پاکستان میں دھواں چھوڑتے رکشوں کی جگہ اب ماحول دوست الیکٹرک رکشے لے رہے ہیں جو نہ صرف آٹو رکشے کی نسبت زیادہ پائیدار اور آرام دہ ہیں بلکہ ان سے ماحولیاتی آلودگی اور شور پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔ یہ سبک رفتار اور بے آواز رکشے بیٹری پر چلتے ہیں جس کی وجہ سے مہنگے تو ہیں مگر ان کے اخراجات پانچ گنا کم بتائے جا رہے ہیں۔
پنجاب کے محکمہ ٹرانسپورٹ نے لگ بھگ تین ماہ قبل نجی کمپنی کے اشتراک سے الیکٹرک (ای) رکشے متعارف کرائے تھے جو اب لاہور کی سڑکوں پر نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ تاہم ابھی ان کی تعداد بہت کم ہے۔
محمد رمضان لاہور کے علاقے سلامت پورہ کے رہائشی ہیں جو 14 سال سے رکشہ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے پچھلے سال کے اختتام پر گیارہ لاکھ روپے خرچ کر کے الیکٹرک رکشہ خرید لیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ای رکشہ چلاتے ہوئے انہیں تین ماہ ہونے والے ہیں لیکن اس دوران انہیں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اس رکشے میں 30 کلو واٹ کی موٹر اور لیتھیم کی چار بیٹریاں نصب ہیں جو کم و بیش پانچ گھنٹے میں چارج ہو جاتی ہیں۔
"اگر بیٹریاں مکمل چارج ہوں تو 80 سے 90 کلومیٹر چل جاتی ہیں تاہم مائلیج کا انحصار رکشے کی رفتار اور لوڈ پر ہوتا ہے۔ رکشے میں ڈرائیور سمیت پانچ افراد بیٹھنے کی گنجائش ہے جن کا اگر وزن زیادہ ہو تو بیٹریوں کی مائلیج کم حاصل ہوتی ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ بیٹریاں چارج کرانے کے لیے بیدیاں روڈ پر 'چارجنگ پوائنٹ' موجود ہے جہاں سے وہ چارج شدہ بیٹریاں رکشے میں لگا لیتے ہیں اور پرانی بیٹریوں کا سیٹ اتار کر چارجنگ یونٹ میں رکھ دیتے ہیں۔ ان کی ری چارجنگ پر آج کل گیارہ سو روپے خرچ ہوتے ہیں۔
محمد رمضان کے مطابق وہ سواری بٹھاتے وقت روٹ اور فاصلے کو مدنظر رکھتے ہیں کیونکہ بیٹریاں تبدیل کرنے والا یونٹ فی الحال صرف بیدیاں روڈ پر ہے۔ جب شہر میں اس طرح کے زیادہ پوائنٹس کھل گئے تو پھر آسانی ہو جائے گی۔
محمد سفیان نے نجی کمپنی سے قسطوں پر الیکٹرک رکشہ خریدا ہے جس میں نو کلو واٹ فی گھنٹہ صلاحیت کی فکس بیٹری ہے۔ وہ اسے چارج کرانے کے لیے بیدیاں روڈ نہیں جاتے بلکہ خود ہی گھر میں چارج کر لیتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ وولٹیج پورے ہوں تو بیٹری چار سے پانچ گھنٹے میں چارج ہو جاتی ہے۔ اس کی چارجنگ میں بجلی کے چار سے پانچ یونٹ لگتے ہیں۔ چالیس روپے فی یونٹ کے حساب سے ان کی بیٹری تقریبا 200 روپے میں چارج ہو جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ رات کو بیٹری چارج کر کے صبح بچوں کو سکول چھوڑتے ہیں اور واپس آ کر دوبارہ چارج کر لیتے ہیں۔ بچوں کو ان کے گھر ڈراپ کرنے کے بعد وہ عام سواریوں کے لیے رکشہ چلاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی آمدنی میں سے روزانہ کچھ رقم قسط اور کچھ نئی بیٹری خریدنے کے لیے الگ کر لیتے ہیں۔
"اگر یہ بیٹری دو سال نکال گئی تو میں اسے بیچ کر نئی خرید لوں گا۔ رکشہ سروس کراتے ہوئے تھوڑی احتیاط کرنا پڑتی ہے کہ بیٹریاں اور ڈیجیٹل میٹر پانی سے خراب نہ ہوں۔"
پاکستان میں ای رکشہ بنانے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی کمپنی 'ساز گار' کے پراجیکٹ ڈائریکٹر شعبہ الیکٹرک وہیکلز طاہر شفیق بتاتے ہیں کہ الیکٹرک رکشے میں انجن کی جگہ ایک موٹر لگائی جاتی ہے جو بیٹری سے چلتی ہے جبکہ اس کی رفتار اور کارکردگی کو سنبھالنے کے لیے کنٹرولر لگایا جاتا ہے۔
"ہماری کمپنی الیکٹرک رکشہ مقامی طور پر تیار کر رہی ہے جس کو جدید فیچرز کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ تاہم اس کی بیٹریاں، موٹر اور کنٹرولر امپورٹ کیے جا رہے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ ان کے حساب سے ای رکشے کا سالانہ خرچ 70 سے 80 ہزار روپے ہے اور مینٹیننس نا ہونے کے برابر ہے جبکہ روایتی آٹو رکشے کا سالانہ خرچہ لگ بھگ سات سے آٹھ لاکھ ہے جس میں فیول، ٹیونگ، انجن آئل وغیرہ کے اخراجات شامل ہیں۔
ان کے مطابق الیکٹرک رکشے میں موونگ پارٹس کم ہونے کی وجہ سے انجن آئل، رنگ پسٹن، کلچ پلیٹ وغیرہ کی تبدیلی جیسے مسائل نہیں ہوتے۔
سازگار کے پراجیکٹ مینجر حسنین مہدی بتاتے ہیں کہ ان کی کمپنی کافی عرصے سے آٹو رکشے بنا رہی تھی جبکہ الیکٹرک رکشے تیار کرنے کا کام 2019ء میں شروع کیا گیا۔ تاہم رواں سال جنوری میں انہیں پنجاب میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے کا لائسنس بھی مل گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سازگار سالانہ دو ہزار الیکٹرک رکشے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ یہ مارکیٹ میں نہیں لائے جا سکے تھے۔ لائسنس ملنے کے بعد 50 الیکٹرک رکشے تیار کئے گئے ہیں اب ڈیمانڈ کے حساب سے پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ لائسنس کے بعد اب محکمہ ایکسائز مقامی کمپنیوں کے تیار کردہ رکشوں کی رجسٹریشن کر کے نمبر بھی الاٹ کر رہا ہے۔ اکتیس دسمبر 2023ء تک صوبے میں 368 ای گاڑیاں اور دو ہزار 711 ای موٹرسائیکل رجسٹر کئے گئے ہیں۔
حسنین مہدی کے مطابق ای رکشے میں دو طرح کی بیٹریاں استعمال کی جا رہی ہیں جن میں سے کچھ کی صلاحیت 5.6 کلو واٹ فی گھنٹہ اور دوسری کی نو کلو واٹ فی گھنٹہ ہے۔ نو کلو واٹ فی گھنٹہ والی بیٹریوں کے ساتھ رکشہ 170 سے 185 کلومیٹر اور 5.6 کلو واٹ والی کے ساتھ 130 سے 140 کلومیٹر فاصلہ طے کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے ای رکشے کی بیٹری فکس ہے اور اسے کسی بھی الیکٹرک پوائنٹ پر چارج کیا جا سکتا ہے جس کے لیے چارجر کمپنی مہیا کرتی ہے۔ نو کلو واٹ والی بیٹری پانچ گھنٹے جبکہ 5.6 والی چار گھنٹے میں چارج ہو جاتی ہے۔
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) نے بھی ای رکشے تیار کیے ہیں انجینئر عمر آفاق ان کے ای وہیکلز پراجیکٹ سے منسلک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے تیار کردہ رکشے میں میں بھی 1.4 کلو واٹ فی گھنٹہ والی چار بیٹریاں لگتی ہیں جن کی مجموعی صلاحیت 5.6 کلو واٹ فی گھنٹہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان بیٹریوں کو صرف خصوصی چارجنگ پوائنٹ پر چارج کیا جا سکتا ہے۔ بعض کمپنیاں ایسی فکس بیٹریاں استعمال کر رہی ہیں جو گھر میں چارج کی جا سکتی ہیں لیکن لمز کے رکشے میں چھوٹے سائز کی چار بیٹریوں کا سیٹ ہے جنہیں آسانی سے اتارا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیتھیم کی یہ بیٹریاں 60 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بھی کام کریں گی۔ جبکہ ای رکشے میں وولٹیج کنٹرول کے لیے بیٹری منیجمنٹ سسٹم لگایا گیا ہے اور چارجنگ بتانے والے انڈیکیٹر بھی موجود ہیں۔
عمر آفاق کے مطابق 80 فیصد استعمال تک بیٹری کی وولٹیج متاثر نہیں ہوتی اس لیے جب بیٹری 20 فیصد تک رہ جائے تو اسے چارج کرنا ضروری ہوتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ای رکشے کا فی کلومیٹر خرچ آٹھ سے نو روپے بنتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں پٹرول رکشے کا خرچہ 16 روپے اور ایل پی جی کا 13 روپے فی کلو میٹر ہے۔
مقامی یونیورسٹی کی طالبہ عائشہ پہلے اپنی کلاس فیلو ام حبیبہ کے ساتھ آٹو رکشے میں یونیورسٹی آتی جاتی تھیں لیکن اب انہوں نے الیکٹرک رکشہ لگوا لیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ انہیں ای رکشہ اچھا لگتا ہے جس میں شور ہے اور نہ ہی پریشان کر نے والا دھواں ہوتا ہے۔
ام حبیبہ کا کہنا ہے کہ ای رکشے میں سفر حیرت انگیز حد تک خوشگوار ہے ایسی گاڑیاں زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیں تاکہ آلودگی میں کمی آئے۔
تاہم مردوں کے تاثرات تھوڑے مختلف ہیں۔ کامران حنیف ایک نجی کمپنی میں ملازم ہیں جنہیں ای رکشے کی کم رفتار اور اس کے بے آواز ہونے پر اعتراض ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شور نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگ بے خیالی میں رکشے سے ٹکرا جاتے ہیں اور ان رکشوں کی رفتار بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔
چینی کمپنی ای وی اون کی ای بائیکس اور رکشے یہاں ایک مقامی کمپنی اسمبل کر رہی ہے جس کے ڈائریکٹر سیلز و مارکیٹنگ ہدایت الرحمٰن بتاتے ہیں کہ ای رکشے میں سب سے مہنگی چیز بیٹری ہے۔ اگر حکومت بیٹریوں پر امپورٹ ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس ختم کردے تو رکشے کی قیمت کافی کم ہو جائے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت ای رکشے کی قیمت 10 لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے جس کو خریدنا عام آدمی کے لیے ممکن نہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ ای رکشوں کی خریداری کے لیے حکومت رکشہ ڈرائیوروں کو بینکوں سے بلاسود قرضے جاری کرانے کا بندوبست کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ ای رکشوں کے لیے بیٹری چارجنگ پوائنٹس کو بھی بڑھانا ہو گا اور اگر یہ پوائنٹس سولر پر ہوں تو چارجنگ کے اخراجات کئی گنا کم ہو جائیں گے۔
تاہم لمز کے پراجیکٹ ڈائریکٹر عمر آفاق بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بعض ایسی کمپنیاں اپنا کاروبار شروع کرنے جا رہی ہیں جو صرف ای رکشوں کو بیٹریاں فراہم کریں گی۔ جس سے رکشہ ڈرائیوروں کے لیے آسانی ہو گی جو کمپنی کے پاور سٹیشن پر بیٹریاں دے کر چارج شدہ بیٹریاں لے جا سکیں گے۔ یہ ایسے ہی ہو گا جیسے کوئی فیول ڈلوانے کے لیے رکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ای بائیکس اور سکوٹی نے طلبہ اور ملازمت پیشہ افراد کی زندگی آسان بنا دی ہے
سازگار کمپنی کے حکام کے مطابق ای رکشے کی لیتھیم بیٹری کی قیمتیں ڈالر سے جڑی ہیں۔ تاہم اس وقت نو کلو واٹ فی گھنٹہ صلاحیت کی بیٹری پانچ لاکھ جبکہ 5.6 کلو واٹ والی بیٹری چار لاکھ روپے میں مل رہی ہے۔ اسی طرح 1.4 کلو واٹ والی چار بیٹریوں کی قیمت ساڑھے چار لاکھ روپے کے قریب ہے تاہم اتنی ہی صلاحیت والی مختلف کمپنیوں کی بیٹریوں کی قیمت میں فرق ہے۔
الیکٹرک رکشوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ زیرو کاربن خارج کرتے ہیں۔
پنجاب اربن یونٹ کی رپورٹ کے مطابق لاہور میں شور اور فضائی آلودگی کی بڑی وجہ ٹرانسپورٹ ہے جہاں 2021ء میں رجسٹرڈ وہیکلز کی تعداد 62 لاکھ 90 ہزار تھی۔ یہاں کی آلودگی میں یہ وہیکلز 83.15 فیصد کی حصہ دار ہے۔ جبکہ ٹرانسپورٹ کی آلودگی میں آٹو رکشہ صرف 4.24 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔
ماحولیاتی وکیل، لیسکو اور لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بورڈز کے سابق چیئرمین رافع عالم کہتے ہیں کہ پاکستان میں استعمال ہونے والا غیر معیاری پٹرول اور ڈیزل آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔ خاص طور پر آٹو رکشے اور چنگ چی میں انتہائی غیر معیاری ایندھن استعمال ہوتا ہے۔
رافع عالم کہتے ہیں ملک میں ٹرانسپورٹ کو مرحلہ وار الیکٹرک وہیکل پر منتقل کرنے کے لیے واضع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس سے ناصرف آلودگی میں کمی آئے گی بلکہ تیل کا استعمال اور امپورٹ بھی کم ہو گی۔ اسی طرح ای وہیکلز کو فروغ دینے کے لیے چارجنگ انفراسٹرکچر بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے جبکہ ای وہیکل کی رجسٹریشن فیس اور ٹیکس میں بھی کمی ہونی چاہیے۔
نگران پنجاب حکومت نے جنوری میں 26 ہزار الیکٹرک موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے لیے بلاسود قرضے دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے سیکرٹری ٹرانسپورٹ نے بتایا کہ نئی حکومت کی مشاورت سے اس منصوبے کو آگے بڑھایا جائے گا۔
تاریخ اشاعت 29 مارچ 2024