دن کے ایک بجے کے قریب اقبال اور ان کے تھکے ماندے ساتھی پانی کی ایک پرانی ٹنکی کے نیچے جمع ہو رہے ہیں۔ ایک دن پہلے ہونے والی بارش کی وجہ سے ہر طرف کیچڑ ہے۔ پندرہ سینیٹری ورکرز کا یہ گروپ بوسیدہ اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس ہے۔ ان میں سے کچھ کے پیروں کے ناخن گٹروں کے کالے کیچڑ سے بھرے ہیں۔ ان کی شفٹ صبح 10 ختم ہوتی ہے اور اب وہ اپنے سپروائزر کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کی دوسری شفٹ میں حاضری لگا کر انہیں ڈیوٹی سونپے گا۔
شیخوپورہ شہر کی یونین کونسل 60 میں گلیوں اور کھلے نالوں کو صاف رکھنے اور سیور کو تمام ہفتے چوبیس گھنٹے ٹھیک طرح سے چلائے رکھنے کے ذمہ دار یہ سبھی مسیحی سینیٹری ورکرز یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔
ان میں سے کچھ کو کام کرتے 20 سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے، لیکن وہ اب بھی مستقل ملازمت، پنشن، الاؤنس، گریجویٹی یا ڈیوٹی کے دوران موت کے معاوضے سے محروم ہیں۔
سازوسامان خریدنے کا اضافی مالی بوجھ
سینیٹری ورکرز کے اس گروپ میں 47 سالہ اقبال سب سے زیادہ عرصے سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ وہ گزشتہ 23 سال سے تحصیل میونسپل کارپوریشن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
انہیں 26 دنوں کے کام کے 32 ہزار روپے ملتے ہیں۔ وہ کسی ہنگامی یا خاندانی مصروفیت کی وجہ سے چھٹی کریں تو انہیں اپنی یومیہ اجرت سے محروم ہونا پڑتا ہے۔
"پہلے جب مہنگائی اتنی زیادہ نہیں تھی تو میں کچھ پیسے بچا لیتا تھا لیکن اب یہ ناممکن ہے۔"
وہ اپنے ساتھی کارکنوں کی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ وہ سبھی قرض کے شدید دباؤ میں ہیں۔
"مجھ پر تقریبا سات لاکھ روپے کا قرض ہے، بینک والے میری 32 ہزار روپے ماہانہ اجرت میں سے 13 ہزار روپے کاٹ لیتے ہیں۔"
اقبال کا کہنا ہے کہ حکومت نے کم از کم اجرت 37 ہزار روپے مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن ان کی اور ساتھیوں کی تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔
ان ورکروں کی مالی مشکلات میں اس وقت اوراضافہ ہوجاتا ہے جب انہیں جھاڑو ، صفائی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے متعلقہ چیزیں خود خریدنا پڑتی ہیں۔
انہیں خراب ہونے والے سامان کی مرمت کے اخراجات بھی خود ہی پورے کرنا ہوتے ہیں۔
دو بچوں کے والد 27 سالہ آصف 10 سال سے یومیہ اجرت پر کام کر رہے ہیں، ان کو سپروائزر نے کہا کہ اگر وہ کام کرنا چاہتے ہیں تو اپنا صفائی کا ساز و سامان خود لائیں۔
انہوں نے دوستوں سے ادھار لے کر 40 ہزار روپے کی کوڑا اٹھانے والے ٹرالی خریدی ہے۔
''میں یومیہ مزدور ہوں، مستقل مزدور نہیں، میں کوئی مطالبہ نہیں کر سکتا۔"
لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر محمد جمیل ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
"مجھے کوئی ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی نہ ہی کسی سینیٹری ورکر نے سامان کی کمی کے بارے میں کچھ بتایا۔ کسی نے مجھ سے رابطہ کیا ہوتا تو میں ضرور کارروائی کرتا۔"
عدم تحفظ کی لٹکتی تلوار
اقبال، آصف اور ان کے ساتھیوں جیسے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو نہ صرف اپنے محدود وسائل میں گزارہ کرنا پڑتا ہے بلکہ وہ اپنے باس کی مرضی پر کسی بھی دن نوکری سے نکالے جانے کے مسلسل خوف کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔
اقبال کے سینئر ساتھی شکیل بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ دوستوں کے ساتھ عدالت میں پٹیشن دائر کرنے کے امکان پر بات چیت کر رہے تھے۔ تحصیل میونسپل آفیسر نے کہیں سے سن لیا اور انہیں معطل کردیا۔
شکیل تو کسی نہ کسی طرح بحال ہوگئے لیکن وہ بتاتے ہیں کہ تمام لوگ ان کی طرح خوش قسمت نہیں تھے۔
شکیل یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ان 31 سینیٹری ورکرز کے گروپ کا حصہ تھے جنہوں نے 2013ء سے 2018ء تک پنجاب میں میونسپل کارپوریشنوں کی نگرانی کرنے والی مقامی حکومت کے خلاف کامیاب قانونی جنگ لڑی اور اپنے لیے 'مستقل ملازم کا درجہ' حاصل کیا۔
یومیہ اجرت، ایک مستقل جال
لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹیز ڈپارٹمنٹ کے تحت کام کرنے والی شیخوپورہ شہر کی میونسپل کارپوریشن، سینیٹری ورکرز کے لیے ریگولیٹری باڈی کے طور پر کام کرتی ہے۔ یہ ان کی بھرتی، برطرفی، خدمات کی حیثیت اور سازوسامان کی فراہمی کے لیے ذمہ دار ہے۔ شہر کی مجموعی آبادی پانچ لاکھ، 91 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے جو 89 ہزار 70 گھرانوں میں رہائش پذیر ہے۔
یہاں 310 کارکن (175 یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اور 135 مستقل ملازم) ہیں جو صفائی ستھرائی کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر کارکن تقریبا 287 گھروں کی صفائی کی ضروریات کے لیے ذمہ دار ہے۔
'جفاکش مزدور یونین' (جے ایم یو) کے سابق صدر، سینیٹری ورکر شہزاد کہتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے ورکروں کی تعداد کم ہے۔
افرادی قوت کی یہ کمی موجودہ کارکنوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتی ہے۔ شہر کو صاف ستھرا رکھنے کی ضرورت کے باوجود پنجاب حکومت یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو مستقل ملازمت نہیں دے رہی ہے۔
پنجاب حکومت کے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے 2021ء کے ایک نوٹیفکیشن میں بڑی تعداد میں بھرتی عارضی ملازمین کی نشاندھی کی گئی تھی۔ حکام کو بتایا گیا تھا کہ کسی ورکر کو 90 روز سے زائد یومیہ اجرت پر رکھنا غیر قانونی ہے۔ ان احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی دھمکی دی گئی تھی۔
یومیہ اجرت کی پالیسی ریاست کے لیے، خاص طور پر مقامی حکومت کے لیے، شاید قومی خزانے پر مالی بوجھ کو کم سے کم کرنے کا ایک طریقہ ہے لیکن مزدوروں کے لیے، اس کا مطلب بیگار ہے۔
شہزاد کہتے ہیں یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی کسی کو پروا نہیں۔
"وہ مر بھی جائیں انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔"
مقامی حکومت نے ہر 89 دن بعد نئے احکامات جاری کرکے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو مسلسل مزدوری کے چکر میں جکڑے رکھنے کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے۔
شہزاد بتاتے ہیں کہ قانونی طور پر 90 دن کے بعد حکام کو یا تو ملازم کو مستقل کرنا ہوتا ہے یا فارغ، اس لیے ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے تمام ورکروں کی مدت کاغذی طور پر ملازمت 89 دن رکھی جاتی ہے۔
"2016ء کے بعد سے کوئی نئی بھرتی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے افرادی قوت کی بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔"
'مستقل کارکن' یا 'مستقل ملازم'
شہزاد کے ساتھی سجاول نے تحصیل موینسپل کمیٹی شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے 149 دیگر سینیٹری ورکرز کے ساتھ مل کر 2022ء میں لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی کہ ان کی خدمات کو ریگولرائز کیا جائے اور انہیں مناسب مراعات دی جائیں۔
اس پٹیشن میں درج شکایات پنجاب بھر کے سینیٹری ورکرز کی جانب سے شیئر کی گئی ہیں۔ سجاول کے کیس کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں اسی طرح کی 20 سے زائد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
درخواست میں چیف آفیسر میونسپل کارپوریشن شیخوپورہ اور سیکرٹری لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیویلپمنٹ لاہور کو فریق بنایا گیا ہے کیونکہ انہوں نے کئی سالوں سے مزدوروں کو یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کا درجہ دیا ہوا ہے۔
پٹیشن کے جواب میں ہائی کورٹ نے میونسپل کارپوریشن شیخوپورہ کے چیف آفیسر کو حکم دیا کہ وہ تمام فریقین کو سماعت کا موقع فراہم کرنے کے بعد قانون کے مطابق اس معاملے کا فیصلہ کریں۔
چیف آفیسر نے 10 اکتوبر، 2022 کو ایک آرڈر جاری کیا جس میں سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کو بنیاد بنایا گیا۔ اس آرڈر میں درخواست گزاروں اور دیگر سینیٹری ورکرز کو 'مستقل ملازمین' کے بجائے 'مستقل ورک مین' قرار دیا گیا۔
یہ فرق اس لیے اہم ہے کیونکہ 'مستقل ورک مین' کو پنشن، گریجویٹی اور وہ فوائد نہیں ملتے ہیں جن کے 'مستقل ملازمین' حقدار ہیں۔
اس اقدام سے غیر مطمئن مزدوروں نے اس آرڈر کو چیلنج کرتے ہوئے ایک اور درخواست دائر کی، جس میں دلیل دی گئی کہ یہ غیر قانونی ہے اور اس کا اطلاق درخواست گذار پر نہیں ہوتا۔
مزدوروں کے وکیل مدثر فاروق وضاحت کرتے ہیں کہ چیف افسر نے اپنے آرڈر میں 1968ء کے جس آرڈیننس کا ذکر کیا اس کا اطلاق صرف تجارتی اداروں پر ہوتا ہے، مقامی حکومت کوئی تجارتی ادارہ نہیں ہے۔ مقامی حکومت سیوریج، نکاسی آب اور سولنگ سمیت اضلاع اور میونسپل کمیٹیوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے ذمہ دار ہے۔ لہٰذا، اس کی تجارتی ادارے کے طور پر درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔سینیٹری ورکرز پر 1968 کے آرڈیننس کا اطلاق غیر قانونی ہے۔
مدثر مزید کہتے ہیں کہ چیف افسر نے 2013ء والے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی ہے۔ وہ فیصلہ ورکس ڈپارٹمنٹ کے ایک ٹھیکیدار کے ذریعہ کرائے پر رکھے گئے ملازم کے لیے تھا۔
اس کے برعکس، اس معاملے میں، درخواست گزار اور دیگر کارکنوں کو مقامی حکومت کی طرف سے کسی مخصوص تعمیراتی کام کے لیے نہیں، بلکہ ایک ایسے کام کے لیے ملازمت دی گئی تھی جو فطری طور پر مستقل نوعیت کا ہے۔
"یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے سروس سٹرکچر کو چلانے کے لیے مناسب قانونی فریم ورک پنجاب لوکل کونسل سرونٹس (سروسز) رولز 1997 ہے۔"
ان قواعد کے مطابق، کارکنوں کو 'مستقل ملازمین' کے طور پر ریگولرائز کیا جانا چاہئے، جس سے انہیں پنشن اور گریجویٹی سمیت مکمل فوائد حاصل ہوں گے۔
ایک جیسے مزدور، مختلف قوانین
میونسپل کارپوریشن شیخوپورہ 2018ء میں بھی اسی طرح کا کیس ہار چکی ہے۔ شکیل، جنہیں اس کیس کے نتیجے میں ریگولرائز کیا گیا تھا، بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اور 30 دیگر ساتھیوں نے لیبر کورٹ میں رٹ دائر کی اور کیس جیت گئے۔
محکمہ نے لیبر اپیلٹ ٹریبونل میں اپیل کی، جس نے عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ میونسپل کارپوریشن اس معاملے کو ہائی کورٹ لے گئی، لیکن وہاں بھی مزدوروں کے حق میں فیصلہ سنایا گیا۔
قانونی لڑائیوں کی یہ کہانیاں پریشان کن ہیں کہ مزدوروں کے حق میں واضح فیصلوں کے باوجود، محکمہ عدالتی حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے اور مزدوروں کو جائز فوائد دینے سے بچنے کے لیے قانونی خامیوں کا فائدہ اٹھاتا ہے۔
چیف آفیسر میونسپل کارپوریشن کے دفتر نے اس سے پہلے 13 جنوری 2018 کو ایک آفس آرڈر کے ذریعے 28 سینیٹری ورکرز اور پانچ مئی 2019ء کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے نو بیلداروں کو ریگولرائز کیا تھا۔
ریگولرائزیشن کا عمل پنجاب لوکل کونسل سرونٹس (سروسز) رولز 1997 کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
"ستھرا پنجاب" کے ورکروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا ذمہ دار کون ہے؟
مدثر فاروق سوال اٹھاتے ہیں کہ اسی دفتر نے سجاول اور 149 دیگر یومیہ اجرت پر کام کرنے والے سینیٹری ورکرز کے لیے مذکورہ بالا معاملوں میں مزدوروں کے مقابلے میں مختلف آرڈر کیوں جاری کیے اور انڈسٹریل کمرشل ایمپلائمنٹ (اسٹینڈنگ آرڈرز) آرڈیننس 1968ء کے تحت درخواست گزاروں سے نمٹنے پر اصرار کیوں کیا جارہا ہے؟
" شیخوپورہ کی میونسپل کارپوریشن ایک ہی معاملے پر دو مختلف قوانین لاگو کر رہی ہے، جو امتیازی سلوک کے مترادف ہے۔"
بارہ جون 2024ء کو اختتامی دلائل کے دوران پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے اعلان کیا کہ حکومت یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی سروس سٹیٹس سے متعلق تمام ہدایات اور متنازع نوٹسز واپس لینے کا ارادہ رکھتی ہے، جس میں انہیں "مستقل ورک مین" قرار دینا بھی شامل ہے۔
بے خبر سرکاری نظام کی بھول بھلیاں
پنجاب حکومت کی یقین دہانی کے باوجود نہ تو ورکرز کے خلاف متنازع نوٹسز واپس لیے گئے نہ ہی نئی ہدایات جاری کی گئیں۔
لوک سجاگ نے 27 اگست کو سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کے دفتر سے رابطہ کیا تو سیکرٹری نے سرکاری موقف دینے کے بجائے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے رابطہ کرنے کو کہا، حالانکہ اس کمپنی کا پنجاب بھر میں میونسپل کارپوریشنوں کے تحت کام کرنے والے میونسپل ملازمین کے معاملے میں کوئی کردار نہیں ہے۔
تاہم 28 اگست 2024 کو محکمہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ نے پنجاب کی تمام میٹروپولیٹن اور میونسپل کارپوریشنز، کمیٹیوں اور ضلعی کونسلوں کو ہدایت کی کہ وہ ان اداروں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے تمام ورکروں کو شوکاز نوٹس جاری کریں۔
اس ہدایت میں ان تمام اداروں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ذاتی سماعت کا موقع فراہم کریں اور مزدوروں کو "مستقل ورک مین" قرار دینے کے احکامات جاری کریں - ایک ایسی حیثیت جس میں اب بھی بنیادی تنخواہ اور متعلقہ فوائد کا فقدان ہے۔
تاریخ اشاعت 7 ستمبر 2024