پروین کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے علاقے سمینہ سادات کی ایک چھوٹی سی بستی سے ہے۔ پروین اور ان کے شوہر 12 سال سے دریا کے کنارے اپنی آٹھ ایکڑ خاندانی اراضی پر کھیتی باڑی کر رہے تھے مگر 2022ء میں آنے والا سیلاب ان کا گھر بار اور کھیت کھلیان بہا لے گیا۔
اس خاندان کو مجبوراً شہر کا رخ کرنا پڑا۔ پروین اور ان کی دونوں بیٹیاں اب لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی ہیں۔
2022ء کے سیلاب سے بالخصوص دریائے سندھ کے کناروں پر موجود آبادیاں شدید متاثر ہوئیں۔ دریائے سندھ کا کٹاؤ بھی اس سیلاب سے شدت اختیار کر گیا اور آس پاس کا بہت سا رقبہ دریا برد ہونے لگا ہے۔
ریلیف ویب کے مطابق 2022ء میں آنے والے سیلاب سے ضلع میں بچوں اور عورتوں سمیت 67 افراد بچے جاں بحق ہوئے اور 342 دیہات سیلاب کی زد میں آئے، 24 ہزار سے زیادہ گھروں کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا اور لگ بھگ سات لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔
مقامی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق دریائے سندھ کی ضلع میں لمبائی 200 کلومیٹر ہے۔ دریا ضلع کے مشرق میں ہے جبکہ مغربی جانب کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ ہے۔
پہاڑوں سے آنے والی رودکوہیوں اور دریا میں آنے والی طغیانی دونوں کے باعث یہاں سیلاب کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ اپنے مخصوص جغرافیے کے سبب موسمیاتی تبدیلی سے اس خطے کے زیادہ متاثر ہونے کا احتمال رہتا ہے۔
موسمیاتی سروس میٹیو بلیو کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 1994ء کے بعد ضلع ڈیرہ غازی خان میں سب سے زیادہ بارشیں 2022ء میں ہوئیں۔
گزشتہ 10 برسوں میں ان کے پیٹرن میں واضح تبدیلی بھی نظر آتی ہے۔ مثلاً 1979ء کے بعد سب سے زیادہ بارشیں 2010ء، 2015 اور 2020ء میں ہوئیں۔ دوسری جانب ضلع میں 2021ء میں چار دہائیوں میں سب سے کم بارشیں ہوئی تھیں۔
2010ء میں آنے والے سیلاب کو قیام پاکستان کے بعد علاقے میں آنے والا سب سے بڑا سیلاب تصور کیا جاتا ہے۔ دریائے سندھ میں تونسہ بیراج کے مقام پر دو اگست 2010ء کو نو لاکھ 60 ہزار کیوسک کا سیلابی ریلا آیا تھا جو 1958ء میں ریکارڈ کیے گئے سات لاکھ 88 ہزار 646 سے زیادہ تھا۔
پروین کے شوہر لوک سجاگ کو دریائے سندھ کے کنارے اپنی 'بستی بھائی' کی باقیات دکھانے لے گئے۔
انہوں نے بتایا گزشتہ سال کا سیلاب بستی کے 250 گھر، سکول، مسجد، قبرستان سب بہا لے گیا۔ متاثرین میں سے کچھ نے شہر اور آس پاس کے دیہات میں پناہ لے لی۔ بہت سے خاندان چند کلومیٹر کے فاصلے پر بستی کھاکھی میں جا بسے جنہیں رہائش کے مسائل کا سامنا ہے۔
بستی بھائی کے بزرگوں نے بتایا کہ دریا بہت سا زرعی رقبہ بہا لے گیا ہے اور اب بہت سے لوگ ادھر اُدھر مزدوری کر کے پیٹ پالتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 40 برسوں میں دریا ان کی 50 مربع زمین کھا گیا ہے۔
"کاشت کی زمین تو کجا، اب ہمارے پاس گھر بنانے کی زمین بھی نہیں ہے۔ اب ہم نے پانی کے حصول کے لیے زمین میں بور کرنے کا فیصلہ بھی ترک کر دیا ہے۔ کیا فائدہ جب چھ ماہ بعد دریا اسے بھی خراب کر دے گا۔"
ایک بزرگ عورت کا کہنا تھا کہ لوگوں کی تسلی کے لیے دو سال قبل یہاں بند بنانے کی غرض سے 10 ٹرک پتھر لائے گئے تھے، مگر پانی سب پتھر بہا لے گیا۔ ابھی بس دو ٹرکوں کا پتھر پڑا ہے باقی سب دریا کی نذر ہو گیا ہے۔
"وہ رات مُجھے اچھے سے یاد ہے جب مسجد سے اعلان ہو رہا تھا کہ سیلاب آگیا ہے، خود کو سنبھالو، اور اتنے میں مسجد میں پانی آ گیا۔ مسجد کے بعد لوگوں کے گھر تھے۔ ایک طرف قبرستان تھا، دوسری جانب سکول، دریا سب کچھ بہا لے گیا۔ ہر کوئی بس اپنا سامان سمیٹ کر بھاگ رہا تھا۔ "
یہاں کے سابق یونین کونسلر محبوب حسین کشانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر سپر بند بنوانے کی بھرپور کوشش کی، وہ متعدد اعلیٰ حکام تک عرضیاں لے کر گئے۔ اس کے بعد لاہور سے ٹیمیں جائزہ لے کر گئیں۔ سپر بند کی منظوری دے دی گئی، نقشہ بھی تیار ہو گیا مگر عملاً کوئی قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا گیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق انیسویں صدی کے اواخر تک دریائے سندھ کے اطراف جنگلات سے اٹے ہوئے تھے۔ یہ جنگلات لکڑی اور ایندھن کا ذریعہ، مختلف انواع کی جنگلی حیات، دریائی اور مہمان پرندوں کا گھر تھے۔
ان میں لگی جھاڑیاں اور درخت سیلابوں میں قدرتی رکاوٹ تھے جن سے ان کی شدت اور اثرات کم ہو جاتے تھے۔ انسانی آبادی میں اضافے، تعمیرات اور زرعی زمینوں کے پھیلاؤ سے جنگلات کم ہوتے گئے۔
گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق 2001ء سے 2022ء تک ڈیرہ غازی خان میں درختوں کا دو ہیکٹر سایہ ختم ہوا ہے اور 2000ء سے اب تک اس میں چار فیصد کمی ہوئی ہے، یوں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ ہوا ہے۔
آسٹریلیا کی چارلس ڈارون یونیورسٹی اور نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کی ایک تحقیق کے مطابق جنگلات کی کٹائی میں ہر 10 فیصد اضافے کے ساتھ سیلاب کا خطرہ 28 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ جنگلات پانی کو فلٹر کرتے ہیں، کٹاؤ کو کم کرتے ہیں، بارشوں کو کنٹرول کرتے ہیں، زمینی پانی کی سطح برقرار رکھنے اور خشک سالی اور سیلاب کے اثرات کے خلاف بفر کا کام کرتے ہیں۔
بشام زین نے ایکوسٹ کے نام سے ایک گروپ بنایا ہوا ہے جو چند برسوں سے ڈیرہ غازی خان میں جنگلات کی افادیت سے متعلق آگاہی فراہم کر رہا ہے۔ بشام کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے کنارے جنگلات کی دوبارہ شجرکاری آسان حل ہے۔ اس سے نہ صرف دریا کے کٹاؤ کو روکا جا سکتا ہے بلکہ سیلاب کے اثرات کو انتہائی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
سمینہ کی رہنے والی نور بی بی کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کا خاندان کئی سالوں سے زراعت سے وابستہ ہے، مگر اس بدلتی ہوئی آب و ہوا سے ان کی فصل کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مسلسل خشک سالی اور غیر متوقع بارشوں سے ان کے خاندانوں میں مالی عدم استحکام اور خوراک کے حصول میں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔
"ہمارے پاس ساڑھے 10 ایکڑ رقبہ ہے جس میں کپاس اگاتے ہیں۔ بدلتی ہوئی آب و ہوا سے پچھلے سال پیداوار مشکل سے پچاس فیصد تک پہنچی۔ باقی کسانوں کی بھی ایسی ہی صورتحال تھی"۔
یہ بھی پڑھیں
جنگلات کے رقبے میں کمی کا وسطی کرم میں زیرزمین پانی کی کمی سے کیا تعلق ہے؟
وہ بتاتی ہیں کہ بہت سے خاندان دیہی علاقوں میں اپنے گھر بار چھوڑنے اور بہتر مواقع کی تلاش میں دوسرے گاؤں دیہات اور شہروں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہجرت پر بھی منتج ہوتے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسی ہجرتیں عام طور پر داخلی یا اندرون ملک ہوتی ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع ڈیرہ غازی خان کی کل آبادی کا 81 فیصد دیہات میں رہتا ہے۔ دیہات میں لوگوں کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔
نقل مکانی اور ہجرت پر پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کی2017ء میں جاری ہونے والی رپورٹ میں ایک سروے کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے 50 فیصد گھرانوں میں کم از کم ایک نے گاؤں سے ہجرت کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 17 فیصد ہجرتوں کا سبب سیلاب اور بارشیں ہیں۔
پروین کی یادوں سے اپنا آبائی علاقہ محو نہیں ہوا۔ انہیں امید ہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور وہ دریا کے پاس اپنی بستی لوٹ جائیں گے۔
تاریخ اشاعت 6 دسمبر 2023