ڈاکٹر سمرین اقبال نو فروری کی دوپہر ساڑھے بارہ بجے الیکشن ڈیوٹی سے گھر واپس لوٹیں تو انہیں ڈیوٹی کے لیے نکلے 30 گھنٹے سے زائد کا وقت بیت چکا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ پریشانی میں رات بھر جاگنے کی وجہ سے ان کی والدہ کی حالت ابتر ہو چکی تھی۔ انٹرنیٹ اور فون سروس بند ہونے کے باعث ان کے والد اور بھائی بھی پولنگ سٹیشن اور ریٹرننگ افسروں (آر اوز) کے دفاتر کے چکر لگا کر تھک چکے تھے۔
سمرین اقبال فیصل آباد کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ آٹھ فروری کو این اے 103 اور پی پی 118 فیصل آباد کے ایک پولنگ سٹیشن پر ان کی بطور پریذائیڈنگ افسر ڈیوٹی تھی۔
انہوں نے فروری کے آغاز میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے بیرون ملک جانا تھا جس کے لیے وہ یونیورسٹی کی اجازت سے ویزہ اور ٹکٹ بھی حاصل کر چکی تھیں۔ تاہم چند روز قبل ان کی چھٹیاں منسوخ کر کے الیکشن ڈیوٹی لگا دی گئی۔
وہ کہتی ہیں کہ پولنگ ڈے سے ایک روز قبل جب وہ انتخابی سامان وصول کرنے کے لیے ریٹرننگ افسر (آر او ) کے دفتر پہنچیں تو وہاں سیکڑوں لوگ جمع تھے۔
"قومی اور صوبائی حلقوں کے ریٹرننگ افسر اور سامان تقسیم کرنے والا عملہ دوپہر 12 بجے کے بعد وہاں پہنچا اور پھر سامان کی تقسیم شروع ہوئی۔ ہمیں قطاروں میں لگ کر سامان وصول کرتے شام کے چھ بج گئے"۔
انہوں نے بتایا کہ اگلہ مرحلہ سامان کو پولنگ سٹیشن منتقل کرنے کا تھا جس میں مزید چار گھنٹے لگے اور وہ رات گیارہ بجے کے قریب واپس گھر پہنچ سکیں۔
"میں الیکشن کے روز صبح سات بجے دوبارہ پولنگ سٹیشن پہنچ چکی تھی لیکن وہاں تعینات دیگر عملہ لیٹ تھا جس کی وجہ سے پولنگ کا عمل ساڑھے آٹھ سے نو بجے کے درمیان شروع ہو سکا"۔
ان کا کہنا ہے کہ ووٹرز کی تعداد زیادہ تھی جبکہ پولنگ عملہ کم تھا جس کی وجہ سے وہ خود بھی اہلکار کی جگہ بیٹھ کر کام کرتی رہیں مگر پھر بھی امیدوار ناخوش تھے کہ پولنگ سست روی کا شکار ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پولنگ سٹیشن پر گنتی کا عمل رات ساڑھے نو بجے تک مکمل چکا تھا لیکن واپسی کے لیے انہیں رات گیارہ بجے تک انتظار کرنا پڑا۔
"میں اسی سکول میں قائم تین دیگر پولنگ سٹیشنز کی پریذائیڈنگ افسروں کے ہمراہ فوج کی سکیورٹی میں روانہ ہوئی۔ سامان اور ووٹوں کے تھیلے بھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم رات ساڑھے بارہ بجے کے قریب اقبال سٹیڈیم میں آر او آفس پہنچے تو وہاں پریذائیڈنگ افسروں کا رش لگا ہوا تھا"۔
"سامان جمع کرنے کے لیے این اے 103 کا آر او آفس اقبال سٹیڈیم جبکہ پی پی 118 کا آر او آفس کمشنر کے دفتر میں تھا جس کی وجہ سے مجھے بار بار دونوں دفاتر کے چکر لگانا پڑے۔ سخت سردی اور نصف شب میں دونوں جگہ خواتین کے لیے بیٹھنے کا مناسب انتظام تھا نہ ہی کھانے کو کچھ میسر آیا"۔
ڈاکٹر سمرین بتاتی ہیں کہ بیلٹ باکسز اور تھیلے وغیرہ واپس کرنے کے بعد فارم 45 جمع کرانے کے لیے پھر دونوں جگہ لمبی قطاروں میں انتظار کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اگلے دن کا سورج نمودار ہو گیا۔
"میری پہلی بار الیکشن ڈیوٹی لگی ہے جس کے لیے میں بہت پرجوش تھی لیکن سوائے مایوسی اور تنقید سننے کے کچھ نہیں ملا۔ یہ تجربہ اتنا برا تھا کہ میں آئندہ کبھی الیکشن ڈیوٹی نہیں کروں گی"۔
ضلع فیصل آباد کے 10 قومی اور 21 صوبائی حلقوں میں 52 لاکھ 97 ہزار 899 ووٹرز کے لیے تین ہزار687 پولنگ سٹیشن بنائے گئے تھے۔
2018ء میں یہاں اتنے ہی حلقوں میں تین ہزار 771 پولنگ سٹیشن بنائے گئے تھے۔ اس وقت ووٹرز کی کل تعداد 44 لاکھ 77 ہزار 338 تھی۔
اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے گزشتہ عام انتخابات میں اوسطاً تقریباً ایک ہزار 187 ووٹرز کے لیے ایک پولنگ سٹیشن بنایا تھا جبکہ اس بار لگ بھگ ایک ہزار 437 ووٹرز کے لیے ایک پولنگ سٹیشن بنایا گیا۔
سینیئر سکول ٹیچر محمد طیب کو این اے 99 اور پی پی 107کے ایک پولنگ سٹیشن پرپریذائیڈنگ افسر مقرر کیا گیا تھا۔ وہ ناصرف کئی بار الیکشن ڈیوٹی کر چکے ہیں بلکہ پولنگ عملے کی تربیت میں بطور انسٹرکٹر بھی شامل رہے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ انتخابی نتائج میں تاخیر کی تین بنیادی وجوہات ہیں جن میں فارم 45 کی ترسیل کے لیے بنائی گئی موبائل ایپ کی خراب کارکردگی، انٹرنیٹ و موبائل سروس کی بندش اور پریذائیڈنگ افسروں کے لیے ٹرانسپورٹ کی کمی شامل ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ انتخابی عملے کی پولنگ سٹیشنوں سے آر او دفاتر واپسی کے لیے سکیورٹی ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکاروں نے یہ حکمت عملی بنائی تھی کہ آٹھ سے دس پولنگ سٹیشنز کے عملے کو قافلے کی شکل میں اکٹھے لے جایا جائے گا۔
"اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کسی پولنگ سٹیشن پر رزلٹ سات بجے ہی تیار کر لیا گیا تھا تب بھی اس پریذائیڈنگ افسر کو دیگر پولنگ سٹیشنز کی گنتی مکمل ہونے کا انتظار کرنا پڑا جس کی وجہ سے انہیں آر او آفس پہنچنے میں کئی کئی گھنٹے تاخیر ہوئی"۔
محمد طیب کہتے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن ہر پولنگ سٹیشن کے لیے الگ ٹرانسپورٹ فراہم کرتا تو موبائل ایپ بند ہونے کے باوجود پریذائیڈنگ افسر گنتی مکمل ہونے کے بعد فارم 45 لے کر بروقت آر او آفس پہنچ سکتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ این اے 99 میں اپنے پولنگ سٹیشن کا رزلٹ لے کر سب سے پہلے آر او آفس پہنچنے والے پریذائیڈنگ افسر تھے۔
"میرے پاس اپنی گاڑی تھی جس کی وجہ سے میں نے سکیورٹی انچارج کی منت سماجت کی اور ایک فوجی اہلکار کے ہمراہ آر او آفس پہنچا۔ تاہم تب تک دس بج گئے تھے اور اس وقت ٹی وی پر بیٹھے 'سینیئر تجزیہ کار' دھاندلی کا شور ڈالنا شروع کر چکے تھے"۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں اور میڈیا تینوں انتخابی ڈیوٹی کرنے والے ہر شخص کو "ولن" سمجھتے ہیں حالانکہ انہیں اہلکاروں کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
محمد طیب کا ماننا ہے کہ انتخابی عملے میں شامل بہت سے افراد پولنگ کی تربیت کو سنجیدگی سے نہیں لیتے جس کی وجہ سے فارم 45 (گنتی کے نتائج)کی تیاری میں غلطیاں (جمع تفریق کی) ہوتی ہیں اور حتمی نتائج میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔
"بہت سے پریذائیڈنگ افسروں کی فارم 45 میں غلطیاں آر او دفاتر میں درست کرائی جاتی ہیں کیونکہ فارم 45 کو ہر لحاظ سے مکمل کرانا آر او کی ذمہ داری ہے"۔
الیکشنز رولز 2017ءکے سیکشن 84(3) کے تحت ریٹرننگ افسر کی جانب سے اعداد و شمار میں غلطی کی نشاندہی پر پریذائیڈنگ افسر فارم 45 دوبارہ بنا کر یا غلطی درست کر کے اپنے دستخط کے ساتھ جمع کرائے گا۔
محمد طیب کے مطابق فارم 45 میں زیادہ تر غلطیاں مسترد شدہ ووٹوں کے اندراج میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ڈالے گئے کل ووٹوں اور امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد میں فرق آتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں قومی اور اس کے نیچے صوبائی حلقوں کا عام طور پر ایک ہی ریٹرننگ افسر ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ دونوں حلقوں کے آر او الگ الگ تھے جس کی وجہ سے پریذائیڈنگ افسروں کو زیادہ مسائل پیش آئے۔
"ہر انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کے جائزہ اجلاس ہوتے ہیں جن میں انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے لئے تجاویز لی جاتی ہیں لیکن ہر مرتبہ کسی نہ کسی وجہ سے نتائج کے اعلان میں تاخیر سے دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملتی ہے"۔
محمد طیب کا دعویٰ ہےکہ آٹھ فروری کی شام پریذائیڈنگ افسر واپس آر او دفاتر میں پہنچنا شروع بھی نہیں ہوئے تھے کہ نجی چینلز پر نتائج کے اعلانات کا آغاز ہو چکا تھا۔
فیصل آباد میں جیو نیوز کے رپورٹر حماد احمد بتاتے ہیں کہ ان کے ٹی وی چینل نے پولنگ سٹیشنز سے انتخابی نتائج لینے کے لیے ہر حلقے میں 15 سے 20 افراد کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اہم امیدواروں اور آر او دفاتر میں بھی صحافیوں کی ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں۔
" زیادہ تر انتخابی نتائج یا فارم 45 کی تصاویر ہمارے لوگ پی ٹی آی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کے دفاتر سے بھیج رہے تھے جبکہ ن لیگ کے دفاتر میں انتخابی نتائج وصول کرنے یا میڈیا سے شیئر کرنے کا کوئی مناسب انتظام نہیں تھا"۔
وہ کہتے ہیں کہ آر او دفاتر میں انتخابی نتائج کے لیے لگائی گئی سکرینیں رات گئے تک خالی تھیں یا پھر ان پر چند پولنگ سٹیشنز کا رزلٹ بار بار دکھایا جاتا رہا۔
"ہمارے لیے تمام نتائج پریذائیڈنگ افسروں یا آر اوز سے براہ راست حاصل کرکے نشر کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں زیادہ تر امیدواروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے رزلٹ میں ردوبدل یا غلطی کا امکان موجود رہتا ہے"۔
انتخابی عملے کی مشکلات، فارم 45 کی ترسیل میں تاخیر اور پولنگ سٹیشنز کی تعداد میں کمی سے متعلق سوالات پر ڈسٹرکٹ الیکشن افسر باسل اکرام کے ترجمان محمد شاہد نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ تمام انتظامات ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر (ڈی آر او) کی زیرنگرانی مکمل کیے گئے تھے اور وہی اس پر بات کرنے کے مجاز ہیں۔
فیصل آباد میں ڈپٹی کمشنر عبداللہ نیئر شیخ کو ڈی آر او تعینات کیا گیا تھا، ریٹرننگ افسروں کی اکثریت بھی ضلعی انتظامیہ کے افسران پر مشتمل تھی۔
تاہم ڈی آر او نے متعدد مرتبہ لوک سجاگ رابطہ کرنے کے باوجود کسی سوال کا جواب نہیں دیا جبکہ آر اوز نے انتخابی عمل پر بات کرنے سے معذرت کر لی۔
الیکشن 2024ء سے متعلق فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک )فافن( کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے 53، پنجاب اسمبلی کے 23، سندھ کے 18، کے پی کے 10 اور بلوچستان کے دو حلقوں میں آر اوز نے ایک یا ایک سے زیادہ فارم 45 میں غلطیوں کی نشاندہی کی اور متعلقہ پریذائیڈنگ افسران کو غلطیاں درست کرنے کے لیے کہا۔
یہ بھی پڑھیں
شانگلہ: آٹھ ماہ سے تنخواہوں سے محروم خواتین ہیلتھ ورکرز کی بطور انتخابی سکیورٹی عملہ تعیناتی
فافن رپورٹ میں اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ بیشتر حلقوں کے ریٹرننگ افسران نے پریذائیڈنگ افسروں سے انتخابی نتائج اور سامان وصول کرنے کے مناسب انتظامات نہیں کیے تھے جس کی وجہ سے 66 حلقوں کے آر او دفاتر یا ٹیبلیشن مراکز پر افراتفری اور ہجوم کی صورت حال دیکھی گئی ہے۔
سینئر وکیل اور الیکشن مبصر راؤ اکرم خرم بتاتے ہیں کہ پولنگ کا عمل مجموعی طور پر ماضی کی نسبت بہتر رہا اور گنتی کے عمل میں دھاندلی سے متعلق بھی کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کے اعتراضات سامنے نہیں آئے۔
"اصل تنازع فارم 45 کے معاملے پر پیدا ہوا ہے جس کی بنیاد پر ریٹرننگ افسروں نے فارم 47 (حلقے کی گنتی کا نتیجہ)جاری کیے"۔
وہ کہتے ہیں کہ ہارنے والے امیدوار تو اپنے فارم 45 پیش کر رہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے اپنی ویب سائٹ پر یا جیتنے والے کسی امیدوار نے اپنے پاس موجود فارم 45 کہیں پیش نہیں کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ فارم 45 کی طرح فارم 46 (بیلٹ پیپپرز کا ریکارڈ) بھی اہمیت کا حامل ہے جس سے فارم 45 کا موازنہ کر کے پولنگ سٹیشن پر دھاندلی کا فوری پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
راؤ اکرم خرم کے مطابق الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے 36 کروڑ روپے کی لاگت سے الیکشن مینجمنٹ سسٹم یا ای ایم ایس کے نام سے موبائل ایپ تیار کی تھی جس کی خوبی ہی یہ بتائی گئی تھی کہ انٹرنیٹ نہ ہونے پر بھی اس کے ذریعے فارم 45 اور فارم 46 کی تصاویر آر او کو بھیجی جا سکتی ہیں۔
"الیکشن کمیشن اب اس ایپ سے بھیجے گئے فارم 45 اور 46 اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے تاکہ پتا چلے کہ ہارنے والے امیدواروں کی طرف سے دکھائے جانے والے فارم 45 اصل ہیں یا نہیں"۔
ان کا ماننا ہے کہ آٹھ فروری کی رات دو بجے یا اگلے روز صبح دس بجے تک پولنگ کے نتائج پہنچانے کی 'ڈیڈ لائن' آر او دفاتر میں بدنظمی کی وجہ بنی۔ انتخابی نتائج ایپ یا فون کے ذریعے منتقل ہونے کی صورت میں یہ ڈیڈ لائن قابل عمل ہو سکتی تھی لیکن پولنگ سٹیشن سے سامان کی ترسیل کے انتظامات بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ 2017ء میں اصلاحات کے ساتھ انتخابی نتائج جمع کرنے کے نظام کی خامیوں کو دور کرنا اشد ضروری ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ریٹرننگ افسران نے بھی بتائے گئے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا جس کی الیکشن کمیشن کو تحقیقات کرنی چاہیے۔
"انتخابی قوانین کے تحت الیکشن کمیشن کو اختیار ہے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری ملازمین اور متعلقہ افراد کے خلاف کارروائی کرے"۔
(سٹوری میں خاتون پریذائیڈنگ افسر کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ دیگر افراد کے نام حقیقی ہیں)
تاریخ اشاعت 21 فروری 2024