بائیس سالہ کشف ندیم، اعوان ٹاؤن لاہور کی رہائشی اور ایک نجی کالج میں تھرڈ ائیر کی طالبہ ہیں۔ وہ گلبرگ کی ایک فاسٹ فوڈ کمپنی میں بطور ڈلیوری رائیڈر پارٹ ٹائم کام بھی کر رہی ہیں۔ کشف کالج اور کام پر آنے جانے کے لیے الیکٹرک بائیک استعمال کرتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ وہ تقریباً چھ ماہ سے ای بائیک چلا رہی ہیں جس کا تجربہ کافی اچھا رہا کیونکہ، بقول ان کے پٹرول کی نسبت اس کے اخراجات کم ہیں۔ انہیں اب تک صرف ایک انڈیکٹر تبدیل کرانا پڑا ہے جو چھوٹے سے حادثے کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔
"تاہم ای بائیک میں مسئلہ صرف بیٹری اور سپیڈ کا ہے۔ میں ابتدا میں اس کی بیٹری سے 80 سے 90 کلو میٹر سفر کر لیتی تھی لیکن اب بیٹری کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے اور 60 کلومیٹر پر ہی جواب دے جاتی ہے۔"
کشف کہتی ہیں کہ ای بائیک کی بیٹری مکمل چارج ہونے میں پانچ سے چھ گھنٹے لیتی ہے۔ انہیں اس میں فی الحال کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
پاکستان میں نیشنل الیکٹرک وہیکلز پالیسی (این ای وی پی) کی منظوری 2019ء میں دی گئی تھی جس کا شارٹ ٹرم ہدف یہ تھا کہ پانچ سال میں دو وہیلر(ای بائیکس)، تین ویلر (رکشے) اور 'ایل' کیٹیگری کی فور وہیل گاڑیوں (چھوٹی کاریں) سمیت مجموعی طور پر پانچ لاکھ گاڑیاں وغیرہ سڑکوں پر لائی جائیں گی۔
اس پالیسی کے تحت لانگ ٹرم اہداف میں ای بائیکس، رکشوں اور چھوٹی الیکٹرک کاروں کی نئی سیل کو 2030ء تک 50 فیصد اور 2040ء تک 90 فیصد پر پہنچانا شامل ہے۔
ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق فروری 2024ء تک پنجاب میں ای بائیکس کی تعداد تین ہزار 963 ہو گئی تھی۔
محکمے کی فہرست بتاتی ہے کہ سب سے زیادہ ایک ہزار 318 ای بائیکس، لاہور میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ اٹک میں تین، بہاولنگر میں 193، بہاولپور میں 63، بھکر میں 54، چکوال سات، چنیوٹ 56، ڈی جی خان 42 اور فیصل آباد میں 331 ای بائیکس رجسٹر ہوئیں۔
اسی طرح گوجرانوالہ میں ای بائیکس کی تعداد 81، گجرات 78، حافظ اباد 36، جہلم تین، جھنگ 23، قصور 15، خانیوال 29، خوشاب 14، لیہ 27، لودھراں 16، منڈی بہاؤالدین 36، میانوالی 123 اور ملتان میں 188 ہے۔
مظفرگڑھ میں صرف ایک ای بائیک رجسٹر ہوئی جبکہ ننکانہ صاحب میں 92، نارووال83، اوکاڑہ 79، پاکپتن 81 ، رحیم یارخان 124، راجن پور سات، راولپنڈی 41، ساہیوال 98، سرگودھا 146،شیخوپورہ 14، سیالکوٹ 257، ٹوبہ ٹیک سنگھ 170 اور وہاڑی میں 34 بائکس رجسٹر ہیں۔
ملک میں اگرچہ ای بائیکس کے استعمال کا رحجان بڑھنے لگا ہے تاہم اس میں پیشرفت سست دکھائی دیتی ہے۔
لاہور ہی کے رہائشی رانا مبشر حسن بتاتے ہیں کہ جو بائیک وہ استعمال کررہے ہیں وہ مقامی کمپنی نے پٹرول موٹرسائیکل کے سٹرکچر کو موڈیفائی (تبدیل) کرکے بنائی ہے۔ اس میں انجن کی جگہ بیٹریاں لگائی گئی ہیں اور پچھلے ٹائرکے ساتھ موٹر لگا دی گئی ہے۔
"ٹینکی بھی موجود ہے لیکن اس کا کوئی استعمال نہیں ہے۔"
انہیں بھی ای بائیک کی سپیڈ سے شکایت ہے۔ کہتے ہیں کہ پیٹرول بائیک کو دو، تین افراد بٹھا کر 60 کلومیٹر کی سپیڈ سے چلایا جا سکتا ہے جبکہ ای بائیک سنگل سواری کے ساتھ بھی بمشکل 60 کلو میٹر تک دوڑتی ہے۔
"میں جب اپنی اہلیہ اور بچے کو بائیک پر ساتھ بٹھاتا ہوں تو اس کی رفتار 50 کلومیٹر فی گھنٹہ سے اوپر نہیں جاتی۔ دوسرا مسئلہ بارش سے ہوتا ہے۔ایک بار بارش کے دوران ایک انڈرپاس میں پانی زیادہ جمع ہو گیا تو وہاں بائیک بند ہو گئی جس سے مجھے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔"
گلبرگ لاہور کے بائیک ٹیکنیشن محمد رمضان بتاتے ہیں کہ ای بائیک کا الیکٹرک میٹر مرمت نہیں ہوتا۔ اس لیے بارش یا سروس کے دوران اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بائیک میں لگائی جانے والی موٹر اور کنٹرولر اگرچہ واٹرپروف ہیں تاہم کسی وجہ سے وہاں تک پانی پہنچ جائے تو ان پارٹس کو بھی تبدیل کرنا پڑتا ہے۔
پنجاب حکومت نے انہی مشکلات کے پیش نظر طلبا و طالبات کو ای بائیکس کے ساتھ پٹرول بائیکس بھی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ تعلقات عامہ کے مطابق 20 ہزار بائیکس میں سے ایک ہزار الیکٹرک اور 19 ہزار پٹرول بائیکس دی جائیں گی۔
اس سے قبل نگران حکومت نے صوبے 20 ہزار ای بائیکس تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اب وزیراعلی مریم نواز کا کہنا ہے کہ ای بائیکس ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے ضروری ہیں لیکن بیٹری چوری اور کم مائیلج کی وجہ سے فی الحال یہ موزوں نہیں ہیں۔
حکومت نے طلباء کو آسان اقساط کی سہولت دینے کے لیے بینک آف پنجاب کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت ای بائیک کی قسط 10 ہزار روپے جبکہ پٹرول بائیک کی پانچ ہزار روپے ماہانہ ہوگی جس کے لیے مئی میں قرعہ اندازی متوقع ہے۔
موٹرسائیکلوں کی فراہمی کے لیے لڑکوں اور لڑکیوں کا الگ الگ کوٹہ مقرر کیا گیا ہے۔ شہری علاقوں میں تو یہ طلبا اور طالبات کے لیے برابر ہو گا لیکن دیہی علاقوں میں 70 فیصد بائیکس طلبا اور 30 فیصد طالبات کو دی جائیں گی۔
پاکستان میں اس وقت انجینرئنگ ڈیویلپمنٹ بورڈ کے پاس الیکٹرک گاڑیاں تیار کرنے والی 31 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں تاہم ان میں سے چند ہی ای بائیکس اور رکشے تیار کر رہی ہیں جن میں جولٹا الیکٹرک، پاک زون، روڈ کنگ، ولیکٹرا، ایم ایس جیگوار قابل ذکر ہیں۔
یہاں زیادہ تر کمپنیاں پٹرول موٹرسائیکل کے ڈھانچے کو ای بائیکس میں بدل رہی ہیں تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ یہ تجربہ کامیاب نہیں رہا۔
ہدایت الرحمٰن چینی کمپنی ای وی اون کے ڈائریکٹر سیلز و مارکیٹنگ ہیں۔ یہ کمپنی ای بائیکس اور رکشے اسمبل کرتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بعض کمپنیوں کی بائیکس میں لیتھیم کی استعمال شدہ بیٹریاں لگائی جارہی ہیں جن کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اوریجنل لیتھیم بیٹری کے ساتھ ای بائیک چار سے ساڑھے چار لاکھ روپے میں پڑتی ہے جبکہ لاٹ میں خریدی گئی لیتھیم کی بیٹریوں کی وجہ سے قیمت ڈھائی لاکھ روپے تک رکھی گئی جو 40 سے 50 کلومیٹر تک چلتی ہے۔
ہدایت الرحمن کے مطابق چینی کمپنیوں نے مشورہ دیا ہے کہ پٹرول بائیک کو الیکٹرک میں تبدیل کرنے کی بجائے سکوٹر والے ڈیزائن کو اپنائیں جن کے پارٹس اب چین سے امپورٹ کیے جا رہے ہیں اور پاکستان میں کچھ کمپنیاں ان کی اسمبلنگ کر رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ای بائیکس میں ان کی صلاحیت کے مطابق چار، پانچ یا چھ بیٹریاں فکس ہوتی ہیں جن میں ہر بیٹری 12 واٹ کی ہے جبکہ 12 واٹ کی بیٹریوں میں پاور کے لحاظ سے مارکیٹ میں 20 امپیئر، 23، 26 اور 38 امپیئر کی بیٹریاں دستیاب ہیں۔ جس بیٹری کے امپیئر زیادہ ہوں گے وہ زیادہ مائلیج دے گی۔
ان کہنا تھا کہ ای بائیک میں لیڈ ایسڈ گریفن کوالٹی کی بیٹریاں بھی استعمال کی جاتی ہے جو گھر میں عام پوائنٹ پر چھ سے آٹھ گھنٹے میں چارج ہوتی ہیں۔ ان کی مکمل چارجنگ میں تقریباً ڈھائی یونٹ بجلی استعمال ہوتی ہے۔ اس بیٹری کی اوسط عمر ایک ہزار سائیکل اور ورانٹی ڈیڑھ سال ہے۔
مارکیٹ میں دستیاب ای بائیکس کی کارکردگی کے حوالے سے کمپنیاں ان کی الگ الگ خصوصیات بتاتی ہیں۔
جیگوار کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ان کی ای بائیک مکمل چارجڈ بیٹری کے ساتھ 71 کلومیٹر چلتی ہے جبکہ اس کی بیٹری پانچ گھنٹے میں چارج ہو جاتی ہے۔
جولٹا الیکٹرک کے مطابق کمپنی نے ای بائیک کے چار ماڈل اور ایک سکوٹی متعارف کرائی ہے جن کی رفتار 50 سے 80 کلومیٹر ہے۔ سکوٹی خواتین کے لیے خاص طور پر تیار کی گئی ہے۔ ان کی سب سے بڑی بائیک جے 125 ایل کی رفتار 80 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس کی بیٹری کو آسانی سے چارج کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں
ای بائیکس اور سکوٹی نے طلبہ اور ملازمت پیشہ افراد کی زندگی آسان بنا دی ہے
اسی طرح نیون ایم تھری ایک سپورٹس ای بائیک ہے جس میں دو ہزار واٹ کی موٹر لگی ہے جبکہ اس کی رفتار 90 کلومیٹر تک جاتی ہے۔ اس کی ٹرانسمیشن آٹو میٹک ہے یعنی جب اس کی بیٹری 20 فیصد رہ جاتی ہے تو بائیک خود بخود بند ہو جاتی ہے۔
ایک اور ای بائیک 'سنرا ' بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے جو 60 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار سے چلائی جاسکتی ہے تاہم اس کی بیٹری ڈیڑھ ہزار واٹ کی ہے۔
قومی الیکٹرک وہیکلز پالیسی تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان میں ابتدائی سالوں میں الیکٹرک گاڑیوں تک رسائی حکومتی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو گی کیونکہ ان کی قیمت روایتی ایندھن والی گاڑیوں سے کہیں زیادہ ہے۔
اسی لیے ای وہیکلز کو اپنانے کے لیے دنیا بھر کی حکومتیں کی طرح یہاں بھی عوام کو سبسڈی، مراعات اور ٹیکس میں چھوٹ کی تجاویز دی گئی تھیں۔
ملک میں الیکٹرک بائیکس کو متعارف کرانا بڑا چیلنج ہے کیونکہ عوام کو ابھی تک کوئی پرکشش حکومتی رعایت نظر نہیں آئی۔
لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (لمز) میں ای وہیکلز پراجیکٹ کے ڈائریکٹر عمر آفاق کہتے ہیں کہ ای بائیکس کی افادیت کے بارے میں جہاں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے وہیں ان بائیکس کی پائیداری سے متعلق لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔
"ہمارے ہاں ای بائیکس کی خریداری میں اضافہ تبھی ہو گا جب حکومت ان کی خریداری اور رجسٹریشن پر مراعات دینے کی پالیسی اپنائے گی۔"
تاریخ اشاعت 3 اپریل 2024