"خیراتی ہسپتال کے عملے نے شاپر میں بچے کا دھڑ تھما کر کہا فوراً مٹھی ہسپتال جائیں، مریضہ کی حالت نازک ہے"

postImg

جی آر جونیجو

postImg

"خیراتی ہسپتال کے عملے نے شاپر میں بچے کا دھڑ تھما کر کہا فوراً مٹھی ہسپتال جائیں، مریضہ کی حالت نازک ہے"

جی آر جونیجو

بتیس سالہ ملوکاں بھیل کو چند ماہ قبل زچگی کے لیے چھاچھرو میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال لایا گیا تھا جو ان کے گاؤں اکلیوں سے 35 کلومیٹر دور ہے مگر یہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر میسر نہیں تھی۔ ایمرجنسی ڈیوٹی پر موجود عملے نے انہیں فوری طور پر مٹھی ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا۔

ملوکاں کے شوہر دھرموں بھیل لکڑیاں کاٹ کے شہر میں بیچتے ہیں جس سے وہ روزانہ زیادہ سے زیادہ پانچ سو روپے ہی کما پاتے ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ کو چھاچھرو ہی کے ایک خیراتی ہسپتال میں لے گئے جہاں غیر تربیت یافتہ عملے نے زچگی کی کوشش کی تاہم کچھ دیر بعد جواب دے دیا۔

دھرموں بھیل بتاتے ہیں کہ انہوں نے ملوکاں کو دوبارہ ٹیکسی میں بٹھایا اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال مٹھی روانہ ہونے لگے تو خیراتی ہسپتال کے عملے نے انھیں کپڑے میں لپیٹا ہوا ایک شاپر تھما دیا۔ انھوں نے دیکھا تو بچے کے دھڑ تھا اور جب پوچھا یہ کیا ہے؟

" تو جواب ملا بچہ ماں کے پیٹ میں مر چکا ہے آپ جلدی مٹھی ہسپتال پہنچیں۔ ہم نے بچے کو باہر نکالنے کی کوشش کی تھی لیکن "کچھ حصہ" پیٹ میں رہ گیا ہے۔ ہم مٹھی پہنچے تو وہاں ہسپتال کے عملے نے کہا کہ کیس پیچیدہ ہے آپ حیدر آباد چلے جائیں۔ مجبوراً ہم نے سول ہسپتال حیدرآباد جا کر ملوکاں کا آپریشن کرایا۔"

خیراتی ہسپتال کے عملے کی ناتجربہ کاری کی وجہ سے بچے کا سر، دھڑ سے الگ ہو گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک تو انہوں نے اپنا بچہ کھو دیا دوسرا اس مشکل میں کرائے اور دوائی پر ان کے 60 ہزار روپے خرچ ہو گئے جو انہوں نے سود پر لیے تھے۔

اکلیوں گاؤں ہی کے چیتن بھیل ڈی ایچ کیو ہسپتال مٹھی کے باہر بیٹھے ہیں جو اپنی اہلیہ کو  زچگی کے لیے یہاں لائے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے پہلے ٹی ایچ کیو چھاچھرو کا رخ کیا تھا جہاں لیڈی ڈاکٹر تو موجود تھی مگر آپریشن کی سہولت میسر نہیں تھی جس کی وجہ سے انہیں ادھر بھیج دیا گیا۔

"ہم تین ہزار روپے ٹیکسی والے کو دے کر چھاچھرو ہسپتال گئے اور وہاں سے مزید پانچ ہزار خرچ کرکے یہاں آئے۔ اپریشن ہو گیا ہے اور شکر ہے زچہ بچہ دونوں ٹھیک ہیں"۔

چیتن بھیل کراچی کی ایک فیکٹری میں ملازم ہیں جہاں انہیں 25 ہزار روپے ماہانہ اجرت ملتی ہے۔ لیکن ہر ماہ پانچ ہزار روپے گھر آنے جانے میں خرچ ہو جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ والدین بھی ان کے ساتھ رہتے ہیں اور اس طرح کنبے کے چھ افراد کے لیے 20 ہزار روپے میں گزارہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے اہلیہ کو کسی نجی ہسپتال میں لے جانا ان کے لیے ممکن نہیں تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں مٹھی آنا پڑا۔

صرف دھرموں یا چیتن بھیل ہی نہیں بلکہ تحصیل چھاچھرو کی ساڑھے تین لاکھ سے زائد آبادی ایسی ہی تکالیف سے دوچار ہے۔

 تحصیل چاچھرو کا واحد سرکاری ہسپتال 1985ء میں بنا جو اس وقت رورل ہیلتھ سنٹر (آر ایچ سی) تھا۔ اگرچہ یہاں مکمل طبی سہولیات تب بھی میسر نہیں تھیں تاہم دیہی مرکز ہونے کی وجہ سے کم لوگ ادھر کا رخ کرتے تھے۔

تھرپارکر کو الگ ضلعے کا درجہ ملنے پر چھاچھرو کو تحصیل بنا دیا گیا جس کے بعد 2012ء میں حکومت سندھ نے آر ایچ سی چاچھرو کو بھی تحصیل ہسپتال (ٹی ایچ کیو) ڈیکلیئر کر دیا لیکن گیارہ سال بعد بھی اس ہسپتال میں نہ تو ٹی ایچ کیو والی طبی سہولیات فراہم کی گئیں اور نہ ہی نئی عمارت میسر آ سکی۔

آر ایچ سی میں 20 بستروں پر مشتمل وارڈ کی سہولت فراہم کی گئی تھی مگر 27 سال بعد آبادی میں بہت اضافہ ہو چکا ہے اور ٹی ایچ کیو بننے کے بعد اس میں علاج کی امید پر مریض بھی زیادہ آنے لگے ہیں۔

ایم ایس چھاچھرو ڈاکٹر لیکھراج کے مطابق گذشتہ سال یہاں ساڑھے چھ ہزار مریضوں کا علاج کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ او پی ڈی میں اوسطاً روزانہ لگ بھگ 600 مریض آتے ہیں جن میں سے 30 سے 40 مریضوں کو کم یا زیادہ وقت کے لیے داخل کرنا پڑتا ہے جبکہ ہسپتال میں صرف 20 بیڈ دستیاب ہیں۔

عملے کے مطابق جب ان ڈور میں مریضوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض پڑے ہوتے ہیں یا پھر کاریڈور میں بیڈ لگانا پڑتے ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ہسپتال میں آپریشن تھیٹر اور سرجن موجود ہیں مگر آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن تعینات نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی چھوٹے سے چھوٹا آپریشن بھی نہیں ہو پا رہا۔ گائنی آپریشن کا تو تصور بھی محال ہے۔

ڈاکٹر لیکھراج بتاتے ہیں کہ ان کا ہسپتال ابھی تک آر ایچ سی کی طور پر کام کر رہا ہے۔ رواں سال یہاں کے لیے بجٹ میں 18 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے جبکہ سالانہ 30 لاکھ روپے سے زیادہ کی ضرورت ہے۔

"تحصیل ہسپتال میں عام طور پر 140 اسامیاں ہوتی ہیں مگر ہمارے پاس 99 افراد پر مشتمل عملہ موجود ہے، 13 ڈاکٹروں اور نرسز سمیت پیرا میڈیکل سٹاف کی 32 پوسٹیں خالی ہیں"۔

انہوں نے بتایا کہ 2012ء میں اپ گریڈیشن کا اعلان تو کر دیا گیا تھا لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ 2022ء کے صوبائی بجٹ میں 15 کروڑ روپے رکھے تھے مگر اس کی نئی عمارت کے لیے ابھی تک ٹینڈر نہیں ہو سکا جو کہ پرانی عمارت کے ساتھ سرکاری اراضی پر بنے گی۔

ساٹھ سالہ محمد رحیم راہموں چھاچھرو کے رہائشی ہیں۔ وہ 85 کلومیٹر فاصلہ طے کر کے مٹھی آئے تھے۔ رحیم بتاتے ہیں کہ چھاچھرو شہر میں کہیں بھی چیسٹ سپیشلسٹ (ماہر امراض سینہ) نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں یہاں کے دھکے کھانا پڑ رہے ہیں۔

 "چھاچھرو ہسپتال میں ہم ایکسرے تک نہیں کرا سکتے۔ ایک دن میں مغرب کے وقت بچے کو ہسپتال لے گیا تو عملے نے بتایا کہ یہاں بچوں کا ایک ہی ڈاکٹر ہے اور وہ صبح کو آتا ہے۔ میرے بھائی کو کان میں شدید درد ہوا تو ہمیں عمرکوٹ جانا پڑا"۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کیچ کا 'برائے نام سرکاری ہسپتال': مریضوں کو سرنج اور پینا ڈول کی گولی بھی خریدنا پڑتی ہے

سرکاری ریکارڈ کے مطابق ٹی ایچ کیو ہسپتال چھاچھرو میں سینئر میڈیکل افسر، میڈیکل افسر اور ویمن میڈیکل افسر کی تین تین اسامیاں خالی پڑی ہیں جبکہ بچوں کے ڈاکٹر کی دو پوسٹوں میں سے ایک خالی ہے۔ اسی طرح جنرل فزیشن کی ایک اسامی خالی ہے، ریڈیالوجسٹ دستیاب ہی نہیں ہیں۔

ڈسپینسر، سٹور کیپر، ہیلتھ ٹیکنیشن ، ایکسرے ٹیکنیشن، آپریشن تھیٹر ٹیکنیشن ، چوکیدار نائب قاصد کی اسامیاں بھی تعیناتی کی منتظر ہیں ۔

چھاچھرو کے نوجوان سماجی کارکن آر بی گجو کہتے ہیں کہ ٹی ایچ کیو میں ادویات کی قلت رہتی ہے۔ عمارت پرانی اور ناکافی ہےجس کی وجہ سے کبھی کبھی مریض زمین پر لٹا دیے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہسپتال کی ایکسرے مشین خراب رہتی ہے اور مریض چھ چھ سو روپے میں پرائیویٹ ایکسرے کرانے پر مجبور ہیں۔ لیبارٹری میں تین کی جگہ صرف ایک ٹیکنیشن تعنات ہے۔

تعلقہ ہیلتھ افسر چھاچھرو ڈاکٹر نریش کمار اعتراف کرتے ہیں کہ ہسپتال میں بہت مسائل ہیں خاص طور پر لیڈی ڈاکٹروں کی کمی کے باعث لوگوں کو شدید تکلیف کا سامنا ہے۔

"مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں اور میں نے ڈپٹی کمشنر سے بھی بات کی تھی۔تاہم ہمارا کام مانیٹرنگ کرنا ہے ہم جو دیکھتے ہیں وہ محکمے کو لکھ کر بھیج دیتے ہیں"۔

دھرموں بھیل اب اپنا قرض چکا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چھاچھرو کے سرکاری ہسپتال میں سہولتیں ہوتیں تو انہیں کسی خیراتی ہسپتال ، مٹھی یا حیدر آباد نہ جانا پڑتا اور شاید بچہ بھی زندہ ہوتا۔ 

تاریخ اشاعت 26 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.