نئی حلقہ بندیوں میں راجن پور کو اضافی صوبائی نشست مل گئی، حلقوں میں مواضعات کی تبدیلی سے انتخابی امیدواروں کو پریشانی

postImg

مجاہد حسین خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

نئی حلقہ بندیوں میں راجن پور کو اضافی صوبائی نشست مل گئی، حلقوں میں مواضعات کی تبدیلی سے انتخابی امیدواروں کو پریشانی

مجاہد حسین خان

loop

انگریزی میں پڑھیں

آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں ملک کے بعض دیگر اضلاع کی طرح راجن پور کے حلقوں کی ترتیب میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اگرچہ قومی اسمبلی کے حلقوں کے صرف نمبر ہی تبدیل ہوئے ہیں تاہم صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بڑھ گئی ہے جس کے بعد یہاں پنجاب اسمبلی کی نشستیں پانچ سے چھ ہو گئی ہیں۔

وفاق کے زیر انتظام سابق قبائلی علاقے (فاٹا) کو 25ویں آئینی ترمیم کے تحت خیبرپختونخوا میں ضم کیے جانے کےبعد اب وہاں قومی اسمبلی کی 6 نشستیں کم ہو گئی ہیں اور اسی لیے ملک میں قومی اسمبلی کے حلقوں کے نمبروں میں بھی 6 کی کمی ہوئی ہے۔ جیسا کہ  2018 میں راجن پور سے قومی اسمبلی کا حلقہ 193 اب 187 ہو گیا ہے۔

حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری 2023  کے مطابق راجن پور کی کل آبادی 23 لاکھ 81 ہزار ہے جبکہ 2017 کی مردم شماری میں ضلع کی کل آبادی تقریباً 20 لاکھ تھی۔ ضلع میں ایک صوبائی نشست کے اضافے کی وجہ آبادی میں ہونے والا اضافہ ہے۔

2018 کی حلقہ بندی کے مطابق راجن پور میں کل ووٹروں کی تعداد 8 لاکھ 87 ہزار 990 تھی جو 2023 کی حلقہ بندیوں میں 2 لاکھ 35 ہزار 296 ووٹروں کے اضافے سے 11 لاکھ 23 ہزار 286 ہو گئی ہے۔

2018 کی حلقہ بندیوں کے مطابق راجن پور کے صوبائی حلقے پی پی 293 راجن پور 1 سے شروع ہو کر پی پی 297 راجن پور 5 پر ختم ہوتے تھے جو اب ایک صوبائی حلقے کے اضافے سے تبدیل ہو گئے ہیں۔ اب یہ نمبر پی پی 292 راجن پور 1 سے شروع ہو کر پی پی 297 راجن پور 6 پر ختم ہوں گے۔

2018 کے عام انتخابات میں راجن پور کی 3 قومی اور 5 صوبائی نشستوں پر انتخابات ہوئے تھے جن میں روجھان مزاری کے علاقے پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 195 اور پی پی 297 کے دو امیدواروں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے تمام امیدواروں نے ٹکٹ واپس کر دیے تھے اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 193 راجن پور 1 پر تحریک انصاف کے امیدوار سردار جعفر خان لغاری نے آزاد امیدوار سردار شیر علی خان گورچانی کو شکست دی تھی۔

این اے 194 راجن پور 2 پر تحریک انصاف کے سردار نصراللہ خان دریشک آزاد امیدوار حفیظ الرحمٰن خان دریشک کو شکست دے کر کامیاب ہوئے جبکہ این اے 195 راجن پور 3 تحریک انصاف کے امیدوار سردار ریاض محمود خان مزاری نے مسلم لیگ (ن) کے خضر حسین مزاری کے خلاف کامیابی حاصل کی۔

اسی طرح صوبائی حلقوں پی پی 293 راجن پور 1 پر تحریک انصاف کے امیدوار محمد محسن لغاری آزاد امیدوار سردار شیر علی گورچانی کو شکست دے کر کامیاب ہوئے۔

پی پی 294 راجن پور 2 پر تحریک انصاف کے امیدوار سردار حسنین بہادر دریشک آزاد امیدوار اطہر حسن خان گورچانی کے خلاف جیت گئے۔

 پی پی 295 راجن پور 3 پر تحریک انصاف کے سردار فاروق امان اللہ دریشک آزاد امیدوار سردار پرویز اقبال گورچانی کو ہرا کر کامیاب ہوئے۔

 پی پی 296 راجن پور 4 پر تحریک انصاف کے امیدوار محمد طارق دریشک نے آزاد امیدوار سردار محمد یوسف دریشک کو شکست دی۔

پی پی 297 راجن پور 5 پر پ تحریک انصاف کے امیدوار سردار دوست محمد مزاری مسلم لیگ (ن) کے سردار عاطف خان مزاری  کوشکست دے کر کامیاب ہوئے۔

اس طرح ضلع بھر میں 3 قومی اور 5 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کے تمام امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔

راجن پور میں صوبائی اسمبلی کی جس نشست کا اضافہ ہوا ہے اس کا نمبر پی پی 292 ہے جس میں پٹوار سرکل کوٹ جانوں ملاں والہ، ٹھل شاہین والہ ،جھوک مہار، قمبر شاہ، رستم لغاری، قاسم والہ کوٹلہ مغلاں، محمد پور ہانبھی، ٹاؤن کمیٹی داجل، قانونگو حلقہ داجل، چک کوڑے والہ، بولیوالہ ،ڈھورہ رندان اور قبائلی علاقہ چچہ قانون گو حلقہ شامل ہیں۔

ان علاقوں کی آبادی 4لاکھ 4 ہزار 281 ہے اور یہ علاقے پہلے حلقہ پی پی 193 راجن پور 1 میں شامل تھے۔

ضلع کی حلقہ بندی میں تبدیلی سے بہت سے سیاسی رہنماؤں کو شکایات ہیں جبکہ بعض اسے اپنے لیے بہتر خیال کرتے ہیں۔

سابق وائس چیئرمین ضلع کونسل مرزا شہزاد خان ہمایوں کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر حلقہ بندیاں ٹھیک ہیں مگر ان میں ابھی بہتری کی گنجائش باقی ہے چند مواضعات جو ایک حلقے سے بالکل قریب تھے انہیں دور کے حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے۔

موضع گڈن والا کے ایک ووٹر غلام علی کا کہنا ہے کہ ان موضع جام پور سے متصل ہے جو حلقہ پی پی 293 میں ہے مگر اسے پی پی 294 میں شامل کیا گیا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اسی طرح الہ آباد شرقی اور کوٹلہ مغلاں کو بھی جام پور سے نکال کر پی پی 294 محمد پور کے حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے۔

اسی طرح پی پی 295 سے سابق ایم پی اے فاروق امان اللہ خان کے بھائی صدیق خان دریشک کہتے ہیں کہ 2018 کے انتخابات میں حاجی پور اور فاضل پور حلقہ پی پی 295 میں شامل تھے جن میں ان کا اچھا خاصا ووٹ بینک تھا جسے اس حلقے سے نکال کر پی پی 94 میں شامل کرنے کے نتیجے میں ان کے مخالف امیدواروں کو فائدہ ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کوئٹہ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیاں مکمل: کیا بلدیاتی نمائندے مسائل کا بوجھ ہلکا کر پائیں گے؟

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حلقہ بندی کے خلاف الیکشن کمیشن میں اپیل کا نظام بہت پیچیدہ ہے ایک حلقے میں چند پٹوار سرکل شامل کرنے کے لیے ضلع کے چھ حلقوں کی تبدیل شدہ تجاویز دینا پڑتی ہے۔اگر ایسا نہ کیا جائے تو کسی حلقے میں ووٹوں کی تعداد بہت بڑھ جاتی ہے اور کسی میں بہت کم ہو جاتی ہے اس لیے چاروناچار وہ ان حلقہ بندیوں کو قبول کرتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شیر علی خان گورچانی ان حلقہ بندیوں سے مطمئن ہیں تاہم وہ بعض مواضعات کی ایک سے دوسرے حلقے میں شمولیت کے لیے الیکشن کمیشن سے اپیل کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سابق صوبائی وزیر، تحریک انصاف کے رہنما اور انتخابی امیدوار سردار حسنین بہادر دریشک کی انتخابی مہم کے منتظم سید شفیق بخاری سمجھتے ہیں کہ جام پور شہر کو پی پی 292 راجن پور 1میں ہونا چاہیے تھا جسے پی پی 293 راجن پور 2 میں شامل کیا گیا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس تبدیلی سے ان کا ووٹ بینک متاثر ہو گا۔ اسی طرح وہ رکھ پیر بخش شرقی، باغوالہ اور ریخ رکھ پٹوار سرکل کو پی پی 294 کے بجائے پی پی 293 میں دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ سابقہ حلقہ بندیوں میں انہیں یہاں سے ووٹ ملے تھے جو نئی ترتیب میں ان سے محروم ہو سکتے ہیں۔

تاریخ اشاعت 1 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

مجاہد حسین خان کا تعلق راجن پور سے ہے۔ مختلف قومی اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان

جاپانی پھل کی دشمن چمگادڑ

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان میں باؤلے کتوں کےکاٹے سے اموات کا سلسلہ آخر کیسے رکے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.