہ ایک ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔"

ان کا کہنا ہے کہ وہ الیکٹرک گاڑی خریدنا چاہتی ہیں لیکن اچھی کوالٹی کی بیٹریوں والی گاڑیاں کافی مہنگی ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں صرف دو ہی چارجنگ سٹیشن ہیں جن میں سے کوئی ایک بھی ان کے دفتر کے راستے میں نہیں آتا جس کی وجہ سے وہ ابھی الیکٹرک گاڑی خریدنے کا رسک نہیں لے رہیں۔

پاکستان میں تین درجن سے زائد کمپنیوں کو الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور اسمبلنگ کے لائسنسں جاری ہو چکے ہیں مگر نہ تو اندرون ملک ان گاڑیوں کی خاطر خواہ پیداوار شروع ہو سکی ہے اور نہ ہی بیرون ملک سے زیادہ الیکٹرک گاڑیاں(ای وہیکلز) درآمد ہو رہی ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی شہری ای وہیکلز کو اپنانا نہیں چاہتے بلکہ یہاں لوگوں کی بڑی تعداد پٹرول کی بڑھتی قیمتوں سے تنگ ہے جو الیکٹرک گاڑیاں خریدنا چاہتی ہے۔ لیکن ان کے راستے میں دو بڑے رکاوٹیں حائل ہیں جن میں سے ایک ان گاڑیوں کی قیمت ہے جس کی وجہ مہنگی بیٹریاں ہیں اور دوسرا چارجنگ سٹیشنز کی کمی ہے۔

ای بائیکس رکھنے والوں نے اپنے گھروں جبکہ مختلف اداروں خاص طور پر ڈیلیوری کمپنیوں نے اپنے پارکنگ ایریاز میں چارجنگ پوائنٹ بنا رکھے ہیں جہاں رائیڈرز آسانی سے بائیک کی بیٹری ری چارج کر لیتے ہیں۔ فور یا تھری وہیلر گاڑیوں کے لیے ایسا انتظام نظر نہیں آتا۔

ای وہیکلز کی چارجنگ سے متعلق دنیا بھر کی معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ الیکٹرو میپ کے مطابق پاکستان میں اس وقت صرف آٹھ چارجنگ سٹیشن موجود ہیں جن میں سے اسلام آباد میں تین، لاہور میں دو جبکہ سرگودھا، حافظ آباد اور کراچی میں ایک، ایک سٹیشن کام کر رہا ہے۔

تاہم ملک بھر میں کام کرنے والی پٹرولیم کمپنی شیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے کراچی میں دو مقامات پر راشد منہاس روڈ اور گڈاپ ٹاؤن میں 'شیل ری چارج' کے نام سے ای گاڑیوں کی ری چارجنگ کے لیے سہولت فراہم کر دی ہے۔

ای گاڑیاں مہنگی کیوں ہیں؟

ٹیکنالوجی سے متعلق معلومات دینے والی' ایم او یو'(میک یوز آف)  کا کہنا ہے کہ "لیتھیم آئن بیٹری کی قیمت درحقیقت الیکٹرک گاڑی کی قیمت کے تقریباً نصف کے برابر ہوتی ہے" یعنی جب تک بیٹری سستی نہیں ہوتی تب تک ای گاڑیاں سستی نہیں ہو سکتیں۔"

جاپان کی اوساکا میٹروپولیٹن یونیورسٹی  کے محققین  نے سوڈیم پر مشتمل سلفائیڈز کے لیے ایک ترکیب تیار کی ہے جس کے تحت 'سالڈ سٹیٹ سوڈیم بیٹریاں تیار کی جائیں گی۔

یہ بیٹریاں، لیتھیم بیٹریوں سے زیادہ محفوظ اور سستی ہوں گی کیونکہ لیتھیم کی نسبت سوڈیم کہیں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔

ادھر ٹویوٹا  کمپنی پہلے ہی عندیہ دے چکی ہے کہ ان کی سالڈ سٹیٹ بیٹری والی پہلی ای گاڑیاں 2025ء تک سڑک پر آ سکتی ہیں جو گیم چینجر ثابت ہوں گی۔ سالڈ سٹیٹ بیٹریاں زیادہ طاقتور اور کم جگہ لیتی ہیں۔

تاہم جب تک سالڈ سٹیٹ بیٹریاں مارکیٹ میں نہیں آ جاتیں تب تک انہیں مہنگی لیتھیم بیٹریوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔

چائنیز کمپنی ای وی اون کی ای بائیکس اور رکشے اسمبل کرنے والی کمپنی کے ڈائریکٹر سیلز و مارکیٹنگ ہدایت الرحمٰن بتاتے ہیں کہ ٹو اور تھری وہیلر ای گاڑیاں بنانے والی بعض مقامی کمپنیاں لیتھیم کی یوزڈ (استعمال شدہ) بیٹریاں لگا رہی ہیں جو سستی پڑتی ہیں کیونکہ نئی لیتھیم بیٹری کافی مہنگی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بیٹری کی قیمت کا دارومدار اس کی کپیسٹی پر ہوتا ہے۔ زیادہ ایمپئر کی بیٹری کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

"ای بائیک اور ای رکشے میں لگی لیڈ ایسڈ گریفن بیٹریاں، گھر میں عام پوائنٹ پر چارج کی جا سکتی ہیں۔ یہ بیٹریاں چھ  سے آٹھ گھنٹے میں تقریباً ڈھائی یونٹ بجلی سے مکمل چارج ہو جاتی ہیں۔ ان کی اوسط عمر ایک ہزار سائیکل (ایک ہزار بار ری چارج) اور وارنٹی ایک سے ڈیڑھ سال ہوتی ہے۔"

سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی )کے سینیئر ریسرچ ایسوسی ایٹ عبید الرحمٰن ضیا بتاتے ہیں کہ ای وہیکلز سے ایندھن کے استعمال میں کمی اور ماحول میں بہتری آئے گی لیکن ان کو اپنانے میں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔

ان کے خیال میں ای گاڑیوں کے ماڈلز کی محدود تعداد، ہنرمند افراد کی کمی، مہنگی بیٹریاں اور ان کی کارکردگی کے علاوہ چارجنگ سٹیشنوں کا فقدان الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایس ڈی پی آئی نے ماہرین کی مدد سے اس سلسلے میں تجاویز مرتب کی ہیں جن کے مطابق پاکستان کو سی پیک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین سے سیل (cell) مینوفیکچرنگ ٹیکنالوجی حاصل کرنی چاہیے جس کے لیے حکومت کو بنیادی انفرا سٹرکچر بنانا ہو گا۔

 "مقامی سطح پر بیٹری سازی سے جہاں ملکی مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فائدہ ہو گا وہاں ای گاڑیایوں کی لائسنس ہولڈر 38 کمپنیوں کو بھی فائدہ ہو گا۔کوبالٹ اور لیتھیم بیٹریوں کے خام مال کی امپورٹ کے لیے بھی پاکستان کو اقدامات کرنا ہوں گے۔"

ایس ڈی پی آئی نے یہ تجویز بھی دی ہےکہ درآمدات میں کمی اور لیبر کی تربیت کے لیے ایک موٹر انسٹی ٹیوٹ کا قیام ضروری ہے جس میں لیتھیم بیٹریوں، بی ایل ڈی سی (برش لیس ڈائریکٹ کرنٹ) موٹرز اور کنٹرولرز  اور دیگر ای وی پارٹس کی تیاری و تحقیق کی سہولیات میسر ہوں۔

"اس سے ای وی سیکٹر میں جدت اور تکنیکی ترقی ہوگی جبکہ الیکٹرک گاڑیوں دیکھ بھال اور مرمت میں بھی آسانی ہوگی۔"

عبید الرحمٰن ضیا کا کہنا ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری اور فروخت کے لیے وزارت موسمیاتی تبدیلی سمیت متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو سبسڈی و مراعات دینی چاہئیں۔ بیٹری کی درآمد پر ٹیکس میں رعایت سے صارفین اور کاروباری اداروں کو الیکٹرک وہیکلز پر جانے کی ترغیب ملے گی۔

ایس ڈی پی آئی نے چارجنگ سٹیشنوں کے قیام کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی کی تجویز دیتی ہے۔

"بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں، پاور ڈویژن اور نیپرا حکام کے درمیان مضبوط باہمی روابط سے شہروں اور شاہراہوں پر چارجنگ انفراسٹرکچر کا قیام ترجیح ہونی چاہیے۔ درخواست آتے ہی ان سٹیشنز کو ٹرانسفارمرز اور کنکشن فوری ملنے چاہئیں۔"

انہوں نے کہا کہ حکومت چارجنگ سٹیشن آپریٹرز کو بجلی ریٹ پر سبسڈی یا ٹیکس میں مراعات دے، ہر پٹرول پمپ پر چارجنگ پوائنٹ کی تنصیب لازمی قرار دیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لیے سرمایہ کاری پر مراعات یا کم شرح سود والے قرضے دینا ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کیا حکومت الیکٹرک بائیکس اپنانے کے لیے لوگوں کو کوئی مراعات دے گی؟

پاکستان میں ای وہیکلز تیار کرنے والی ایک کمپنی 'سازگار انجیئنرنگ ورکس' کے پراجیکٹ ڈائریکٹر حسنین مہدی بتاتے ہیں کہ ای بائیکس کی بیٹریاں چھوٹی ہوتی ہیں جن کے لیے ہوم چارجر دستیاب ہیں۔ تین اور چار وہیلر گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے پوائنٹس نہ ہونا بڑا مسئلہ ہے۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ چارجنگ سٹیشن پر بھاری سرمایہ کا خرچ آتا ہے مگر حکومت نے ابھی تک اس کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ سرکاری پالیسی کے بغیر کوئی سرمایہ کاری کرنے پر تیار نہیں۔

"حکومت چارجنگ سٹیشنز کے لیے پالیسی کے ساتھ ای گاڑیوں کی تیاری اور خریداری پر بھی سبسڈی اور قرض کی سہولتیں متعارف کرائے۔"

انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے رکن عاصم ایاز سمجھتے ہیں کہ ای گاڑیوں کی تیاری میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے جبکہ بڑا مسئلہ ان مہنگی گاڑیوں کی فروخت ہے۔

"انجینئرنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ نے سی این جی پمپس کو ای وی چارجنگ سٹیشنز بنانے کی تجویز دی ہے جس کے لیے یقیناً موثر پالیسی اور ٹیرف سٹرکچر کی ضرورت ہو گی۔"

تاریخ اشاعت 3 مئی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

آصف محمودکا تعلق لاہور سے ہے۔ گزشتہ 20 سال سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں۔ غیرمسلم اقلیتوں، ٹرانس جینڈرکمیونٹی، موسمیاتی تبدیلیوں، جنگلات، جنگلی حیات اور آثار قدیمہ سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.